محترم سید عباس علی شاہ رضوی صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14 جنوری 2011ء میں مکرم یوسف بقاپوری صاحب کے قلم سے مکرم سید عباس علی شاہ رضوی صاحب کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
محترم سید عباس علی شاہ رضوی صاحب 1909ء میں عمر کوٹ ضلع ڈیرہ غازی خان کے ایک شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی۔ دل میں یہ تڑپ موجود تھی کہ کاش انہیں مسیح موعود کا زمانہ میسر آجاتا۔ ابھی آپ زیر تعلیم ہی تھے کہ 1928-1929ء میں امیر امان اللہ خان (شاہ افغانستان) یورپ کی سیاحت کو جاتے ہوئے کوئٹہ سے گزرا تو آپ بھی سٹیشن پر اُسے دیکھنے گئے۔ لیکن امیر کے مصاحبین کی مُنڈی ہوئی داڑھیاں اور یورپین لباس دیکھ کر بہت دلبرداشتہ ہوئے۔ آپ نے خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی کی ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ امام مہدی جلد ظاہر ہونے والے ہیں اور ان کے آنے سے پہلے قندھار کی طرف سے ان کی مدد کے لئے اٹھنے والی سیاہ جھنڈیوں کو امیر امان اللہ خان پر چسپاں کیا تھا۔ لیکن امیر کے مصاحبین کی حالت دیکھی تو ریلوے سٹیشن سے فوراً ہی واپس ہوسٹل پہنچے اور تنہائی میں تڑپ تڑپ کر دعا کرتے رہے کہ آپ کی خواہش پوری ہوجائے۔ بعد ازاں آپ نے ایک خواب کی بِنا پر 1929ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی۔
آپ کی شادی حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ کی بڑی صاحبزادی مکرمہ امۃالحفیظ صاحبہ سے 1935ء میں ہوئی۔ آپ کا ایک بیٹا (مبشر احمد شاہ صاحب ریٹائرڈ چیف انجینئر حکومت پنجاب) اور دو بیٹیاں ہوئے۔
محترم سید عباس علی شاہ رضوی صاحب نے قریباً ساری عمر ڈیرہ غازی خان میں گزاری۔ اور 1959ء میں مستقل طور پر ربوہ آگئے جہاں سالہا سال تک بطور مینیجر نصرت گرلز ہائی سکول خدمات بجالاتے رہے۔ یہیں آپ نے ایم اے اسلامیات کیا۔
آپ نہایت خاموش طبیعت کے مالک تھے۔ پنجوقتہ باجماعت نماز کے پابند اور تہجد گزار تھے۔ قرآن شریف کی تلاوت اور سلسلہ کی کتب کا مطالعہ ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں انہیں سادہ لباس میں ہی دیکھا۔ شلوار، قمیص، چھوٹا کوٹ، ہاتھ میں چھڑی اور سر پر پگڑی باندھتے تھے۔ پیدل چلنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ ایک چھوٹا بھائی تھا وہ بھی لاولد ہوکر فوت ہوا۔
محترم رضوی صاحب کی وفات 24 مارچ 1996ء کو بعمر 87 سال ہوئی اور بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں