محترم میاں محمد صدیق بانی صاحب

محترم میاں محمد صدیق بانی صاحب کا ذکر خیر ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 13؍اکتوبر 1995ئ، 2؍فروری 1996ء اور 22؍نومبر 2002ء کے اسی کالم میں قبل ازیں کیا جاچکا ہے۔ ایک تفصیلی مضمون آپ کے بیٹے مکرم شریف احمد بانی صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍ستمبر 2002ء میں بھی شامل اشاعت ہے۔
محترم بانی صاحب کو اپنے والد کی اچانک وفات کی وجہ سے چھوٹی عمر میں ہی کلکتہ جانا پڑا جہاں کئی برس تک آپ ملازمت اور محنت مزدوری کرتے رہے۔ پھر آٹو پارٹس کا ذاتی کاروبار شروع کیا۔ مشرقی ہندوستان میں یہ کاروبار شروع کرنے والے آپ پہلے مسلمان تھے۔ آپ کی امانت اور دیانتداری نے جلد ہی علاقہ بھر میں آپ کی ساکھ قائم کردی اور ہر مذہب والے آپ کے خریداروں میں شامل ہوگئے۔
خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کرنے میں آپ صف اوّل کے مجاہد تھے۔ مسجد مبارک قادیان میں ایک بار حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کے لئے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے تفسیر کبیر کی اشاعت کے لئے چھ ہزار روپے کی رقم پیش کی ہے۔ 1944ء میں کلکتہ میں مسجد کی تعمیر کے لئے آپ کا وعدہ سب سے زیادہ (25 ہزار روپے) تھا۔
قرآن کریم سے آپ کو عشق تھا اور آپ نے آخری چار پارے بھی حفظ کئے ہوئے تھے۔
قادیان کے درویشوں اور اُن کے اہل خانہ کے لئے ہر سال چار ماہ کی گندم کا انتظام آپ نے اپنے ذمہ لے رکھا تھا۔ قادیان کے تمام احمدیہ سکولوں اور مدرسوں کے لئے فرنیچر کے انتظام کے علاوہ پنکھے بھی آپ نے مہیا کئے۔ بہشتی مقبرہ میں روشنی کا انتظام کروایا، خواتین کے لئے کھیلوں کا پارک بنوایا، لنگرخانہ قادیان کی ساری عمارت کا خرچ ادا کیا۔ دو سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے دودھ اور جوان ہونے والی بچیوں کے برقعوں کا انتظام بھی آپ ازخود کیا کرتے تھے، بیماروں کے لئے ایک کثیر رقم ہر سال قادیان بھجواتے۔ منارۃالمسیح کی سفیدی کے لئے گرانقدر عطیہ پیش کیا۔ تقسیم ہند کے بعد قادیان کی زمین کو حکومت سے اڑہائی لاکھ روپے میں حاصل کیا گیا۔ اس وقت بہشتی مقبرہ اور اس سے ملحقہ جائیداد کی ساری قیمت آپ نے ادا کی۔ اسی طرح مسجد اقصیٰ ربوہ کے علاوہ چنیوٹ اور کلکتہ کی مساجد کی تعمیر میں نمایاں خدمت کی توفیق پائی۔
آپ ایک لمبے عرصہ تک جماعت کلکتہ میں قاضی بھی رہے۔ چنیوٹ برادری کے اکثر غیرازجماعت بھی اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کروانے کے لئے آپ کے پاس آیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت اعلیٰ قوت فیصلہ سے نوازا تھا۔ نماز جمعہ کے بعد کئی احمدیوں کو اُن کے دفاتر تک پہنچانے کے لئے اپنی کار پیش کردیتے۔ اگر کبھی لوگ زیادہ ہوجاتے تو اپنی کار پر اُن کو بھیج دیتے اور خود اپنے بیٹوں کے ساتھ ٹیکسی میں چلے جاتے۔
آپ جوانی سے ہی حقہ پیتے تھے۔ دکان پر ایک ملازم صرف حقہ تازہ کرنے پر مامور تھا۔ جب آپ کی نظر سے یہ مضمون گزرا کہ حضرت مسیح موعودؑ تمباکو نوشی پسند نہیں فرماتے تھے تو آپ نے اپنی چالیس پچاس سالہ عادت یکلخت ترک کردی۔
ایک ہوٹل والے کو رقم ادا کرکے آپ بہت سے ٹوکن لے لیا کرتے تھے اور سوال کرنے والے کو ٹوکن دے کر کہتے کہ اُس ہوٹل سے کھانا کھالو۔
بعض دفعہ تربیت کی خاطر بچوں کو ڈانٹتے لیکن اگر کوئی اس وقت ملنے آجاتا تو پھر کبھی نہ ڈانٹتے بلکہ بچہ کی کسی خوبی کو بیان کرتے۔ اگر کبھی کوئی یتیم بچہ آجاتا تو اُس کے سامنے کبھی اپنے بچوں کو پیار نہ کرتے تاکہ وہ اپنے باپ کی کمی محسوس نہ کرے۔ 1974ء میں ربوہ میں پناہ گزین ہونے والے احمدیوں کیلئے گرانقدر رقم ربوہ بھجوائی۔
جب آپ مرض الموت میں مبتلا تھے اور ڈاکٹر جواب دے چکے تھے، ایسے میں آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا یہ ارشاد سنا کہ احمدی 25؍دسمبر 1974 کو عید الاضحیہ کے موقع پر ربوہ پہنچ کر قربانیاں کریں۔ یہ ارشاد سن کر آپ نے ربوہ جانے کی تیاری کرنے کا ارشاد فرمایا۔ لیکن 20؍دسمبر کو ہی آپ کی وفات ہوگئی۔
آپ نے آخری وصیت میں اپنی اولاد سے فرمایا کہ ’’سب سے بڑی دولت جو مَیں تمہارے لئے چھوڑے جارہا ہوں وہ احمدیت ہے، دل و جان سے اس کی حفاظت کرنا‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں