محترم مولوی عبد الحمید مومن صاحب درویش قادیان

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں مکرم عبد الروف نیرّ صاحب (مولوی فاضل) کے قلم سے اُن کے والد محترم مولوی عبدالحمید مومن صاحب درویش کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
محترم مولوی عبدالحمید مومن صاحب 2؍اگست 1916ء کو ضلع فیصل آباد کے ایک گاؤں میں محترم اللہ دتہ صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جو ہوشیارپور کے مشہور تاجر تھے اور تقسیم ہند سے قبل ہی لائلپور (فیصل آباد) میں منتقل ہوگئے تھے۔ وہ تہجدگزار اور نیک شخص تھے۔ اُن کے قبول احمدیت کا واقعہ یوں ہے کہ ایک مرتبہ اُن کی گردن میں سخت تکلیف دہ پھوڑا نکلا تو انہوں نے خواب میں دو افراد دیکھے۔ ایک نے کہا کہ ان کا وقت پورا ہو گیا ہے۔ دوسرے نے کہا کہ نہیں نہیں ، یہ نیک شخص ہے، انہیں ایک موقع اَور دینا چاہئے۔ بعد میں جب آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی تصویر دیکھی تو پہچان لیا کہ انہی کو خواب میں دیکھا تھا اور پھر احمدیت قبول کرلی۔
محترم اللہ دتّہ صاحب کی وفات اُس وقت ہوئی جب محترم مولوی عبدالحمید مومن صاحب بچے ہی تھے۔ لہٰذا آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے ننہال میں ہی ہوئی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرکے فوج میں ملازم ہوگئے۔ آپ کو دینی علوم اور تبلیغ کا بہت شوق تھا اور اسی وجہ سے فوج میں سخت مخالفت شروع ہو گئی۔ قریباً 1945ء میں آپ قادیان تشریف لائے اور یہیں آپ کی شادی آپ کی ماموں زاد ہمشیرہ سے ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد ملک تقسیم ہو گیا اور آپ نے درویشی کی زندگی اختیار کرلی۔ پھر آپ نے دیہاتی مبلغین کلاس میں تعلیم حاصل کی۔بعد ازاں یونیورسٹی سے ادیب فاضل بھی کیا۔ کچھ عرصہ میدان تبلیغ میں کام کیا اور پھر مرکز میں مختلف دفا تر میں لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی۔ سکھ ازم اور عیسائیت کے متعلق آپ کی معلومات بہت وسیع تھیں ۔ گروگرنتھ صاحب اور بائبل کا گہرا مطالعہ تھا۔
دورِ درویشی کی ابتدا میں گھر میں تنگی و ترشی بھی رہی اور کئی مرتبہ فاقہ کشی کی نوبت آئی مگر آپ درویشی کے عہد کو بڑے حوصلہ، توکّل اور ثابت قدمی سے نبھاتے رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی تحریک پر آپ نے ذاتی کام کرنا بھی شروع کیا اور تالوں، چھاتوں کی مرمت کی دکان کھول لی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کام میں برکت دی لیکن آپ کا دل ہمیشہ مسجد سے اٹکا رہتا۔ چندہ جات کی ادائیگی ہمیشہ بروقت کرتے۔ تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ تلاوتِ قرآن کریم باقاعدگی سے ترجمہ کے ساتھ کرتے۔ توّکل کا یہ عالم تھا کہ ابتدائے درویشی میں ایک بار جبکہ آپ کی اہلیہ محترمہ بیمار تھیں اور کھانے کی پریشانی تھی، آپ نے سب ڈبے جھاڑ کر تھوڑا سا آٹا نکالا ۔ آٹا گوندھ کر خدا تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے اس کو ڈھانپ دیا اور برکت کی دعا کی۔ پھر روٹی بناتے رہے مگر کپڑا اٹھاکر نہیں دیکھا۔ دو یا تین دن اسی طرح گزر گئے تو آپ کوخیال آیا کہ دیکھنا چاہئے کہ اس میں کتنا آٹا موجود ہے۔ جب کھول کر دیکھا تو وہ بالکل اُتنا ہی تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ ختم ہو گیا۔
تقسیم ملک کے بعد آپ 1963ء میں مع فیملی پاکستان آئے اور حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات کی۔ 2004ء میں لندن جلسہ پر آنے اور حضور انور ایدہ اللہ سے ملاقات کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔
آپ کی پہلی شادی سے کوئی اولاد نہ تھی۔ چنانچہ دوسری شادی مکرمہ سیدہ امتہ اللہ فہمیدہ صاحبہ بنت مکرم سید محی الدین صاحب (ابن حضرت منشی شفیق الدین صاحبؓ ساکن محی الدین پورسونگڑہ اُڑیسہ) کے ساتھ ہوئی۔ ان سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو 5بیٹوں اور 3بیٹیوں سے نوازا۔
(نوٹ: محترم مولوی عبد الحمید مومن صاحب کی وفات 11؍ستمبر 2013ء کو قریباً 97 سال کی عمر میں ہوئی اور آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے۔)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں