محترم قاضی شریف الدین صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16نومبر 2011ء میں مکرم ملک طاہر احمد صاحب کے قلم سے اُن کے خسر مکرم قاضی شریف الدین صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
محترم قاضی شریف الدین صاحب مئی 1909ء میں ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ آپ نے 1939ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ آپ کے خاندان ’شیخ قانونگو‘ میں آپ سے پہلے صرف آپ کے تایا مکرم ڈاکٹر لعل دین صاحب نے احمدیت قبول کی تھی۔ احمدی ہونے کے بعد وہ ہوشیارپور سے قادیان چلے گئے تھے۔
محترم قاضی شریف الدین صاحب اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ مَیں ایک مسلمان گھرانہ میں پیدا ہوا لیکن سوائے چند رسوم کے مجھے اسلام کے بارہ میں کچھ پتہ نہیں تھا۔ 1925ء میں میٹرک کے بعد ایک دوست کے ساتھ ایک دن کے لئے قادیان دیکھنے بھی گیا۔ دو نمازیں حضرت مصلح موعودؓ کی اقتداء میں ادا کیں ۔ نمازیں نہایت خشوع و خضوع سے ادا ہوئیں جس کا بہت اچھا تاثر لیا۔ اس کے بعد 1932ء میں رسالہ ’ریویو آف ریلیجنز‘ کبھی کبھی دیکھنے کا موقع ملا تو حضرت مسیح ناصریؑ کی وفات کا مسئلہ قدرے سمجھ میں آیا۔ محکمہ ریلوے میں ملازمت شروع کی تو 1935ء کے زلزلہ سے قبل ہی میری ٹرانسفر کوئٹہ میں ہوچکی تھی۔ تب بھی اپنے تایا کے ہاں کبھی کبھی قادیان جاتا تھا۔ 1938ء میں مجھے قادیان جانے کا جب اتفاق ہوا تو جمعہ کا دن تھا۔ مَیں نے اپنے تایازاد بھائی سے کہا کہ جمعہ کی نماز کے لئے مجھے مسلمانوں کی مسجد میں پہنچا دے۔ اُس نے کہا کہ نماز احمدیوں کے ساتھ نہ بھی پڑھوں تو بھی اُن کی مسجد میں خطبہ جمعہ ضرور سُن لوں ۔ مگر مَیں رضامند نہ ہوا تو وہ مجھے مسجد ارائیاں میں چھوڑ آئے۔ وہاں پر مولوی صاحب نے ہندوستان کی کانگریسی وزارتوں کی تعریف کی لیکن بنگال اور پنجاب کی مسلم لیگی وزارتوں کی ناتعریفی کی۔ مجھے ان خیالات سے دکھ ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے مسئلہ قربانی کی تشریح فرمائی کیونکہ عیدالاضحی قریب ہی تھی۔ ذبح ہونے والے جانوروں میں گائے کا ذکر مفقود تھا۔ یہ میرے لئے بہت تعجب کا باعث ہوا۔ تیسری بات انہوں نے یہ کہی کہ انہوں نے قادیان میں احمدیت کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے اور تقریر کے دوران حضرت اقدسؑ کا نام غیرشریفانہ طور پر لیا جو مجھے ناگوار گزرا کیونکہ اختلاف چاہے کیسا ہی کیوں نہ ہو، اسلام استہزاء کی اجازت نہیں دیتا۔
نماز سے فراغت کے بعد مَیں بڑے بازار میں کھڑا تھا کہ مسجداقصیٰ سے نمازی نکلے جو ہم مسلمانوں کی نسبت بہت ہی زیادہ تھے۔ مَیں حیران ہوا کہ احمدیت کی تو اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ہے لیکن یہاں تو احمدیوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ جب گھر کی طرف چلا تو راستہ میں دکانوں کے بورڈ پڑھتا ہوا آیا۔ سب کے ساتھ لفظ احمدی لکھا ہوا پایا۔ حیران تھا کہ مولوی صاحب نے اس قدر سفید جھوٹ کیوں بولا۔ گھر پہنچا تو تایا صاحب نے حسب معمول تبلیغ شروع کردی۔ پہلے تو کبھی کان نہ دھرے تھے لیکن اب مَیں نے وعدہ کیا کہ واپس کوئٹہ جا کر احمدیہ لٹریچر ضرور دیکھوں گا۔
کوئٹہ پہنچ کر حضرت مسیح موعودؑ کی چند کتب کا مطالعہ کیا۔ ایک رات ریلوے ٹرین میں لیٹا کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘ پڑھ رہا تھا کہ بہت شدّت سے احساس ہوا کہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے دعویٰ میں بالکل سچے ہیں ۔ مَیں نے اسی حالت میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور دل سے احمدی ہوگیا۔ کتب کے مطالعہ کے زمانہ میں میرے دوست سمجھ گئے تھے کہ مَیں احمدیت سے متأثر ہو رہا ہوں ۔ وہ مجھے مختلف طریقوں سے روکتے، کبھی ایک مولوی کو بلاتے اور کبھی دوسرے کو اور مخالفوں کی کتب پڑھنے کو مجھے دیتے۔ جوں جوں مَیں ان کی کتب پڑھتا میرا یقین احمدیت پر مزید مستحکم ہوتا جاتا۔ اور اُنہی دنوں مَیں نے اپنی بیوی کو خط لکھ کر اپنے احمدی ہونے کی اطلاع بھی کردی۔
محترم قاضی شریف الدین صاحب کی شادی کوئٹہ کی ایک بہت معزز فیملی میں ہوئی تھی۔ آپ کے خسر شیخ انور علی صاحب سول سروس میں ایک باعزت عہدہ پر فائز تھے اور ڈپٹی کہلاتے تھے۔ اُن کی بیٹی (محترم قاضی شریف الدین صاحب کی اہلیہ) محترمہ وزیربیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مذکورہ خط (جس میں محترم قاضی صاحب نے اپنے احمدی ہونے کی اطلاع دی تھی) ملنے پر ہم سب بہت پریشان ہوئے۔ مَیں اپنی امّی اور بھائی کے ساتھ لاہور میں تھی جبکہ والد صاحب کوئٹہ میں تھے۔ میرے تایا زاد بھائی نے کہنا شروع کردیا کہ اب تو ان کا نکاح ٹوٹ گیا ہے۔ اُس نے میرے والد صاحب کو بھی بہت مخالفانہ خط لکھا جس میں لکھا کہ ان کا نکاح ٹوٹ گیا ہے۔ مگر والد صاحب نے اُسے بہت سخت خط لکھا کہ تمہیں کوئی حق نہیں کہ تم ایسے خط لکھو۔
میرے والد صاحب بہت نیک، دیندار اور نہایت شریف تھے۔ انہوں نے میرے شوہر کو کبھی کچھ نہیں کہا۔ جب مَیں کوئٹہ اپنے گھر آگئی تو مَیں احمدیت کی بہت ہی مخالف تھی۔ ہر وقت قاضی صاحب سے ناراض رہتی۔ مگر وہ مجھے کچھ نہیں کہتے تھے صرف احمدیت کے متعلق اچھی باتیں بتاتے رہتے تھے۔ جب صبح قرآن پاک پڑھتے تو مجھے اس کے معنے بتاتے۔ احمدی ہونے کے بعد سے پانچ وقت نماز اور تہجّد گھر میں ہی پڑھتے، میرے لئے بہت دعائیں کرتے۔ اس وقت میرے دو بچے چھوٹے تھے۔ مَیں بہت کمزور تھی اور پھر ان کی طرف سے بہت غم کرتی تھی۔ رشتے دار اور ملنے والے بھی مخالفت کرتے۔ ایک دفعہ میرے ہاں کچھ سہیلیاں آئیں تو مَیں نے ان کی چائے وغیرہ سے خاطر کی لیکن انہوں نے کوئی چیز نہیں کھائی اور مجھے احمدی ہونے کے طعنے دیئے۔ جس پر مَیں بہت روئی اور قاضی صاحب کو کہا کہ دیکھا لوگ کتنا بُرا سمجھتے ہیں ۔ وہ ہنس کرکہنے لگے کہ کوئی بات نہیں ایک دن آئے گا کہ وہ خود ہی کھا لیں گے۔
پھر ہمارے گھر میں اخبار ’الفضل‘ بھی آنا شروع ہوگیا۔ آپ اونچی آواز میں اخبار پڑھتے تھے اور مَیں سنتی رہتی۔ آخر ایک دن آپ کا نیک نمونہ اور دعائیں رنگ لائیں اور مَیں نے آپ کو کہہ دیا کہ میری بیعت کا خط بھی لکھ دیں ۔ یہ 1940ء کی بات ہے۔ (بعدازاں محترم قاضی صاحب کی اہلیہ محترمہ نظام وصیت میں بھی شامل ہوئیں اور اب وہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں آسودۂ خاک ہیں ۔)
محترم قاضی صاحب کے بعض عزیزوں نے احراری لیڈر سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے بھی آپ کو ملوایا لیکن انہوں نے بات چیت کرنے کے بعد آپ کو لاعلاج قرار دے دیا۔ بہرحال دونوں میاں بیوی نہایت استقامت سے احمدیت پر قائم رہے اور کوئی مخالفت یا حقارت ان کو حق سے دُور نہ کرسکی۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد بھی آپ نے اپنے غیرازجماعت بھائیوں کو اُن کے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے کافی مدد کی۔
’’تاریخ احمدیت‘‘ کے مطابق حضرت مصلح موعودؓ قیامِ پاکستان کے بعد متواتر تین سال یعنی 1948ء سے 1950ء تک گرمیوں میں رمضان کے دوران مع اہل خانہ کوئٹہ جاتے رہے۔ حضورؓ کی رہائش اور دیگر امور کے لئے جن احمدیوں نے خاص طور پر خدمت کی توفیق پائی اُن میں محترم قاضی صاحب کا نام بھی شامل ہے۔ ریلوے میں ملازمت کی وجہ سے آپ حضورؓ کی کار کو پلیٹ فارم پر ڈبّہ کے بالکل سامنے لانے کی اجازت حاصل کیا کرتے تھے۔
اُس زمانہ میں محترم قاضی صاحب جماعت احمدیہ کوئٹہ کے سیکرٹری مال تھے۔ حضورؓ نے اپنے تین خطباتِ جمعہ (فرمودہ 2، 16اور 23؍جولائی 1948ء) میں آپ کے کام کی بہت تعریف فرمائی۔ چنانچہ خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍جولائی 1948ء میں حضورؓ فرماتے ہیں : ’’یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ جہاں جماعت کے اور محکموں میں اچھی چستی پائی جاتی ہے وہاں چندہ میں بھی کافی سرگرمی دکھائی گئی ہے۔ (گزشتہ) خطبہ کے بعد یہاں کی جماعت کے فنانشل سیکرٹری (قاضی شریف الدین احمد صاحب) مجھے ملے جو فنانشل سیکرٹری میں نے اب تک دیکھے ہیں ان میں سے وہ سب سے زیادہ ہوشیار اور زیادہ مستعد معلوم ہوئے اور مَیں نے دیکھا کہ وہ صحیح طور پر کام کرنے والے ہیں ۔ مَیں نے ان پر جرحیں بھی کیں اور بتایا کہ حسابات کو اس طرح بھی پرکھا جاسکتا ہے۔ شروع میں وہ رُکے بعد میں اپنی کاپی نکال کر رکھ دی اور بتایا کہ مَیں نے حسابات کو اس طرح بھی پرکھا ہے۔ حسابات میں اگرچہ بہت سی خامیاں اب بھی ہیں مگر پھر بھی انہوں نے بڑی محنت سے کام کیا ہے اور نہ صرف محنت سے کام کیا ہے بلکہ عقل سے بھی کام کیا ہے۔ دنیا میں ہزارہا آدمی ایسے ہوتے ہیں جو محنت کرتے ہیں ۔ لاکھوں ایسے ہوتے ہیں جو پوری کوشش اور جدوجہد کرتے ہیں مگر ان کی سب کوششیں رائیگاں جاتی ہیں ۔ ان کی محنت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا کیونکہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے۔ مگر ایک اور شخص آتا ہے وہ ایک نیا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس کے ذہن کو روشنی مل جاتی ہے اور وہ اس کام کو صحیح طور پر کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہاں کے فنانشل سیکرٹری نے عقل سے کام لے کر کام کو مکمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر پھر بھی ترقی کی ابھی کافی گنجائش ہے۔ بعض احباب نے صحیح تشخیص اپنی آمد کی نہیں بتائی۔ بہرحال انہوں نے کوشش کی ہے۔ اگر وہ مزید کوشش کریں اور احباب جماعت ان کے ساتھ تعاون کریں تو یقینا کوئٹہ کا یہ محکمہ اپنے رنگ میں باقی جماعت کے لئے مثال بن جائے گا۔‘‘
محترم قاضی صاحب نے 14 جولائی 1984ء کو کوئٹہ میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں