محترم مرزا عبدالحق صاحب

مجلس انصاراللہ کینیڈا کے رسالہ ’’نحن انصاراللہ‘‘ جولائی تا ستمبر 2006ء میں مکرم چودھری رشیدالدین صاحب کا ایک تفصیلی مضمون محترم مرزا عبدالحق صاحب کی سیرۃ و سوانح پر مشتمل شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں حضرت مرزا صاحب کا ایک انٹرویو ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 18؍اکتوبر 2002ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔ نیز حضرت مصلح موعودؓ کی یادوں پر مشتمل آپ کے مضامین بھی 10؍جنوری1997ئ، 21؍اگست 1998ء اور 25؍فروری2002ء کے شماروں کے اسی کالم میں شائع ہوچکے ہیں۔
محترم مرزا عبدالحق صاحب کا آبائی وطن جالندھر تھا۔ یہیں جنوری 1900ء میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ آپ کے والد قادر بخش شاد صاحب ایک دیندار اور پڑھے لکھے شخص تھے اورشعر بھی کہتے تھے۔ لیکن وہ احمدیت سے محروم رہے۔ تاہم آپ کے بھائی بابو عبدالرحمن صاحب (جو آپ سے بائیس برس بڑے تھے) اورچچا محترم بابو محمد یوسف صاحب کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بابرکت زمانہ میں ہی بیعت کی توفیق مل گئی۔ یہ دونوں بزرگ شملہ میں ملازم تھے۔ 1914ء میں بدقسمتی سے آپ کے بھائی غیرمبایعین میں شامل ہوگئے اور اسی حالت میں 1952ء میں راولپنڈی میں وفات پائی۔ لیکن آپ کے چچا پورے اخلاص کے ساتھ خلافت سے وابستہ رہے، وہ قادیان میں فوت ہوئے اوربہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے۔
اڑھائی سال کی عمر میں (1903ء) آپ کے والد فوت ہوگئے اورسات سال کی عمر میں والدہ بھی داغ مفارقت دے گئیں۔ پھر آپ کے بڑے بھائی بابوعبدالرحمن صاحب نے اپنے پاس شملہ میں رکھ کر آپ کی پرورش بڑی محبت اورشفقت سے کی۔
1914ء میں آپ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ جب جماعت میں اختلافی بحث سنتے سنتے دَسویں میں پہنچے تو آپ کا دل پورے طورپر خلافت کی طرف مائل ہوگیا اور آپ نے خاموشی سے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا۔
جب کالج میں داخلہ لینے کے لئے آپ لاہور آئے تو ابتداء ً اپنے بھائی کی ہدایت کے مطابق مولوی صدردین صاحب ہیڈماسٹر مسلم ہائی اسکول لاہور (جو بعد میں امیرجماعت غیرمبایعین ہوئے) کے ہاں رہائش رکھی۔ ایک دن آپ کو ایک جگہ احمدیہ ہوسٹل کا بورڈ نظرآیا۔ چنانچہ آپ ہوسٹل کے اندر چلے گئے۔ وہاں مُقیم لڑکے بہت محبت اوراخلاق سے پیش آئے۔ اکثر لڑکوں نے اڑھیاں رکھی ہوئی تھیں اوروہ دِیندار اورمُخلص نظرآتے تھے۔ آپ کو یہ دِینی ماحول بہت پسند آیا۔ آپ اُسی روز اپنا سامان وہاں لے آئے۔ پھر دسمبر میں قادیان جاکر جَلسہ سالانہ میں شامل ہوئے۔ آئندہ سال گرمیوں کی چُھٹیوں میں جب آپ اپنے بھائی کے پاس شِملہ گئے تو اُس وَقت تک اُنہیں آپ کی بیعت کا علم ہوچکا تھا۔اُنہوں نے تبادلہ خیالات کے ذریعہ آپ کی رائے بدلنے کی کوشش کی لیکن آپ ثابت قدم رہے۔ مہینہ بھر کی بحث کے بعد بھی جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے تو انہوں نے ناراضگی کابَرملا اِظہارکیا اوردَبائو ڈَالنے کی کوشش کی، لیکن آپ پر اُس کا کچھ اثر نہ ہوا اور آپ نے اِرادہ کرلیا کہ کالج کی تعلیم چھوڑ کر ملازمت حاصل کرلیں تاکہ بڑے بھائی صاحب کے زیرِاحسان نہ رہیں۔ آپ کے اس اِرادہ کاعلم جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو ہوا تو حضورؓ نے آپ کو ہدایت نے فرمائی کہ کالج کی تعلیم جاری رکھیں، آپ کے اخراجات کا میں خود ذِمہ دار ہوں گا۔ کچھ عرصہ بعد بھائی نے آپ کی ثابت قدمی دیکھتے ہوئے آپ سے صلح کرلی اور تعلیمی اخراجات مہیا کرنا شروع کردیئے۔ 1921ء میں B.A. کرکے آپ شِملہ میں ملازم ہوگئے۔ آپ کو سیکرٹری مال بھی مقرر کردیا گیا۔ 1922ء میں جماعت احمدیہ کی پہلی مجلس مشاورت قادیان میں منعقد ہوئی تو آپ شِملہ کی جماعت کی طرف سے بطورنمائندہ شامل ہوئے۔
1922ء میں آپ نے ملازمت سے استعفیٰ دیدیا اور لاء کالج لاہور میں داخل ہوگئے۔ لیکن آپ کا اکثر وقت قرآن مجید اوردینی کتب کے مطالعہ میں صرف ہوتا۔ اس دورمیں آپ دُنیا سے بے نیاز اور خداتعالیٰ کے عِشق میں مگن نظر آتے۔ حضرت مسیح موعودؑ کا یہ فارسی شعر ہمیشہ پیش نظر رکھتے: (ترجمہ)
’’اے خدا! پہلے تو تُو اپنے بندہ کو اپنی محبت میں دیوانہ بنادیتا ہے اور پھر اُسے دونوںجہان بخش دیتا ہے۔ لیکن جو بندہ آپ کے عشق میں دیوانہ ہوجائے اسے دُنیا جہاں کی نعمتوں میں کچھ دلچسپی باقی نہیں رہتی۔ وہ انہیں کیا کرے گا۔ اُس کا مقصود ومطلوب تو صرف تیری چاہت اورالفت ہی رہ جاتی ہے۔ ‘‘
آپ اپنی اسی حالت میں مگن تھے اورپڑھائی کی طرف توجہ نہ تھی، چنانچہ دوسرے سال کے امتحان میں فیل ہوگئے اور دِل برداشتہ ہوکر شملہ جاکر پھر ملازمت اختیار کرلی۔ لیکن اب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ایسی محبت غالب آئی کہ آخر آپ نے ملازمت اوردیگر سب تعلقات کو تِیاگ کر قادیان کے لئے رختِ سفر باندھ لیا۔ وہاں جلد ہی آپ کو احمدیہ اسکول میں انگریزی ٹیچر کے طورپر ملازمت مل گئی۔ قادیان پہنچ کر گو آپ مطمئن ہوگئے لیکن حضورؓ آپ کو ایل ایل بی کرنے کی طرف توجہ دلاتے رہے۔ مجبوراً آپ نے 1925ء میں یہ امتحان پاس کرلیا۔ گو طبیعت پریکٹس کی طرف مائل نہ تھی اور آپ زِندگی وَقف کرنا چاہتے تھے۔ لیکن حضور کے ارشاد فرمانے پر آپ نے 2 جنوری 1926ء کو گورداسپور میں وکالت شروع کردی۔ ظاہری حالات کے برعکس آغاز سے ہی اچھی آمد شروع ہوگئی۔ 1926ء میں ہی حضورؓ نے آپ کو مجلس مشاورت کے لئے نمائندہ خصوصی مقرر فرمایا۔ اُس کے بعد آپ ہمیشہ مجلس مشاورت میں شامل ہوتے رہے اورکئی دفعہ حضورؓ کی معاونت کی توفیق پائی۔ گورداسپور میں پہلے صدر جماعت پھر امیر جماعت اور پھر امیر ضلع رہے۔ اس دوران بھی ہر ہفتہ اٹھارہ میل کا فاصلہ سائیکل پر طے کرکے قادیان جایا کرتے۔ حضورؓ اگر قادیان سے باہر ہوتے تو آپ وہاں پہنچ جاتے۔ آپ کا ایک بستر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں بندھا پڑا رہتا اور حضورؓجہاں تشریف لے جاتے، تودوسرے سامان کے ساتھ آپ کا بستر بھی چلاجاتا۔ 1926ء میں ہی حضورؓ نے ایک رؤیا دیکھا جو آپ کے حضورؓ کے ساتھ تعلق کو مزید بڑھانے کا موجب ہوا۔ حضورؓ نے دیکھا: ’’میں مسجد مبارک کے اس حصہ میں کھڑا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بنایا ہواہے۔ محموداللہ شاہ صاحب اور ایک اورشخص جو یاد نہیں رہے وہاں کھڑے ہوئے ہیں اور ہم اس قدر پاس کھڑے ہیں کہ قریباً قریباً بغلگیر ہونے کی حالت ہے۔ میں نے سید محمود اللہ شاہ صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا ہے انہوں نے دوسرے آدمی کے۔ اس تیسرے آدمی اورمیرے درمیان جگہ خالی ہے۔ اتنے میں آپ آکر اس جگہ کھڑے ہوگئے ہیں اور اس قدرقریب ہوکر اس حلقہ میں داخل ہوکرمیرا بازویا سینہ اس طرح چھونا شروع کیا ہے جس طرح کوئی محبت سے چھوتاہے۔ اس پر میں نے بھی محبت سے اپنا ہاتھ اُٹھا کرآپ کے دائیں کان کا گوشت ہاتھ میں پکڑ کراس طرح ملنا شروع کیا ہے جس طرح پیار اور سرزنش دونوں مدنظر ہوتے ہیں اورباپ اپنے بچہ کو محبت سے تنبیہ کرتا ہے۔ اس پر آپ بھی مسکرا پڑے ہیں اورمیں بھی مسکرارہا ہوں۔‘‘
1927ء میں آپ ڈلہوزی میں تھے جب حضورؓ بھی وہاں تشریف لائے۔ آپ کو دیکھا تو ارشاد فرمایا کہ ہمیں جو کوٹھی ملی ہے وہ اچھی بڑی ہے، آپ بھی وہاں آجائیں۔ چنانچہ آپ کو بیس دن تک حضورؓ کی پاکیزہ صحبت میں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایسی ہی پدرانہ شفقت کے کئی واقعات پیش آئے۔
ایک مرتبہ حضورؓ مالیر کوٹلہ تشریف لے جارہے تھے۔ رستہ میں حضور ؓ نے بیاس ریلوے ریسٹ ہائوس میں کچھ دیر قیام فرمانا تھا۔ مرزاعبدالحق صاحب سے یہ پروگرام طے تھا کہ وہ گورداسپور سے سیدھے وہاں پہنچ کر حضورؓ کے قافلہ میں شامل ہوجائیں۔ آپ کسی وجہ سے مقررہ وقت سے تین گھنٹہ بعد عشاء کے وقت وہاں پہنچے۔ یہ تمام وقت حضور ؓنے صرف آپ کے اِنتظار میں کاٹا اورپھر شَفٛقت اوراحسان کا یہ کمال کہ ذرہ بھر ملال کا اظہار نہ فرمایا۔ آرام سے آپ کو کھانا کھلایا گیا۔ رات گہری ہوچکی تھی تاہم حضورؓ سفر پر روانہ ہوگئے۔ حضورؓ نے کار میں آپ کو اپنے ساتھ بٹھالیا۔
حضور اپنے خدام سے بے تکلّف بھی تھے۔ ایک دفعہ کشمیر میں حضورؓ کاقیام ہاؤس بوٹ میں تھا جبکہ آپ حضرت خلیفہ نورالدین ؓ (جمونی) کے ہاں قیام پذیر تھے۔ ایک دن حضورؓنے آپ دونوں کو کھانے پر بلایا۔ جب یہ گئے تو حضورؓ ایک قالین پر تشریف فرما تھے۔ یہ ذرا ہٹ کر بیٹھ گئے۔ حضورؓنے فرمایا کہ آپ میرے ساتھ قالین پر بیٹھ جائیں۔ مرزا صاحب توخاموش بیٹھے رہے جبکہ خلیفہ نورالدینؓ صاحب نے جواباً کہا: ’’حضور! ایک مسند پر ایک خلیفہ ہی سجتا ہے‘‘۔ اس جواب پر حضورؓ بہت محفوظ ہوئے۔
محترم مرزا عبدالحق صاحب کا یہ اصول تھا کہ جتنا وقت دُنیوی کام میں صَرف ہو اس سے دُوگنا وقت دِین کے کاموں میں صَرف کیا جائے۔ آپ عمربھر اس اصول پر قائم رہے۔ آپ کی وصیت تو 1/10 حصہ کی تھی لیکن عملاً 1/3اداکرتے تھے۔ آپ کو پس انداز کرنے کی عادت نہ تھی۔ ماہ بماہ آمد سے ہی گزراوقات ہوتی تھی۔ تقسیمِ ملک کے وقت حالات مخدوش ہونے کی وجہ سے کام بند ہوگیا تو آمد بھی بند ہوگئی۔ اِن دِنوں پہلے توآپ حضورؓ کے حکم کے مطابق مسلمانوں کو پاکستان بھجوانے میں مدد دیتے رہے پھر حضورؓکے ارشاد پر قادیان میں تین ماہ تک خدمات سلسلہ بجالاتے رہے اور حضورؓ کے ارشاد کی تعمیل میں آخری قافلہ کے ساتھ 16نومبر 1947ء کو پاکستان آئے۔ فرماتے ہیں کہ ان دونوں میرا کوئی ذریعہ آمد نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس عرصہ کیلئے پہلے سے انتظام کررکھا تھا۔ اوروہ یوں کہ میں نے قادیان میں مکان کیلئے کچھ زمین خرید رکھی تھی۔ 1946ء میں اس میں سے ایک کنال چارہزار روپے میں فروخت کردی کہ اس میں کچھ اوررقم ملاکر بقیہ زمین پر مکان تعمیر کرلیں گے۔ تقسیم ملک کے وقت چارپانچ ماہ کی بیکاری کے عرصہ میں یہ روپیہ میرے کام آیا۔
ابھی آپ قادیان میں ہی تھے کہ حضور نے آپ کو تحریر فرمایا کہ پاکستان آنے پرآپ سرگودھا یا جھنگ میں پریکٹس کریں۔ ہمارا مرکز تو جھنگ کے ضلع میں ہوگا تاہم یہ جگہ سرگودھا کے زیادہ قریب ہوگی۔ لاہورآکر آپ نے سرگودھا میں کام شروع کرنے کا ارادہ کرلیا۔ آپ کو خدشہ تھا کہ اس اجنبی علاقہ میں شاید پریکٹس کامیاب نہ ہو۔ پھر یہ کہ کام چلنے کے لئے کچھ وقت چاہئے اورمالی لحاظ سے انتظار کی گنجائش نہ تھی۔ اسی فکر میں تھے کہ آپ کی ملاقات جسٹس کیانی صاحب سے ہوئی وہ کچھ عرصہ گورداسپور میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رہ چکے تھے اور مرزا صاحب سے دوستانہ مراسم رکھتے تھے۔ پاکستان بننے پر ابتدائی طور پر وہ لیگل ریممبرنسرلگ گئے تھے۔ حالات معلوم ہونے پر انہوں نے کوشش کرکے آپ کو سرگودھا میں سرکاری وکیل مقرر کروادیا۔ چنانچہ جنوری 1948ء آپ نے چارج لے لیا اور کچھ وقت بعد، ساتھ ہی دیوانی کام بھی شروع کردیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں