محترم عطاء اللہ خان صاحب درویش

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں محترم عطاء اللہ خان صاحب کی خودنوشت داستانِ حیات شامل اشاعت ہے۔
آپ 1909میں گاؤں ’نوراں والی‘ ضلع سرگودھا کے کاشتکار شیر محمد صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ ایک سکول میں عارضی ملازم تھے جب ایک احمدی مولوی عبدالمجید صاحب کی تبلیغ کے نتیجہ میں 1936ء میں پہلی بار قادیان آکر جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے اور تسلی کرکے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بیعت کرلی۔ حضورؓ نے آپ کا نیا نام عطاء اللہ خان رکھ دیا۔ بعدازاں آپ کی والدہ محترمہ رحمت بی بی صاحبہ نے بھی احمدیت قبول کرلی تھی لیکن والد اس سعادت سے محروم رہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کی تحریک برائے دیہاتی مبلغین پر لبّیک کہتے ہوئے دسمبر 1945ء میں آپ قادیان آگئے۔ اس کا کورس تین سال کا تھا۔ اسی دوران مارچ1947ء میں آپ کی شادی ’بڈھا رانجھا‘ ضلع سرگودھا کے امیر جماعت مکرم شیخ شمس الدین صاحب کی بیٹی مکرمہ سعیدہ بیگم صاحبہ سے ہوئی جو آپ کے ہمراہ قادیان آگئیں ۔
چند ماہ بعد تقسیم ہند ہوگئی تو حضورؓ کا ارشاد تھا کہ عورتیں ،بچے اور ساٹھ سال سے اوپر کے بوڑھے آدمی پاکستان چلے جائیں اور نوجوان میری اجازت کے بغیر نہ جائیں ۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کی اہلیہ بضد تھیں کہ آپ چلیں گے تو مَیں جاؤں گی، ورنہ نہیں ۔ جب وہ کسی طرح نہ مانیں تو ایک روز مَیں اپنا سامان اٹھاکر اُن کے ساتھ چل پڑا تاکہ وہ سمجھ لیں کہ مَیں بھی پاکستان جا رہا ہوں ۔ جب قافلہ روانہ ہونے لگا تو مَیں نے اہلیہ کے ایک رشتہ دار کو کہا کہ اِن کو پاکستان میں اِن کے گھر تک پہنچادیں اور پھر خود چھلانگ لگاکر ٹرک سے اُتر آیا۔ اہلیہ بخیریت اپنے گھر پہنچ گئیں ۔ لیکن وہاں جاکر اُن کے مطالبہ میں شدّت آگئی کہ مَیں بھی پاکستان آجاؤں ورنہ وہ کوئی اَور قدم اٹھالیں گی۔ خاکسار نے انہیں لکھا کہ مجھے پاکستان بلوانے کے لئے کوشش کریں ۔ خدا کا شکر ہے کہ اُن کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور مَیں قادیان میں ہی رہا۔
آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ کچھ سال بعد بیوی بچوں سے ملنے کے لئے پاکستان آیا تو چند روز بعد یہ خواب دیکھا کہ مَیں اکیلا سفر کررہا ہوں اور گویا ایک گیٹ ہے جہاں پر ایک آدمی کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ یہ گیٹ تمہارے لئے کھلا ہے اگر ابھی نہیں گئے تو پھر کبھی نہیں جا پاؤ گے اس لئے سوچ لو۔ یہ خواب دیکھ کر اگلے ہی روز مَیں گھر والوں کے لاکھ اصرار پر بھی نہیں رُکا اور سخت دل ہوکر بارڈر پر پہنچا۔ شام ہوچکی تھی اور گیٹ بند ہورہے تھے ۔ مَیں نے ایک حاکم سے درخواست کی تو اس نے انکار کردیا کہ اب گیٹ نہیں کھولا جاسکتا۔ مَیں مایوس ہوکر وہیں بیٹھ گیا اور دُعا شروع کی کہ اللہ تعالیٰ میں تو تیرے خواب کی بِنا پر آیا تھا۔ اب اگر ایسا میرے ساتھ ہوا ہے تو میں کیا کروں ؟ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے پوچھا کہ یہاں کیوں بیٹھے ہو۔ مَیں نے ساری کہانی بیان کی تو اُس نے مجھے کہا کہ پانچ منٹ کا وقت دیتا ہوں گزر سکتے ہوتو گزر جاؤ۔ پس میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور دوسری طرف آگیا۔ ہندوستان والوں نے بھی پوچھا تو میں نے ان کو بھی تمام بات بتادی۔ اس پر انہوں نے مجھے قادیان جانے کی اجازت دے دی۔
دیہاتی مبلغین کلاس میں سے جن پانچ مبلغین کو حضورؓ نے باہر کی جماعتوں میں بھجوایا اُن میں محترم عطاء اللہ خان صاحب بھی شامل تھے۔ چنانچہ 1948ء میں آپ کو ساندھن (یوپی) ضلع آگرہ بھیجا گیا۔ لیکن وہاں کے لوگ اردو نہیں بولتے تھے بلکہ ہندی بولتے تھے۔ چنانچہ 1951ء میں قادیان میں پانچ مبلغین کو ہندی پڑھانے کا انتظام کیا گیا جن میں آپ بھی شامل تھے۔ تین سالہ کورس کے امتحان کے بعد 1954ء میں آپ بطور ہندی مدرس تعلیم الاسلام ہائی سکول میں متعین ہوئے اور یہاں تیس سال تدریس کے پیش سے منسلک رہے۔ آپ کی خدمات کے اعتراف میں 1989ء میں لائن کلب کی جانب سے گورنر پنجاب نے ایک ٹرافی اور سرٹیفکیٹ بھی عطا کیا۔
آپ بہت نرم دل خوش مزاج تھے اور ایک عظیم اور شفیق استاد تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جب افرادِ قادیان کو بہشتی مقبرہ کی صفائی رکھنے کا ارشاد فرمایا تو جو قطعہ آپ کے حصہ میں آیا وہ صفائی کا نہایت اعلیٰ معیار ہوتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ 1991ء میں قادیان تشریف لائے تو آپ کے قطعہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور آپ کو ایک تبرک بھی عطا فرمایا ۔
اکثر اوقات رات کو جب چہل پہل کم ہوجاتی تو آپ لنگرخانہ کے سامنے والی سڑک پر جھاڑو دے دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں جو سب صاحب اولاد اور متموّل ہیں ۔اُن کی بار بار کی کوششوں کے باوجود بھی آپ نے قادیان میں رہنے کو ہی ترجیح دی اور قریباً سارا عرصہ تجرّد میں گزارا۔ 17 مئی 2006ء کو آپ کی وفات ہوئی۔
آپ کی اہلیہ محترمہ رسول بی بی صاحبہ کا ذکرخیر 15جون 2012ء کے شمارہ میں کالم ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں