محترم عبدالسلام اختر صاحب

معروف احمدی شاعر محترم عبدالسلام اختر صاحب کے بارہ میں ایک مضمون مکرم امتیاز احمد جامی صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍مئی 1999ء میں شامل اشاعت ہے۔
محترم عبدالسلام اختر صاحب حضرت چودھری علی محمد صاحبؓ (بی اے. بی ٹی) کے ہاں 14؍جولائی 1916ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ نانا حضرت حافظ مولوی فیض الدین صاحب اپنی بزرگی اور تقویٰ کی وجہ سے ’’اللہ لوک‘‘ مشہور تھے۔ آپ کی والدہ میمونہ بیگم صاحبہ نے بے شمار افراد کو قرآن پڑھایا اور محترم اختر صاحب نے بھی گھر میں ہی قرآن پڑھا اور پھر ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی۔ 1933ء میں میٹرک پاس کرکے لاہور آگئے اور 1934ء میں F.A. کرکے ناگپور چلے گئے اور یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ 1939ء میں فلسفہ میں ایم۔اے کا امتحان دیا اور یونیورسٹی میں اوّل آئے۔ 1941ء میں سرکاری ملازمت کا آغاز کیا اور راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹر میں اعلیٰ عہدے پر متعین ہوئے۔ جب حضرت مصلح موعودؓ نے نوجوانوں کو زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کی تو آپ نے بھی لبیک کہا۔ 1948ء میں ربوہ میں اوّلین قیام و انتظام کے لئے جن دو افراد کا گروپ بھیجا گیا تھا اُن میں آپ بھی شامل تھے۔
1961ء میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ میں ایک کالج قائم کرنے کا ارادہ فرمایا تو اختر صاحب اس کالج کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔ آپ ہی کے دور میں کالج کی عمارت، ہوسٹل کی عمارت اور اسٹاف کوارٹرز تعمیر ہوئے۔
گھٹیالیاں میں ہی شب و روز کی محنت نے آپ کی صحت پر برا اثر ڈالا اور آپ کو ذیابیطس کا مرض لاحق ہوگیا۔ چنانچہ آپ واپس ربوہ آگئے اور دفتر بیت المال آمد اور وقف جدید میں خدمات بجالاتے رہے۔ 1974ء میں بیماری بہت بڑھ گئی اور 20؍جون 1975ء کو کراچی میں آپ کا انتقال ہوگیا۔
محترم اختر صاحب کا شمار جماعت احمدیہ کے ممتاز اور کہنہ مشق شعراء میں ہوتا ہے۔ آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی سیرۃ کے پاکیزہ واقعات کو منظوم صورت میں بھی پیش کیا ہے۔ اس میں آپ کے دو شعری مجموعے ’’نقوش جاوداں‘‘ اور ’’چشمۂ اصفیٰ‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ آپ کی شاعری دینی رنگ میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے۔ تاہم آپ نے بہت عمدہ غزلیں بھی لکھی ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں