محترم سید عبدالحئی شاہ صاحب

روزنامہ الفضل ربوہ 18فروری 2012ء میں مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کے قلم سے محترم سیّد عبدالحئی صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

پروفیسر پرویز پروازی صاحب

محترم پروازی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ سیّد عبدالحئی عمر میں دو چار سال بڑے تھے مگر ہم ذوق ہونے کی وجہ سے ہمارے مابین ہم عمروں کی سی بے تکلّفی تھی۔ آپ سے ہماری آشنائی ربوہ کے شروع کے زمانہ سے تھی جب ربوہ میں سب عمارتیں کچّی تھیں۔ ہم نے میٹرک کا امتحان دیا تھا اور قبلہ مولوی مصلح الدین راجیکی صاحب کی خدمت میں پہروں حاضر رہتے۔ جامعہ اُس وقت احمد نگر میں تھا مگر جامعہ کے طلبا ربوہ آتے جاتے رہتے تھے۔ سیّدعبدالحئی جب بھی ربوہ آتے تو مولوی صاحب سے ملنے اور ان کی باتوں سے متمتع ہونے کے لئے وہاں آجاتے۔ پھر آپ کے نام کا ڈنکا بجنے لگا کیونکہ مولوی فاضل کے امتحان میں آپ پنجاب یونیورسٹی میں اوّل رہے تھے۔ پھر جامعۃالمبشرین ربوہ میں آگئے تو آپ سے قربت کا تعلق بننا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ ہم بے تکلّف دوست بن گئے۔
ہمیں سیّد عبدالحئی صاحب کے بارہ میں صرف اتنا پتہ تھا کہ کشمیر سے آئے ہیں اور اکیلے ہیں۔ آپ نے اپنے علم اور بردبار طبیعت کی وجہ سے ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا۔ لوگ آپ کا احترام کرتے تھے۔ کچھ آپ کا اٹھنا بیٹھنا بھی عالموں کے ساتھ تھا۔ اگرچہ ہم جیسے لوگوں کے پاس بھی تشریف فرما ہوتے تھے مگر ایک فاصلہ قائم رکھتے۔ ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ عربی کے فاضل تھے مگر کبھی اپنے علم سے کسی کو مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔
جب ہم تعلیم الاسلام کالج کے سٹاف پر آگئے تو سیّد عبدالحئی بھی مربی بن گئے۔ مگر تقرّر ربوہ ہی میں رہا۔ خاموش طبع آدمی تھے۔ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ حلقہ احباب محدود تھا۔ ان کا قلم لکھنے میں رواں نہیں تھا یا ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ شاہ جی بہت کم لکھتے ہیں مگر ان کی علمیت میں کسی کوکلام نہیں تھا۔ بعد کو جب ناظر اشاعت بن گئے تو ایسے دَور میں جب اشاعت پر پابندیاں تھیں سلسلہ کی کتب اور اخبارات کی اشاعت میں مستعد رہے۔ ایک مومنانہ سادگی اور بے نیازی ان میں تھی۔ ربوہ کی گلیوں میں پھرتے ہوئے کوئی دیکھنے والا یہ نہیں جان سکتا تھا کہ یہ سلسلہ کے اتنے بڑے عالم اور عہدیدار ہیں۔
سیّد عبدالحئی کی طمانیت قلب اور خوشی کا ایک نظارہ ہم نے ایک بار تب دیکھا جب آپ حضرت صاحب سے مل کر نکلے۔ خوشی چہرے بشرے سے پھوٹی پڑتی تھی۔ ہم نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے: حضرت صاحب نے میری ایک ادنیٰ سی خدمت پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا ہے۔
آپ کے ذمہ حضرت صاحب کی تقاریر کے لئے حوالے مہیا کرنا بھی تھا۔ آپ اس کام میں اتنی مستعدی سے مصروف رہتے تھے کہ دن کی پروا تھی نہ رات کی۔ پاوں سُوج کر کُپّا ہو جاتے تھے مگر کام بند نہیں کرتے تھے ایسی صورتحال میں پاوں لٹکا کر بیٹھنا مضر ہی نہیں خطرناک بھی ہوتا ہے مگر آپ کو ایک ہی لَو لگی رہتی تھی کہ مطلوبہ حوالے بصحت تمام حضرت صاحب تک پہنچ جائیں۔
ہم سویڈن میں تھے تو ہمارے بیوی بچوں کو محترم سیّد عبدالحئی صاحب کی ہمسائیگی میں دو تین برس رہنے کا موقعہ ملا۔ میرے گھر سے کہتی ہیں کہ ہم نے شاہ صاحب کو کبھی اونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا۔ ان کی بیگم بھی حد سے زیادہ تعاون کرنے والی اور دوسروں کا خیال رکھنے والی تھیں۔ قادیان کے سفر میں بھی میری بیوی کو ان کی ہمراہی کا موقعہ ملا تو شاہ صاحب اور ان کی بیگم نے سفروحضر میں ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا۔ قادیان کے گلی کوچوں سے انہیں اس طرح روشناس کروایا کہ ان کی قادیان کی سیر بامعنی ہو گئی۔
آپ کی ایک خاص عادت یہ تھی کہ کبھی اپنی حد سے آگے نہیں بڑھتے تھے۔ دوسروں کے اعمال و افعال پر نکتہ چینی بھی ان کی طبیعت سے بعید تھی۔ نہ خود کرتے تھے نہ کسی اَور کو کرنے دیتے۔ جب کالج میں ایم اے عربی میں داخل ہوئے تو اپنے اساتذہ کا پورا احترام ملحوظ رکھتے۔ ایک دو بار ہم نے انہیں اپنے کمرہ میں چائے پینے کے لئے بلایا۔ اتفاق سے ایک روز ہمارے ایک بے تکلّف ساتھی بھی آگئے جو اِن کے استاد تھے تو شاہ جی کھڑے ہوگئے اور اُس وقت تک نہیں بیٹھے جب تک ان کے استاد نے انہیں بیٹھنے کا نہیں کہا۔ یہ ان کی بزرگانہ ادا تھی ورنہ وہ استاد اِن سے علم اور مرتبہ میں کہیں فروتر تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں