محترم سید عبدالحئی شاہ صاحب

روزنامہ الفضل ربوہ 10فروری 2012ء میں مکرم طاہر محمود احمد صاحب مربی سلسلہ کے قلم سے محترم سیّد عبدالحئی صاحب سابق ناظر اشاعت کی سیرت پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ مضمون نگار کو طویل عرصہ تک نظارت اشاعت میں خدمت کا موقع ملتا رہا ہے۔
محترم سیّد عبدالحئی شاہ صاحب کے مختصرسوانحی خاکہ اور اہم خدمات کا تذکرہ قبل ازیں 23جون 2017ء کے شمارہ کے الفضل ڈائجسٹ میں کیا جاچکا ہے۔
محترم سیّد عبدالحئی شاہ صاحب 12 جنوری 1932ء کو محترم سید عبدالمنان صاحب کے ہاں کشمیر کے گاؤں کوریل میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ پھر قادیان آگئے اور وہاں سے بطور طالبعلم ہی ربوہ منتقل ہوگئے۔ پھر قریباًچالیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد آپ اپنی والدہ سے ملنے (بھارت کے زیرانتظام) کشمیر میں اپنے آبائی علاقہ میں جاسکے۔ چند دن والدہ کی قربت میں گزار کر آپ واپس پاکستان آگئے تو پھر دونوں ممالک میں کشیدگی کے باعث ماں بیٹے کی ملاقات دوبارہ ممکن نہ ہوسکی اور اسی اثناء میں آپ نے اپنی والدہ کی وفات کا صدمہ نہایت صبر سے برداشت کیا۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ محترم شاہ صاحب باپ جیسی شفیق اور ہمدرد ہستی تھے جس کے ماتھے پر کبھی شکن نہیں دیکھی۔ لہجے میں سختی کا دُور دُور تک نام و نشان تک نہ تھا۔ طبیعت میں ظرافت کا عنصربھی پایا جاتا تھا۔ آپ کا دفتر تشریف لانا بہارکے جھونکے سے کم نہ ہوتا۔ الجھے ہوئے کام سلجھنے لگتے اور متفرق مشکلات آپ کی ذہانت اور حکمت سے دُور ہوتی جاتیں۔ کئی عوارض میں مبتلا ہونے کے باوجود آپ ہمہ وقت دینی امور میں مصروف رہتے اور نظر رضائے باری تعالیٰ پر جمی رہتی۔
دربار خلافت سے آمدہ فوری امور کی انجام دہی کے لئے بہت فکرمند رہتے اور ان کی تکمیل کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے۔ وقت مقررہ کے اندر مکمل کرنے کے لئے اپنے سب قویٰ کو بروئے کار لاتے اور دفتری اوقات کے بعد دفتر میں ہی یا کبھی گھر پر کام لے جاتے۔
شاہ صاحب حسن اخلاق اور اوصاف حمیدہ میں اُن لوگوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں جنہوں نے بے نفس ہو کر جماعت کی خدمت کی۔ اپنی سادہ زندگی کے لازوال نمونے پیچھے چھوڑے۔ اپنی محنت شاقّہ سے دن رات ایک کر دیا۔ خلافت سے محبت کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ غریب پروری اور ہمدردی کی مثالیں قائم کیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی داستانیں رقم کیں۔ راضی برضا اور صبر کے نمونے دکھلائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں