محترم سیٹھ خیرالدین صاحب

محترم سیٹھ خیرالدین صاحب دنیانگر ضلع گورداسپور سے تعلق رکھتے تھے۔ جب طاعون پھیلی تو آپ کی والدہ بھی اس کا شکار ہوگئیں اور اُن کے اصرار پر آپ کو اس حالت میں گھر چھوڑنا پڑا کہ وہ دم توڑ رہی تھیں۔ پھر آپ مختلف مقامات پر ملازمت کرتے ہوئے ایک سرکس کمپنی میں بطور کیشیئر ملازم ہوگئے۔ یہ کمپنی ڈیرے ڈالتی ہوئی جب لکھنؤ پہنچی تو آپ کو یہاں کا ماحول اتنا پسند آیا کہ یہیں کہ ہوگئے۔ پہلے ایک مکان اور دکان کرایہ پر حاصل کئے اور پھر اپنا مکان اور دوکان تعمیر کرکے ’’پنجاب سائیکل ورکس‘‘ کے نام سے سائیکلوں کی درآمد کا کاروبار شروع کردیا۔ پھر سائیکلوں کی مرمت کا کارخانہ بھی کھول لیا جہاں بڑی تعداد میں کاریگر ہمہ وقت کام میں مشغول رہتے۔ اسی دوران آپ کی ملاقات لکھنؤ کے احمدی محترم مرزا کبیرالدین صاحب سے ہوگئی جن کی نیک خصلتی دیکھ کر آپ نے بھی احمدیت قبول کرلی۔ آپ کے چار بیٹے اور نو بیٹیاں ہوئیں جن میں سے بڑے بیٹے ڈاکٹر منصور احمد سابق پروفیسر ریاضی ، علی گڑھ یونیورسٹی ہیں۔ ایک بیٹے داؤد احمد صاحب وفات پاچکے ہیں جو سلسلہ کے مخلص خادم تھے۔ اُن کا ذریعہ معاش ایک ٹیلرنگ شاپ تھی جس میں کئی کارکن ملازم تھے۔ وہ اپنے کارکنوں کو صبح کام سمجھاکر خود دعوت الی اللہ کے لئے لکھنؤ کے مختلف محلّوں میں نکل جاتے اور دن بھر اسی فریضہ میں مصروف رہتے۔ اردو اور انگریزی میں تقریر کرنے کی صلاحیت بھی انہیں حاصل تھی۔
محترم سیٹھ خیرالدین صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍اگست 1999ء میں بیان کرتے ہیں کہ سیٹھ صاحب کے گھر میں ایک بڑا ہال نما کمرہ تھا جو بیک وقت مسجد اور مہمان خانہ کا کام دیتا تھا۔ سیٹھ صاحب اپنے مہمانوں کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ قادیان سے آنے والے مربیان بھی یہیں قیام کرتے تھے۔
محترم سیٹھ صاحب لکھنؤ کے تھیوسوفیکل ہال میں ہر سال جلسہ سیرۃالنبیﷺ منعقد کرواتے اور مرکز سے علماء کو بلوایا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک جلسہ میں تلاوت کے بعد شوکت تھانوی مرحوم نے ایک نظم پڑھی تھی جس کا ایک شعر تھا:

ہم نے یہ مانا کہ ہیں یہ راہ سے کھوئے ہوئے
ہم سے پھر اچھے ہیں کیونکہ ہم تو ہیں سوئے ہوئے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں