محترم مولوی نور احمد ولد غلام محمد جُو صاحب

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
محترم مولوی نور احمد صاحب پیدائشی احمدی تھے۔ پرائمری کے بعد قادیان گئے اور مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ 1937ء میں مولوی فاضل پاس کرنے کے بعد ریاست کشمیر کے محکمہ تعلیم میں ملازم ہوئے اور مختلف علاقوں میں طویل عرصہ بطور استاد کام کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہوکر اپنی زمینوں وغیرہ کو سنبھالنے لگے۔
5؍ اپریل 1979ء کو ہزاروں لوگوں پر مشتمل ہجوم آپ کے گاؤں کوریل میں داخل ہوا اور احمدیوں کے پندرہ گھروں کو آگ لگانے اور لُوٹنے کے بعد مولوی نور احمد صاحب کے گھر کا رُخ کیا۔ آپ نے اپنے مکان کی تیسری منزل پر اپنے دو بیٹوں کے ساتھ مل کر ہوائی فائرنگ کی تو ہجوم فائرنگ کی آواز سن کر پیچھے ہٹ جاتا اور پھر حملہ آور ہوتا۔ اس طرح ساڑھے چار بج گئے جب غالباً آپ کے پاس کارتوس ختم ہوگئے تھے۔ چنانچہ حملہ آور گھر میں داخل ہوگئے۔ آپ کے دونوں بیٹے تو بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے مگر مولوی نور احمد صاحب حملہ آوروں کے قابو میں آگئے۔ دشمن آپ کو گھسیٹ کر صحن میں لے آیا اور پتھروں سے کُوٹ کُوٹ کر آپ کو شہید کردیا۔ ان حملہ آوروں میں بہت سے نوجوان آپ کے شاگرد بھی تھے۔ شہید نے اپنے پیچھے اپنی اہلیہ آمنہ بیگم صاحبہ، دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑے ہیں۔
4؍ اور5؍ اپریل1979ء کے اس سانحہ میں وادیٔ کشمیر کے مختلف دیہات میں احمدیوں کے چار سو گھر لُوٹے اور جلائے گئے تھے اور کئی مساجد شہید کردی گئی تھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں