محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14 ستمبر 2009ء میں محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم سعید احمد انور صاحب لکھتے ہیں کہ محترم مولانا صاحب بیشمار خوبیوں کے مالک تھے ۔ بلند پایہ عالم ہونے کے باوجود ہمیشہ عاجزانہ رنگ اختیار کئے رکھا۔
حضور انور اید ہ اللہ نے آپ کو انسائیکلوپیڈیا کے لفظ سے بھی نوازا۔ اس حوالہ سے ایک واقعہ یوں ہے کہ خاکسار کے دادا جان کی حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرنے سے متعلق ریکارڈ سے کچھ معلوم نہیں ہوپارہا تھا جبکہ میرے دادا حضرت محمد عبداللہ صاحبؓ نے اپنی قبول احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے خود بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ سیالکوٹ تشریف لانے والے تھے کہ سیالکوٹ شہر میں پیر جماعت علی شاہ نے ایک مناد کے ذریعہ اعلان کرانا شروع کر دیا کہ جو شخص مرزا سے ملے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ مَیں اور میرے بڑے بھائی عبد الرحمن چونڈہ سے سیالکوٹ آئے ہوئے تھے۔ جب ہم نے یہ اعلان سنا تو آپس میں مشورہ کیا کہ ہمارا نکاح ہوا ہی نہیں تو ٹوٹنے کا سوال نہیں پیدا ہوتا، چلو چل کر سنتے ہیں کہ مرزا صاحب کہتے کیا ہیں۔ چنانچہ ہم دونوں بھائی سیالکوٹ کی چھوٹی مسجد میں چلے گئے جہاں حضرت مسیح موعودؑ نماز کے لئے تشریف لائے۔ ہم نے کبھی نماز پڑھی نہیں تھی بس پچھلی صف میں کھڑے ہو گئے اور جیسے دوسرے لوگ نماز پڑھ رہے تھے، ہم بھی پڑھتے رہے۔ نماز کے بعد حضرت مسیح موعودؑ چل کر ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمیں پیار کیا۔ اس کے بعد ہم گھر واپس آگئے لیکن خاموش بیٹھے رہے۔ جس پر والدہ صاحبہ نے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟آج تم دونوں بہت چپ ہو؟ ہم نے ٹالنا چاہا لیکن انہوں نے جب دو تین بار پوچھا تو بڑے بھائی نے صرف اتنا کہا کہ ’’بے بے ! نماز پڑھا کرو‘‘۔ اتنا سننا تھا کہ والدہ صاحبہ نے شور مچادیا کہ اے عبداللہ کے باپ! بیٹے مرزائی ہو گئے ہیں۔ یہ سن کر والد صاحب نے ایک ڈنڈا اٹھایا اور مارنے کو دوڑے۔ بڑے بھائی تو دیوارپھلانگ کر بھاگ گئے لیکن مَیں قابو آ گیا اور میری خوب پٹائی کرکے والد صاحب نے مجھے بھی گھر سے نکال دیا۔

قصہ مختصر یہ کہ میرے دادا کی بیعت کا سال معلوم نہیں ہوپارہا تھا۔ وہ بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہیں اور ان کے کتبہ پر ان کا وصیت نمبر لکھا ہے لیکن دفتر وصیت کے ریکارڈ سے بھی بیعت کا ریکارڈ نہیں ملا کیونکہ جب دادا جان نے وصیت کی تھی اُس وقت وصیت فارم پر بیعت کا خانہ نہیں ہوتا تھا۔ خاکسار بہت مایوس ہوا لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب کو لکھوں شاید وہ میری مشکل حل کر سکیں۔چنانچہ میں نے ان کو خط لکھااور انہوں نے چند دن بعد ہی جواباً تحریر فرمایا کہ:
’’ حضرت عبداللہ صاحب چونڈہ کی بیعت’’ سلسلہ حقّہ کے نئے ممبر‘‘ کے زیر عنوان نمبر 18 پر اخبار بدر 9 مئی 1907 ء صفحہ 11 پر شائع ہوا ہے ‘‘۔
چنانچہ کم از کم خاکسار کو اتنا تو علم ہو گیا کہ میرے دادا جان نے1907 ء کے شروع میں بیعت کی ہو گی۔
اسی طرح 1995 ء میں ایک غیر احمدی دوست نے مجھ سے پوچھا کہ سردار شوکت حیات صاحب کی کتاب THE NATION THAT LOST ITS SOUL میں لکھا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے 1946 ء کے انتخابات میں جماعت احمدیہ نے مسلم لیگ کے امید وار کے مقابل یونی نسٹ پارٹی کی طرف سے اپنا ایک احمدی امیدوار کھڑا کیا تھا، اس سے تو جماعت کے اینٹی مسلم لیگ ہونے کا اشارہ ملتا ہے ۔ خاکسار نے اس وقت کے امیر یوکے محترم آفتاب احمد خانصاحب کو اس بارہ میں خط لکھ کر پوچھا کیونکہ وہ پاکستان کی ڈپلومیٹک سروسز میں مختلف ممالک میں سفیر رہ چکے تھے اور میرا خیال تھا کہ انہیں اس بات کا علم ہو گا لیکن انہوں نے میرا خط محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کی خدمت میں ربوہ بھجوا دیا اور پھر کچھ ہی دنوں بعد مجھے مولانا موصوف کا اس سلسلہ میں ایک مفصّل خط موصول ہوا جس میں لکھا:
آپ کا مکتوب گرامی جو سردار شوکت حیات صاحب کی تازہ تالیف “The Nation that lost its soul” کے باب 5 صفحہ 147 سے متعلق ہے … بغرض تحقیق و جواب موصول ہوا۔
عرض خدمت ہے کہ الیکشن پنجاب اسمبلی (1946ء) کے موقع پر ناظر امور عامہ قادیان کی طرف سے الفضل 28 جنوری 1946 صفحہ5-6 پر ان 57 امید واروں کی فہرست شائع کی گئی جن کے حق میں جماعت احمدیہ کی اکثریت نے باہمی مشورہ سے مدد دینے کا وعدہ کیا تھا۔ فہرست میں مسلم لیگ کے 26، یونی نسٹ پارٹی کے 15، آزاد 15 اور زمیندار لیگ کے ایک امیدوار کے نام درج تھے۔ جن مسلم لیگی امید واروں کو جماعت نے ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ان میں سے سردار شوکت حیات خانصاحب۔ سرفراز خانصاحب نون۔ بیگم تصدق حسین۔ بیگم شاہنواز۔ نواب صاحب ممدوٹ۔ میاں افتخار الدین صاحب اور چوہدری فضل الٰہی صاحب وکیل گجرات (بعدازاں صدر پاکستان) خاص طور پر قابل ذکر تھے۔ میاں محمد ممتاز صاحب دولتانہ دیہاتی حلقہ انتخاب میں نارووال تحصیل سے کھڑے ہوئے تھے۔ جہاں دولتانہ صاحب کے کھڑے ہونے سے پہلے ہی یونی نسٹ پارٹی نے حضرت نواب محمد دین صاحب کے سب سے چھوٹے صاحبزادے نوابزادہ چوہدری محمد نقی صاحب بیرسٹر کو ٹکٹ دے رکھا تھا لیکن پارٹی کو جونہی معلوم ہوا کہ اس حلقہ سے لیگ کی طرف سے ممتاز دولتانہ امیدوار ہیں اس لئے اس نے اس سیٹ پر نواب محمد دین صاحب کو کھڑا کر دیا۔ چونکہ جماعت یہ وعدہ کر چکی تھی کہ اس حلقہ کی جماعت کے ووٹ یونی نسٹ امیدوار کو دیئے جائیں گے اس لئے جماعتی وعدہ کے عین مطابق حضرت نواب محمد دین صاحب یونی نسٹ پارٹی کی طرف سے کھڑے ہوئے۔ یہ ساری تفصیل سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے بنفس نفیس 8 مارچ 1946ء کو خطبہ جمعہ کے دوران بیان فرما دی جو الفضل 20 مارچ 1946ء صفحہ 5-6 پر شائع شدہ ہے۔ لہٰذا حضرت امیر صاحب ضلع سیالکوٹ نواب محمد دین صاحب کی نسبت کسی واضح ہدایات کی خلاف ورزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں