محترم سید عبداللہ شاہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍نومبر 2000ء میں محترم سید عبداللہ شاہ صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے آپ کے فرزند مکرم سید حمید احمد صاحب لکھتے ہیں کہ آپ محترم سید شیر شاہ صاحب آف کلرسیداں (کہوٹہ) کے ہاں 15؍اگست 1909ء کو پیدا ہوئے اور حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے آپ کا نام رکھا۔ آپ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب ؓ کے نواسے تھے اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کے خالہ زاد بھائی تھے۔ ددھیال میں سے کسی نے احمدیت قبول نہیں کی۔ آپ کی والدہ حضرت سیدہ زیب النساء صاحبہؓ کے ہاں اولاد پیدائش کے بعد فوت ہوجاتی تھی۔ ایک بار وہ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور دعا کی درخواست کی۔ حضورؑ نے دعا کی اور فرمایا کہ خدا زندگی والی اولاد عطا کرے گا جو پھلے گی اور پھولے گی۔

آپ کے بچپن کا ابتدائی حصہ کلرسیداں میں گزرا۔ اپنے والد کی وفات کے بعد قادیان چلے آئے اور یہیں تعلیم مکمل کی۔ چھٹی جماعت میں تھے جب آپ نے خواب میں خود کو مسجد نبوی میں دیکھا۔ بعد میں خدا تعالیٰ نے آپ کو حج کرنے کی سعادت بھی عطا فرمائی۔ نویں جماعت میں تھے جب گھوڑے سے گر گئے اور کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اس حادثے کے بعد تین سال تک بستر پر پڑے رہے۔ جب ٹھیک ہوئے تو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے نرسنگ کی تربیت کے لئے نورہسپتال قادیان میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحبؓ کے سپرد کردیا۔
1937-38ء میں آپ ایک شپنگ کمپنی میں ملازم تھے جن کا جہاز مختلف ممالک کے مسافروں کو حج کیلئے لے جایا کرتا تھا۔ اس ملازمت کے دوران آپ کو حج کرنے کی توفیق ملی۔ اس سفر میں اگرچہ تنخواہ اور دوسری سہولتیں بہت تھیں لیکن لمبے عرصہ کے لئے گھر سے باہر رہنا پڑتا تھا۔ ایک بار جب آپ چھٹی پر گھر آئے تو آپ کی والدہ نے آپ کو واپس بھیجنے سے انکار کردیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ بھی والدہ کی پریشانی سمجھتے تھے چنانچہ حکم دیا کہ اب کہیں نہیں جاؤگے اور والدہ کا خیال رکھو گے۔ اس طرح حضورؓ کے حکم پر آپ دواخانہ خدمت خلق میں ملازم ہوگئے۔ بعد ازاں وہ جہاز جس پر آپ کام کرتے تھے، جاپانیوں کی بمباری کی وجہ سے سمندر میں غرق ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کے ارشاد کی تعمیل کی برکت سے آپ کی حفاظت فرمائی۔ اس واقعہ کا آپ کی زندگی پر گہرا اثر ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کلرسیداں چلے گئے اور وہاں کلینک چلاتے رہے۔ 1954ء کے بعد کچھ عرصہ تحریک جدید کے تحت بشیر آباد اسٹیٹ سندھ میں نیز تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی ڈسپنسری اور فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں کام کرتے رہے لیکن زندگی کا بیشتر حصہ بیکاری میں گزرا۔
آپ دینی احکام کی پیروی میں بڑے سخت تھے، جوانی سے ہی تہجدگزار تھے۔ اپنے بچوں میں نماز کی باقاعدہ ادائیگی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ بلند آواز سے قرآن کریم کی تلاوت آپ کا شغل تھا۔ بہت دعاگو اور صاحب رؤیا و کشوف تھے۔ 29؍اگست 1998ء کو شیخوپورہ میں وفات پائی جہاں میرے پاس آپ پندرہ سال سے مقیم تھے۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا ثمر تھے اور آپ کے آٹھ بیٹے بیٹیاں اور اُن کی اولادیں خدا کے فضل سے بہت پھلیں پھولیں اور دنیا کے مختلف علاقوں میں خوش و خرم آباد ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں