محترم شیخ محبوب عالم خالد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍مارچ 2005ء میں مکرم حامد احمد خالد صاحب نے اپنے والد محترم شیخ محبوب عالم خالد صاحب کا ذکر خیر کیا ہے۔
محترم شیخ محبوب عالم خالد صاحب کو جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے کالج سے سبکدوش ہونے کے بعد ناظر بیت المال مقرر فرمایا تو ایک لمبے عرصہ تک آپ سائیکل پر ہی دفتر آیا جایا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو کار اور ڈرائیور عطا کر دیا تو جب باہر کے اضلاع میں جاتے تو کار استعمال کرتے مگر ربوہ میں سائیکل ہی استعمال کرتے۔ عمر کی زیادتی اور کمزوری کی وجہ سے کوئی گھر کے دروازہ سے سائیکل گلی میں نکال دیتا جسے چلاکر آپ ریلوے لائن تک آجاتے اور پھر کسی نوجوان کو جو لائن کراس کر رہا ہوتا کہہ دیتے کہ سائیکل اٹھاکر لائن کے پار کردیں۔ کار اس لئے استعمال نہیں کرتے تھے کہ جماعت کے پیسہ کا ضیاع کیوں ہو، جماعت کو بعض زیادہ اہم اخراجات کے لئے ضرورت ہوگی۔ کسی نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے اس بات کا تذکرہ کر دیا۔ اس پر حضور نے بڑی سختی سے انہیں ہدایت فرمائی کہ آپ کار استعمال کیا کریں۔
ایک مرتبہ جب آپ مسجد مبارک کی جانب جارہے تھے تو مسجد کے لاؤڈسپیکر پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی آواز سنائی دی کہ ’’بیٹھ جائیں‘‘۔ یہ ہدایت حضور نے یقینا مسجد میں موجود احباب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمائی تھی۔ آپ ریلوے اسٹیشن کے قریب جوہڑ کے کنارہ پر تھے مگر جونہی خلیفہ وقت کی آواز کان میں پڑی تو وہیں بیٹھ گئے جس کے باعث کپڑوں پر بھی مٹی لگ گئی۔
ایک دفعہ جب آپ جماعتی کام سے لاہور جانے لگے تو آپ کی اہلیہ بھی ہمراہ ہولیں۔ آپ نے بہت سمجھایا کہ آپ کو جماعت کے ضروری کام سے جانا ہے مگر وہ بضد رہیں۔ اتفاق یہ تھا کہ واپسی پر جس بس کے ذریعہ سفر کیا وہ راستہ میں خراب ہوگئی۔ اور تمام مسافر بس سے اترکر کسی نہ کسی طرح چلے گئے۔ موسم سرما تھا، اندھیرا ہورہا تھا اس لئے کچھ پریشانی پیدا ہوئی اور آپ کی اہلیہ کی طبیعت بھی خراب ہونی شروع ہوگئی۔ اس پریشانی کے عالم میں آپ نے اہلیہ کو سڑک سے ہٹ کر ایک بنچ پر لٹا دیا اور خود کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضوردعائیں کرنے لگے۔ چنانچہ ابھی پانچ منٹ کا عرصہ نہیں گزراہوگا کہ پانچ چھ کاروں کا ایک قافلہ سڑک سے گزرا۔ انہوں نے جب کاروں کی روشنی میں آپ کو دیکھا تو مڑ کر واپس آئے اور قریب آکر رکے۔ ایک نوجوان اترا اور کہا کہ پروفیسر صاحب آپ اس بیابان جگہ میں؟ تو آپ نے ساری صورتحال بتائی۔ وہ نوجوان کہنے لگا میں آپ کا شاگرد ہوں۔ اور میں سرگودھا سے بارات کے ساتھ جارہا ہوں۔ وہ نوجوان کسی گورنمنٹ کے عہدہ پر تھا اور احمدی نہیں تھا۔ مگر استاد کے احترام میں واپس آیا اور کہنے لگا کہ سیٹ کا انتظام ہے۔ چنانچہ ایک کار میں آپ کی اہلیہ کو بٹھا دیا اور آپ کے لئے بھی جگہ بنا دی۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ ہم دو بھائی کراچی میں رہتے تھے۔آپ جب جماعت کے کام سے کراچی آتے تو جماعتی مصروفیات کی وجہ سے ہمارے سے ملاقات نہ ہوتی تھی اور واپس جانے کے بعد خط لکھتے تھے کہ مجھے آپ دونوں سے نہ ملنے کا افسوس ہے۔ ایک دفعہ جب آئے تو احمدیہ ہال میں نماز جمعہ پر ملے۔ اس کے بعد آئے تو مکرم چودھری احمد مختار صاحب امیر کراچی نے ہمیں بلواکر والد صاحب سے ملوادیا۔ ایک دو بار پھر ایسا ہوا تو طبیعت میں کچھ ہچکچاہٹ پیدا ہوگئی کہ وہ تو جماعت کے کام سے آتے ہیں اس لئے ایک دو دفعہ نہیں گئے مگر محترم امیر صاحب کا پیغام آیا کہ والد صاحب کو ملنے کے لئے اس جگہ اتنے اتنے بجے آجائیں، یہ میرا حکم ہے، آپ کے والد صاحب نے نہیں کہا۔
ایک واقعہ محترم والد صاحب نے سنایا کہ میں سندھ کے دورہ پر تھا۔ حیدر آباد پہنچا تو پانچ چھ گھنٹے وہاں ٹھہرا۔ شام کو مجھے کراچی پہنچنا تھا۔ امیر صاحب جماعت حیدرآباد نے کہا کہ شام کو بذریعہ کار کراچی پہنچادیں گے مگر مَیں نے کہا کہ ایسے تو دیر ہوجائے گی لہٰذا بس کے ذریعہ ہی چلا گیا۔ لیکن جس کوچ میں سفر کیا وہ راستہ میں کسی جگہ خراب ہوگئی۔ جو چند سواریاں تھیں وہ اُتر کر میرے دیکھتے دیکھتے اپنا اپنا انتظام کر کے کسی نہ کسی طرح چل دئیے۔ صرف مَیں اور ایک اور نوجوان وہاں کھڑے رہ گئے۔ سورج غروب ہوگیا۔ ساتھ کھڑے نوجوان نے کہا میاں جی آپ اپنا انتظام کر لیں یہ علاقہ ٹھیک نہیں۔ میں گھبرایا تو ضرور مگر دعا کر رہا تھا اور یقین تھا کہ جس کے دین کے کام سے جارہا ہوں وہ ضرور مدد کرے گا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک کار قریب آکر رکی۔ جو صاحب یہ کار چلا رہے تھے اپنی داڑھی اور وضع قطع سے کوئی کٹر مولوی معلوم ہوتے تھے۔ ان صاحب نے مجھے کہا: بزرگو! کدھر جانا ہے؟ میں نے کہا کراچی۔ کہنے لگے: بیٹھ جائیں۔ میری پیشکش کے باوجود انہوں نے مجھ سے کرایہ نہ لیا اور کہا انسانیت بھی کوئی چیز ہے۔ آپ میرے والد کی عمر کے ہیں۔ پھر وہ مجھے چھوڑنے احمدیہ ہال کے دروازہ تک پہنچے اور عین وہاں جا کر کار روک دی۔ جب ان صاحب کا میں نے شکریہ ادا کیا اور احسان مندی کے لئے ہاتھ ملانے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھ سے ہاتھ ہی نہیں ملایا کیونکہ انہوں نے احمدیہ ہال کا بورڈ پڑھ لیا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے اسی رحیم وکریم نے میری مدد فرمائی۔
مکرم ڈاکٹر عبد المنان صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ آپ کے والد صاحب ایک مرتبہ صوبہ سرحد کے دورہ پر گئے تو ایک مقام پر جہاں کسٹم چیک پوسٹ تھی، ان کو روک لیا گیا اور سپاہی گاڑی کے کاغذات چیک کرنے لگے۔ کافی پریشانی ہوئی۔ پھر جب اُن کا ارادہ تنگ کرنے کا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے خود مدد فرمائی کہ ڈی ایس پی کسٹمز اپنے دفتر سے باہر آئے اور ان کی کار کی طرف Flashlightسے روشنی ڈالی اور اپنے عملہ کو پشتو زبان میں کہنے لگے کہ ان کو کیوں روکا ہے؟ یہ تو میرے استاد ہیں ان کو جانے دو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں