محترم عبیداللہ علیم صاحب

قبل ازیں 5؍فروری 1999ء اور 15؍ستمبر 2000ء کے شماروں کے اسی کالم میں محترم عبیداللہ علیم صاحب کا ذکر خیر کیا گیا تھا۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29 و 31؍جنوری 2000ء کے شماروں میں آپ کے بارہ میں مکرمہ فرح نادیہ صاحبہ کا ایک تفصیلی مضمون شامل اشاعت ہے جس میں بیان کئے جانے والے اضافی امور ذیل میں پیش ہیں۔
محترم علیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے والد رحمت اللہ بٹ صاحب کشمیری تھے اور والدہ کا نام سعادت بی تھا اور وہ یوسف زئی پٹھان تھیں، آداب و گفتگو میں بہت نفاست پسند تھیں، بہت اچھی شکاری اور ماہر گھڑسوار تھیں۔ والد سے زیادہ پورے علاقہ میں والدہ کا رعب تھا۔ بہت ہمدرد، ملنسار اور محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ یہ میرے والد کی دوسری بیوی تھیں۔ بڑی والدہ سے دس بہن بھائی تھے، دوسری سے بھی دس، تیسری سے تین چار اور چوتھی سے بھی تین چار۔
محترم علیم صاحب کا اصل نام عبیداللہ تھا اور علیم انہوں نے خود اپنے نام کے ساتھ اُس وقت لگایا جب وہ چھٹی ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ خوبصورت مناظر اور چہرے آپ کو بچپن ہی سے متأثر کرتے چلے آئے تھے اور اپنی بچپن کی بعض یادیں آپ کو ہمیشہ بے چین کرتی آئیں۔ بچپن ہی سے دوسروں سے آگے نکلنے کا خبط سوار تھا۔ دوسروں پر سبقت لے جانا اور زیر کرنے کی کوشش کرنا آپ کی سرشت میں شامل تھا۔ پڑھائی اور کھیل دونوں میں ممتاز نظر آتے رہے۔ کُشتی، فٹ بال، کیرم ، تاش میں بہت دلچسپی تھی۔
اگرچہ علیمؔ نے ابتدائی تعلیم بھوپال میں حاصل کی لیکن بارہ تیرہ سال کی عمر میں پاکستان آنے کے بعد کراچی سے میٹرک سے ایم اے تک کی تعلیم حاصل کی۔ اسی دوران آپ نے کئی کام کئے، پائپ بنانے والی فیکٹری میں ملازمت کی، ریلوے اسٹیشن پر انڈے بیچے، کارخانے میں بیڑیاں بنائیں۔
نویں کلاس سے شاعری کا آغاز کیا۔ بزرگ شاعر شاہد منصور سے اصلاح لینا شروع کی اور اُن کی تلقین پر ’’کلّیات میرؔ‘‘ پڑھی جس نے آپ کی زندگی اور شاعری پر فیصلہ کن اثرات مرتّب کئے۔ پہلی نظم ’’المصلح‘‘ کراچی میں 56ء میں شائع ہوئی لیکن 59ء میں پہلی دفعہ آپ کو احساس ہوا کہ اب آپ کے اندر شعر لکھنے کی قوت سچ مچ پیدا ہوگئی ہے۔ چنانچہ پہلے کی تمام چیزیں ضائع کردیں کیونکہ شعر اور آواز کی وہ کیفیت جو روح سے تعلق رکھتی ہے، اب پیدا ہوئی تھی۔ 1959ء میں ہی پہلے مشاعرہ میں کلام پڑھا۔
1958ء میں پاکستان میں مارشل لاء لگنے کے بعد علیمؔ سیاسی تنظیموں کے سرگرم رکن بن گئے اور اسی پاداش میں اپنے آٹھ ساتھیوں سمیت 1961ء میں کالج سے نکال دیئے گئے اور کسی دوسرے کالج نے آپ کو داخلہ نہیں دیا کیونکہ آپ تخریب کار کے طور پر مشہور ہوگئے تھے۔ اس دوران باغیانہ شاعری بھی کی اور مقبول شعراء میں آپ کا شمار ہونے لگا۔ تاہم آپ نے جو سیاسی نظمیں لکھیں بعد میں اُنہیں خود ناپسند کیا۔ سیاست میں حصہ لینے کے باعث آپ کے والد نے بھی آپ کو گھر سے نکال دیا۔ چنانچہ پھر نوکری، برخاستگی اور آوارہ گردی کا تکونی سلسلہ شروع ہوگیا۔ چند مہینے بعد تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا لیکن جلد ہی وہ بھی منقطع ہوگیا۔ تاہم شہرت نے آپ کے قدم چوم لئے اور مشاعروں میں باقاعدگی سے آپ کو بلایا جانے لگا۔ کئی جگہ ملازمتیں کیں لیکن کچھ عرصہ بعد چھوڑ دیں چنانچہ کوئی مستقل سلسلہ آمد نہ پیدا ہوا۔
1964ء کے انتخابات کے موقع پر علیمؔ نے ایک سیاسی نظم لکھی جس پر آپ کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے اور آپ ایک دوست کے گھر روپوش رہے۔ پھر آپ نے بعض فلمی گیت بھی لکھے اور آپ کی کئی نظمیں اور غزلیں بہت سے فنکاروں نے ریڈیو اور ٹی وی پر پڑھیں۔ 1970ء میں پاکستان ٹیلی ویژن میں پروڈیوسر بن گئے۔
12؍ستمبر 1970ء کو آپ کی دوسری شادی نگار یاسمین کے ساتھ ہوئی جن کا تعلق لکھنؤ سے ہے۔ اس کے بعد علیمؔ کی زندگی میں قدرے ٹھہراؤ آگیا۔ نگار یاسمین سے علیمؔ کے تین بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ 95ء میں تیسری شادی سیدہ تحسین سے ہوئی جن سے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔
78ء میں ضیاء الحق کے دور میں آپ کے حالات اتنے خراب کردیئے گئے کہ آپ نے پاکستان ٹیلی ویژن کے پروڈیوسر کی ملازمت چھوڑ دی۔ مالی مشکلات سے بچنے کے لئے کچھ عرصہ نیشنل بینک میں ملازمت کی لیکن دلچسپی نہ ہونے کے باعث چھوڑ دی۔ کچھ عرصہ بی سی سی آئی میں پروٹوکول مینیجر کے طور پر کام کیا اور بینک بند ہوجانے کے بعد یہ فیصلہ کرلیا کہ صرف شاعری کریں گے اور روکھی سوکھی کھاکر گزارا کرلیں گے۔
89ء میں لکھنؤ میں علیمؔ مشاعرہ پڑھنے گئے تو اخبارات نے شہ سرخیوں میں خبر دی کہ پاکستانی شاعر نے مشاعرہ لُوٹ لیا۔ آپ نے ربوہ، لاہور اور کراچی کے علاوہ کئی بیرونی ممالک میں بھی مشاعرے پڑھے مثلاً برطانیہ، جرمنی، کینیڈا، امریکہ، ڈنمارک، دوبئی، ابوظہبی وغیرہ۔
عبیداللہ علیمؔ کو سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ سے بہت محبت اور عقیدت تھی۔ حضور نے ہی ان کے بیرون ملک منعقد ہونے والے اکثر مشاعروں کا اہتمام کروایا۔ حضور انور نے بعض نشستوں میں خود بھی شرکت فرمائی اور علیمؔ صاحب کی شاعری کی دل کھول کر داد دی۔ آپ کی زندگی کی آخری شعری نشست 30؍مارچ 1998ء کو جامعہ احمدیہ ربوہ میں منعقد ہوئی جس میں انہوں نے اپنی یہ تازہ غزل بھی سنائی:

نگار صبح کی امید میں پگھلتے ہوئے
چراغ خود کو نہیں دیکھتا ہے جلتے ہوئے

18؍مئی 1998ء کو علیمؔ نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ پاکستان بھر کے اہل قلم اور شعراء نے آپ کی وفات پر نہایت دکھ کا اظہار کیا اور اسے ایک عظیم ادبی خلا قرار دیا۔ حضور انور نے کئی بار علیمؔ صاحب کا نہایت محبت سے ذکر کرتے ہوئے آپ کے کلام کی بہت تعریف فرمائی۔ فرمایا:
’’یہ پاکستان میں بھی مقبول ترین ہوتے مگر ان کی خوبی یہ تھی کہ جماعت کی بڑی غیرت رکھتے تھے، ننگی تلوار تھے۔ اس پہلو سے ان کو بہت دبانے کی کوشش کی گئی مگر ان کی زندگی ایسی تھی کہ ہمیشہ کیلئے دباسکتے ہی نہیں تھے اور ان کو مشاعروں میں بلانا پڑتا تھا جب بھی آتے تھے چھا جاتے تھے… ان کی دو باتوں کی وجہ سے مَیں ان کا بہت احترام کرتا تھا۔ ایک یہ کہ ان کے کلام میں احمدیت کے بہت تذکرے ہیں، جو ہم پر گزرتی ہے اسکے بارے میں۔ پھر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے متعلق بہت اچھا کلام انہوں نے کہا۔ بعض دفعہ تو لگتا ہے کہ غیب کی آواز سے بولتے تھے، اللہ ان سے بلواتا ہے‘‘۔
حضور انور کو علیمؔ صاحب کی دو غزلیں بہت پسند تھیں یعنی:

مٹی تھا مَیں خمیر ترے ناز سے اُٹھا
پھر ہفت آسماں مری پرواز سے اُٹھا

اور یہ بھی:

باہر کا دھن آتا جاتا، اصل خزانہ گھر میں ہے
ہر دھوپ میں جو مجھے سایہ دے وہ سچا سایہ گھر میں ہے

محترم علیمؔ صاحب کی یاد میں غیرازجماعت رسائل میں بھی کئی مضامین شائع ہوئے۔ ادبی رسالہ ’’سیپ‘‘ نے خاص نمبر نکالا، پی ٹی وی نے خصوصی پروگرام پیش کیا نیز اسلام آباد اور کراچی میں کئی سیمینار اور مشاعرے منعقد کئے گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں