محترم سیّد رفیق احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍مئی 2011ء میں مکرم سیّد حنیف احمد صاحب کے قلم سے اُن کے والد محترم سیّد رفیق احمد صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
حضرت حافظ سیّد باغ علی صاحب ایک نیک طینت اور تعلق باللہ والے انسان تھے۔ اپنی زمین پر مسجد تعمیر کروائی، مسافرخانہ اور کنواں بھی بنوایا اور مسجد کی خدمت کے لئے اپنی زمین پر دو خاندان بھی آباد کئے۔ مسجد میں خود اذان دیتے اور امامت کرواتے۔ جب آپ کے کان میں حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کی اطلاع پہنچی تو فوراً قادیان جاکر بیعت کرلی اور واپس آکر اپنی بیعت کا اعلان کردیا۔ اس پر شدید مخالفت شروع ہوئی۔گالی گلوچ اور مارپٹائی تک بھی نوبت پہنچ جاتی۔ آخر پنچائت نے آپؓ کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ یہ بائیکاٹ اتنا شدید تھا کہ مسلح افراد پہرہ دیتے کہ کوئی چیز آپؓ تک نہ پہنچ سکے۔ اس دوران آپؓ کے دو بیٹے بھی فوت ہوگئے جن کی تدفین صحن میں ہی کرنی پڑی حالانکہ گاؤں کے قبرستان کے لئے زمین آپؓ ہی نے ہبہ کی تھی۔ بائیکاٹ کے چھٹے سال آپؓ کے ہاں ایک بیٹا سیّد رفیق احمد پیدا ہوا۔ اس بیٹے نے گھر کے باہر شدید دشمنی کا اور گھر کے اندر تقویٰ اور دعاؤں کا ماحول دیکھا۔ لڑکپن میں ہی نہایت دیندار اور متّقی تھا اسی لئے مولوی مشہور تھا۔
مکرم سیّد رفیق احمد صاحب کے بڑے بھائی مکرم سیّد صدیق احمد صاحب جامعہ احمدیہ میں زیرتعلیم تھے۔ آپ نے بھی اپنے والد (محترم سیّد باغ علی صاحبؓ) سے جامعہ میں جانے کی اجازت چاہی تو والد نے جواب دیا کہ وہ اتنا خرچ برداشت نہیں کرسکتے۔ اس پر آپ نے عرض کیا کہ جس قدر خرچ دے سکتے ہیں وہ دیدیں باقی مَیں خود گزارہ کرلوں گا۔ چنانچہ 1948ء میں آپ جامعہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔ اسی سال فرقان فورس کے تحت تین ماہ تک کشمیر کے محاذ پر بھی رہے۔
وہ بڑی غربت کا زمانہ تھا۔ آپ گاؤں سے گُڑ لے آئے جسے سالن کے طور پر استعمال کرتے۔ رات کو سردی سے بچنے کے لئے تنور کے پاس لیٹتے۔ شاہد کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے فاضل عربی کا امتحان بھی پاس کرلیا۔پھر زندگی وقف کردی لیکن نظر کی کمزوری کی وجہ سے وقف میں قبول نہ کئے گئے۔ اس پر آپ نے میٹرک کیا اور پھر P.T.C. کا کورس کرکے بطور ٹیچر ملازمت اختیار کرلی۔ پھر دورانِ ملازمت F.A.، B.A. اور M.A. بھی کیا۔ آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا خصوصاً قرآن کریم کے مضامین کا وسیع علم تھا۔ روزانہ لمبی تلاوت کرنا اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے درجنوں صفحات کا مطالعہ کرنا معمول تھا۔ خدمت دین کا جذبہ بھی بہت تھا چنانچہ خدام اور پھر انصار کے قائد ضلع رہے۔ ضلعی عاملہ میں سیکرٹری اصلاح و ارشاد اور سیکرٹری تحریک جدید کے طور پر بھی سالہاسال خدمت کی توفیق پائی۔ آپ اکثر سکول سے ہی چھٹی کے بعد دورہ پر جاتے اور اگلے روز سیدھے سکول پہنچتے۔
خدمت خلق کا بہت شوق تھا۔ گاؤں والوں کی خدمت کے لئے آپ نے ڈسپنسری کی مہارت بھی حاصل کی۔ ہومیوپیتھک کا کورس کیا لیکن کبھی مریض سے پیسے نہ لیتے۔ کئی طلباء کو اپنے گھر پر ٹیوشن پڑھاتے مگر ٹیوشن فیس نہ لیتے۔ کئی لوگ آپ سے قرض لیتے لیکن پھر واپس نہ کرسکتے اور اس وجہ سے آپ کو شدید مالی تنگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا لیکن کبھی قرض خواہ سے تقاضا نہ کرتے۔ مہمان نواز بھی انتہا درجہ کے تھے۔ جماعتی مہمانوں کے لئے تو ہمارا گھر مہمان خانہ تھا ہی لیکن آپ اپنی سائیکل پر مہمانوں کو قریبی دیہات میں لے جانے اور دورہ کروانے کی خدمت بھی بخوشی سرانجام دیا کرتے۔ اس کے علاوہ آپ کے کئی پرانے طالبعلم جو گجرات کے ضلع ہونے کے باعث کسی کام سے آتے وہ بلاتکلّف آپ کے ہاں قیام کرتے۔
محترم سیّد رفیق احمد صاحب نماز کی خود بھی انتہائی پابندی کرتے اور اپنی اولاد سے بھی کرواتے۔ ہر کام حتّٰی کہ فصل کی کٹائی یا مکان کی تعمیر بھی درمیان میں روک دیتے اور مالی نقصان کی پرواہ کئے بغیر نماز وقت پر ادا کرتے۔ بتایا کرتے تھے کہ آپ نے لڑکپن میں تہجّد شروع کی تھی اور پھر ہمیشہ اس کی پابندی کی۔ گاؤں میں اپنے گھر کے ساتھ مرکز کی اجازت سے ایک چھوٹی مسجد بھی تعمیر کروائی جس میں خود اذان دیتے اور نماز کی امامت بھی کرواتے۔
جب آپ نے ربوہ میں رہائش اختیار کی تو جس محلہ میں رہے وہاں پر امام مسجد مقرر رہے۔ کچھ عرصہ نظارت تعلیم القرآن و وقف عارضی میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ مختلف اضلاع سے آنے والوں کو ترجمہ قرآن اور عربی گرائمر پڑھاتے۔ مسجد مبارک میں بھی قرآن کریم کی کلاس لیتے۔ مجلس انصاراللہ پاکستان کے شعبہ اصلاح و ارشاد میں نائب قائد بھی رہے۔
20؍مارچ 2011ء کو آپ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں