محترم شیخ منیر احمد صاحب شہید لاہور

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26 جنوری 2011ء میں مکرم ملک محمد افضل صاحب ریٹائرڈ سیشن جج کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں محترم شیخ منیر احمد صاحب شہید (امیر لاہور) کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
1964-65ء میں صوبہ مغربی پاکستان میں جوڈیشل سروس کے لئے مقابلہ کے امتحان میں تقریباً 300 امیدوار شریک ہوئے جبکہ تحریری امتحان میں 57 امیدوار پاس ہوئے اور انٹرویو کے بعد صرف 20 امیدوار کامیاب قرار پائے۔ انٹرویو میں سب سے زیادہ نمبر مکرم شیخ منیر احمد صاحب نے حاصل کئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ایک ذہین، حاضر دماغ اور دوسروں کو قائل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے انسان تھے۔ کامیاب امیدواروں میں مَیں بھی شامل تھا۔ مجھے میرپور ماتھیلو (ضلع سکھر) اور شیخ صاحب کو میرواہ (ضلع خیرپور) میں سول جج اور مجسٹریٹ درجہ اوّل تعینات کیا گیا۔ آپ نے 3 مارچ 1966ء کو چارج لیا۔ تب سے ہمارے باہمی تعلقات استوار ہوئے۔
میرپور ماتھیلو میں مَیں اکیلا ہی احمدی تھا۔ میں نے شروع سے اَلَیْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی انگوٹھی پہنی ہوئی ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ تقاریب میں کوئی نہ کوئی چپکے سے پاس آ کر مجھ سے پوچھتا ہے کہ کیا آپ احمدی ہیں؟ بعض اوقات پوچھنے والا بتاتا کہ وہ بھی احمدی ہے۔ وہاں بھی چند ماہ کے بعد کسی دوست نے بتایا کہ میرے مسلک کے جج میرواہ میں تعینات ہیں اور بہت نفیس انسان ہیں۔ کچھ عرصہ بعد سکھر میں محترم شیخ صاحب سے ملاقات ہوئی۔ بڑے پُرتپاک طریقے سے ملے۔ خوش لباس، خوش گفتار، سیدھے سادے اور مزاج کے دھیمے پایا۔ اکتوبر 1968ء میں مجھے حیدر آباد اور شیخ صاحب کو ماتلی تعینات کیا گیا۔ تب وہ اکثر ہفتہ کی شام اپنی فیملی کے ہمراہ ہمارے ہاں آجاتے اور چھٹی کا دن ہم اکٹھے گزارتے۔ نماز اور روزہ کے پابند تھے۔ اُن کی کوشش ہوتی تھی کہ نماز وقت پر باجماعت ادا کی جائے۔ نصیحت نرمی سے کرتے اور اپنے کردار سے دوسروں کو سمجھانے کی کوشش کرتے۔ گارڈن ٹاؤن لاہور میں اپنے مکان میں انہوں نے نماز سنٹر بنایا ہؤا تھا۔
ون یونٹ ٹوٹنے پر ہم سندھ سے پنجاب آگئے۔ شیخ صاحب کی تعیناتی ساہیوال میں ہوئی۔ جہاں جسٹس رفیق تارڑ صاحب (جو بعد میں صدر بنے) سیشن جج متعیّن تھے۔ اُن کے ساتھ آپ کے بہت اچھے مراسم قائم ہوئے مگر بعد میں احمدیت پر بے جاتنقید کی وجہ سے ان سے ایک طرف ہو گئے۔ ساہیوال میں اپنی دیانت کی وجہ سے نیک نامی کمائی۔ ان کی یہ شہرت آخری دم تک قائم رہی۔
نومبر1980ء میں میرا تبادلہ بطور ایڈیشنل سیشن جج فیصل آباد ہو گیا۔ اس وقت شیخ صاحب بطور پریذائیڈنگ آفیسر لیبر کورٹ فیصل آباد تعینات تھے۔ میں نے اپنی آمد کی اطلاع سیشن جج کو دی تھی اور میری عارضی رہائش کا انتظام ریلوے ریسٹ ہاؤس میں کیا گیا تھا۔ جب مَیں ریلوے سٹیشن پر اترا تو سینئر سول جج کے علاوہ شیخ صاحب بھی موجود تھے۔ وہ مجھے زبردستی اپنے گھر لے گئے اور فرمایا جب تک متبادل انتظام نہیں ہوتا اُن کے ہاں ہی قیام کروں۔ میں حیران رہ گیا کہ شیخ صاحب نے میری مخصوص عادات کا مکمل جائزہ لیا ہوا تھا۔ صبح Bed tea سے لے کر رات دس بجے تک ہر چیز میری پسند کے مطابق وقت پر مجھے ملی۔ دس بارہ دن اُن کے ہاں قیام رہا۔ ان کی مہمان نوازی میں ان کی بیگم بھی برابر کی شریک تھیں۔
شہید مرحوم میں درگزر کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ میں نے بہت کم انہیں کسی اہلکار کو ڈانٹتے دیکھا۔ لاہور میں سپیشل جج تعینات تھے۔ انہیں معلوم ہوا کہ ان کے کلرک نے کسی کاغذ پر ان کی جگہ دستخط کر دئیے ہیں۔ یہ ایک سنگین فعل ہے۔ اہلکار سے پوچھا تو اُس نے گھبرا کر کہا کہ غلطی ہوگئی ہے۔ سچ بولنے پر صرف اتنا کہا کہ چلے جاؤ۔ اور کوئی سزا نہ دی۔ فراخ دل انسان تھے۔ لوگوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرنے کا حوصلہ تھا۔ ہر چیز کا مثبت پہلو دیکھتے تھے۔ منفی پہلو کی نشان دہی اس طریقے سے کرتے تھے کہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔
مرحوم اپنے والدین کی خدمت کے نشہ سے سرشار تھے۔ والد مکرم شیخ تاج دین صاحب اور والدہ بھی نیک، دعاگو اور صابر و شاکر تھے۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تو ایسا محسوس ہوتا کہ مَیں بھی ان کا بیٹا ہوں۔ والدہ فوت ہوگئیں اور والد ایک حادثہ میں ٹانگیں کھوبیٹھے لیکن جس احسن طریق سے اور تندہی سے آپ نے والدین کی خدمت کی، وہ ایک مثال ہے۔
آپ یکم مارچ1940 ء کو پیدا ہوئے تھے۔ فروری 2000ء میں ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل آپ کو ایک سال کے لئے احتساب عدالت لاہور کا جج مقرر کر دیا گیا۔ تنخواہ اور سہولتیں ہائیکورٹ کے جج کے برابر تھیں۔ میں اس وقت سیشن جج فیصل آباد تعینات تھا۔ ستمبر 2000ء میں مجھے بھی احتساب عدالت لاہور کا جج مقرر کر دیا گیا۔ اس طرح ایک ہی بلڈنگ میں ہم اکٹھے ہو گئے۔ اسی سال قانون میں ترمیم ہوئی اور ہماری میعاد ملازمت تین سال کر دی گئی۔ رفیق تارڑ صاحب صدر مملکت تھے۔ میرے کیس پر وہ رضا مند نہ ہوئے اور مجھے دسمبر 2000ء کو ریٹائر ہونا پڑا۔ مَیں نے شیخ صاحب سے کہا کہ ان کے تعلقات صدر رفیق تارڑ صاحب سے 1970ء میں قائم ہوئے تھے اور آپ ان کو اپنے بارہ میں کہہ سکتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ جب سے انہوں نے احمدیت کے خلاف بیانات دیئے ہیں تو ان کے ہاں جانا ترک کردیا ہے اور جو اللہ کو منظور ہو گا وہی ہو گا۔ یہ ان کی احمدیت کے بارہ میں غیرت تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہیں توسیع ملی اور انہوں نے اپنی مدّت تین سال پوری کی۔ اس کے بعد انہوں نے وکالت شروع کردی۔
انہی دنوں نَیب کے ذیلی دفتر لاہور میں ایک قانونی ماہر کی ضرورت تھی جو دیانتدار، اہل اور قانونی پیچیدگیاں سمجھنے والا ہو۔ شیخ صاحب نے بطور جج احتساب عدالت ایک مقام بنایا تھا۔ اس لئے ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے ان کا انتخاب ہو گیا۔ دفتر میں اپنے اخلاق، قانونی علم اور غیرجانبدار رائے دینے کی وجہ سے مقبول ہو گئے۔ ان ایام میں ڈائریکٹر جنرل ایک حاضر سروس میجر جنرل ہوتا تھا۔ وہ کوئی فیصلہ کرتے وقت ان کی رائے کو فوقیت دیتا تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک در بند ہونے کے بعد بغیر کسی کوشش کے دوسرا در کھول دیا۔
مجھے نَیب ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں جنوری 2002ء میں کنٹریکٹ پر ملازمت مل گئی تھی۔ جب 2008ء میں نئی حکومت برسراقتدار آئی تو میں نے انہیں اشارۃً بتایا کہ اب گھر جانے کی تیاری کرنی چاہئے۔ فرمانے لگے کہ وہ تو ہر وقت تیار رہتے ہیںاور جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال رہے گا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اس کے بعد11 جنوری 2009ء کو ہم دونوں اپنے معاہدہ کی میعاد ختم ہونے پر سبکدوش ہوئے۔ شیخ صاحب نے دوبارہ پریکٹس شروع کردی اور مجھے کہا کہ میں اس طرف توجہ کروں لیکن میرا طبعاً میلان وکالت کی طرف نہ ہے گو میرے پاس 2000ء سے ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کا لائسنس تھا۔ مَیں نے کہا کہ آپ نے کافی ملازمت کر لی ہے اور اب آرام کریں۔ کہنے لگے کہ وہ نہیں چاہتے کہ گھر کا خرچہ چلانے کے لئے کسی پر انحصار کریں۔
ایک دن مَیں بینکنگ جج لاہور کے پاس بیٹھا ہؤا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ وہ مجھے نیلامی کے سلسلہ میں کمیشن مقرر کر رہے ہیں اور مناسب فیس بھی مل جائے گی۔ میں نے انکار کر دیا تو انہوںنے فوراً شیخ صاحب کو ٹیلیفون کیا۔ شیخ صاحب فوراً وہاں پہنچ گئے اور پس وپیش کی وجہ پوچھی۔ پھر جج صاحب کو کہا کمیشن کا حُکم کر دیں اور وہ میری جگہ کام کریں گے لیکن فیس مجھے ادا کر دی جائے گی۔
جب مرحوم امیر ضلع مقرر ہوئے تو مجھے کہنے لگے کہ میں قاضی کے عہدہ کے لئے وقت نکالوں۔ میں نے کہا کہ ساری زندگی لوگوں کے جھگڑے نمٹاتے تھک گیا ہوں۔ کوئی اَور خدمت لے لیں۔ کہنے لگے کہ آپ کے تجربہ کا جماعت کو فائدہ ہونا چاہئے۔ چنانچہ مَیں نے اُن کی خواہش پر فوراً لبّیک کہا۔ بعد ازاں میری بعض تجاویز پر خوش دِلی سے انہوں نے ہدایات جاری کیں مثلاً مسجد میں ہی قضا کی کارروائی کے لئے جگہ مخصوص کردی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں