محترم میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍دسمبر 2000ء میں مکرم پروفیسر میاں محمد افضل صاحب اپنے استاد محترم میاں محمد ابراہیم صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قریباً 1920ء میں اہل حدیث کے عالم مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے جموں میں دو تین لیکچر دیئے جن میں احمدیت پر بھی اعتراضات کی بارش برسائی۔ ایسے میں ایک پندرہ سولہ سالہ لڑکے نے سٹیج پر جاکر ایک ایک اعتراض کا مدلل جواب دیا اور کوئی 45 منٹ تک یہ نوجوان بولتا رہا ۔ کامیابی اس نوجوان کا مقدر ٹھہری۔ انہی دنوں غیرمبائعین کے مولوی عصمت اللہ صاحب نے جموں پہنچ کر لیکچر دیئے اور احمدیوں کو مناظرہ کا چیلنج دیدیا۔ اُس وقت بھی یہی لڑکا خود اعتمادی سے آگے بڑھا اور میدان مار لایا۔ یہ نوجوان تھے محترم میاں محمد ابراہیم صاحب۔
جب آپ دسویں کلاس میں تھے تو آپ کے سکول میں روزانہ ایک لیکچر ہوتا تھا جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اپنے مذہب کے حوالہ سے بات چیت کرتے۔ آپ نے محسوس کیا کہ مسلمان اساتذہ کی باتیں نہایت سطحی ہوتی ہیں۔ چنانچہ آپ نے اپنے ماسٹر صاحب سے اپنے بارہ میں عرض کیا اور پھر مسلسل سات روز تک ’’ہستی باری تعالیٰ‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیتے رہے۔ ان لیکچرز کا مواد حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب سے لیا۔
سکول کے زمانہ میں آپ نے تعلیمی اور کھیل کے میدانوں میں بہت سے انعامات حاصل کئے اور اپنا لوہا منوایا۔ کئی امتحانات میں اوّل آتے رہے۔ کالج کی کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے۔ ہاکی میں قادیان کلب کی دھاک بٹھائی۔ جب امریکہ گئے تو اپنی علم دوستی، تعلیم اور زبان سے امریکیوں کو اتنا متأثر کیا کہ 1977ء میں وہاں کی ایک عیسائی تنظیم نے آپ کو ڈاکٹریٹ آف ڈیونٹی کی ڈگری عطا کی۔ لیکن آپ کی انکساری ملاحظہ ہو کہ کبھی اس کا اظہار نہیں کیا کہ آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل چکی ہے۔
آپ کا شمار ایک بہترین استاد کے طور پر کیا جاتا رہا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اپنے بچوں اور دیگر افراد خاندان کا اتالیق آپ کو مقرر کئے رکھا۔ ہیڈماسٹری سے ریٹائرڈ ہوئے تو جامعہ احمدیہ میں پروفیسر لگادیئے گئے۔ دعوت الی اللہ کے لئے امریکہ بھجوائے گئے تو وہاں بھی عیسائیوں سے متعدد کامیاب مباحثے کئے۔ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ اور ’’مسلم سن رائز‘‘ کی ادارت کی بھی توفیق پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں