محترم سردار محمود احمد صاحب عارف مرحوم

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ اپریل 2010ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرم نصیر احمد صاحب عارف کارکن نظارت امورعامہ قادیان نے اپنے واقف زندگی والد محترم سردار محمود احمد صاحب عارف درویش کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم سردار محمود احمد صاحب عارف درویش ولد مکرم سردار شیر محمد صاحب مرحوم 16دسمبر1925ء کو موضع نواں کوٹ ضلع شیخوپورہ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے ایک اوربھائی محترم سردار عبد الحق صاحب شاکر مرحوم بھی واقف زندگی تھے۔ ان کے علاوہ ایک بھائی اور ایک بہن تھیں۔ والدین آپ کے بچپن میں ہی وفات پا چکے تھے ۔ آپ کی پرورش آپ کے تایا مکرم سردار غلام احمد صاحب نے کی۔ مڈ ل کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1938ء میں آپ کو مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل کرا دیا گیا۔ 1939ء میں جب دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی تحریک پر آپ فوج میں بھرتی ہو گئے ۔ آپ کی رجمنٹ میں3کمپنیاں عیسائیوں کی اور ایک خالصتاً احمدی نوجوانوں کی تھی۔ عیسائی کمپنیوں میں سے ایک کے کمپنی کمانڈر محترم صاحبزادہ مرزا داؤد احمد صاحبؓ تھے جبکہ احمدیہ کمپنی کا کمانڈر ایک سکھ سرائن سنگھ تھا جو احمدی نو جوانوں کی بہت قدر کرتا تھا۔
فوج میں بھرتی ہونے کے بعد محترم سردار صاحب نے انبالہ اور کلکتہ میں ٹریننگ مکمل کی اور پھر مختلف علاقوں میں تعینات رہے۔ سندھ کے علاوہ صوبہ سرحد میں بھی متعین رہے۔ یہاں صاحبزادہ مرزا داؤد احمد صاحب آپ کی کمپنی کے کمانڈر تھے اور اُس وقت میجر بن چکے تھے۔ پٹھان اُن کی بہت عزت کرتے اور اکثر پھلوں کے تحفے بھی لاتے۔ وہاں سے محترم سردار صاحب کو پیراشوٹ بٹالین میں تبدیل کردیا گیا جو نئی بنائی گئی تھی۔ اس بٹالین کا کمانڈر ایک پٹھان تھا۔ جلد ہی اُس کمانڈر کو علم ہوا کہ بٹالین میں احمدی بھی ہیں۔ اُس نے سزا کے طور پر احمدیوں کوپیراشوٹ بٹالین سے نکال دیا اور واپس اُن کی کمپنیوں میں بھجوادیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ پیراشوٹ بٹالین کا بہت نقصان ہوا ہے۔ سندھ میں تربیت کے دوران بہت سے فوجی جنگلوں اور غیرآباد علاقوں میں اتارے گئے لیکن کئی لاپتہ ہوگئے اور بعض مرگئے۔ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے احمدی نوجوانوں کو محفوظ رکھا۔
1944ء میں فوجی ملازمت کے دوران ہی محترم سردار صاحب نے زندگی وقف کرنے کی درخواست دی جسے حضرت مصلح موعودؓ نے منظور کرتے ہوئے فوج کی ملازمت جاری رکھنے کا ارشاد فرمایا ۔ پھر 1945ء میں جنگ ختم ہوگئی تو حضور انور ؓ نے فوج چھوڑ کر قادیان آنے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ 1946ء کے آخر میں آپ قادیان حاضر ہو گئے اور حضورؓ نے شعبۂ حفاظت مرکز میں تقرری فرمادی۔
1947ء کے فسادات میں قادیان کی حفاظت کے لئے اکثر سابق فوجیوں نے خدمات سرانجام دیں۔ بعض افراد کو مضافات میں بھی متعین کیا گیا تاکہ بیرونی حملہ آوروں کو روکا جا سکے۔ اس کا بہت فائدہ ہوا اور کئی حملہ آور جتھوں کو ہزیمت اُٹھانی پڑی۔ قریبی علاقوں سے بکثرت غیرازجماعت بھی قادیان آکر پناہ گزین ہوئے۔ حضرت مصلح موعودؓ اگست 1947ء میں لاہور تشریف لے گئے اور وہاں رتن باغ میں قیام فرمایا۔ ان غیر معمولی مخدوش حالات میں حضورجماعت اور خاص طور پر قادیان کے ذمہ دار افراد کی لاہور ہی سے راہنمائی فرماتے رہے ۔ اسی دوران سرکاری طور پر اعلان ہوا کہ قادیان کی آبادی کو قافلہ کی صورت میں لاہور بھجوا دیا جائے۔ جبکہ ریڈیو سے حضور انور ؓ کا یہ پیغام نشر ہوا کہ افراد قادیان قافلہ کی صورت میں نہ آئیں۔ پھر حضور انور ؓ نے 100سے زائد بسوں اور ٹرکوں کا انتظام فرمایا۔ جن کے ذریعہ کثیر تعداد میں احمدی اور غیراز جماعت لاہور پہنچے۔ محترم سردار صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ قافلے لاہور بھجوانے کا انتظام شعبۂ حفاظت مرکزکے سپرد تھا۔ مَیں نے اپنے بھائی بہن ، اہلیہ اور دیگر عزیز و اقارب کے جانے کا انتظام کیا۔ مگر خودمیرے دل میں ایک لمحہ کے لئے بھی قادیان کو چھوڑنے کا خیال تک نہ آیا۔
آپ بتاتے تھے کہ حضور انور ؓ کے جانے کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ امیر مقامی اور نگران مقرر کئے گئے۔ بعدہ ‘حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب امیر و نگران مقرر ہوئے اور آپ کے لاہور تشریف لے جانے کے بعد شعبۂ حفاظت مرکز کے نگران مکرم شیر ولی صاحب ریٹائرڈ صوبیدار میجر اور آنریری کیپٹن نگران اورا میر مقامی بنائے گئے ۔مکرم شیر ولی صاحب کے جانے کے بعد چونکہ حالات کافی حد تک پر امن ہو گئے تھے اس لئے حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب جٹؓ کو ناظر اعلیٰ و امیر مقامی بنایا گیا۔ اسی کے ساتھ حسب ارشاد حضور انور ؓ صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر کے قیام اور بیرونی جماعتو ں کو منظم کرنے کا کام شروع ہوا۔ اکثر دفاتر نے کام کرنا شروع کردیا۔ ساتھ ہی صدر انجمن احمدیہ کی جائیدادوں کی واگزاری کا کام بھی شروع ہوا جو محکمہ کسٹوڈین کی تحویل میں چلی گئی تھیں۔
مرکزی حکومت کی ہدایت پر حکومت پنجاب کا یہ فیصلہ قابل تعریف تھا کہ قادیان کے انخلاکے بعد جو چند سو افراد قادیان میں رہ گئے تھے ان کی حفاظت کا سرکاری طور پر انتظام کیا گیا۔ موجودہ احمدیہ محلہ احمدیوں کی تحویل میں رکھے جانے کا فیصلہ ہؤا ۔ نیز یہ بھی فیصلہ ہوا کہ اس ایریا میں کسی غیرمسلم کو خالی ہونے والے مکان الاٹ نہ ہوں گے ۔ چنانچہ محلہ احمدیہ آہستہ آہستہ آباد ہونا شرو ع ہوا۔ شادی شدہ درویشان کی فیملیاں جو پاکستان چلی گئی تھیں واپس آنے لگیں ۔ بعض غیرشادی شدہ درویشان کی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں شادیاں ہوئیں اور بعض خاندان حضرت مصلح موعود ؓ کی تحریک پر قادیان آ کر آباد ہوئے۔
محترم سردار محمود احمد صاحب کی شادی 1945ء میں اپنے تایا مکرم غلام احمد صاحب مرحوم کی بیٹی مکرمہ فاطمہ بیگم صاحبہ سے ہوئی تھی۔ 1947ء میں آپ کی اہلیہ بھی پاکستان چلی گئی تھیں اور 1950ء میں حالات نارمل ہونے پر واپس قادیان آگئیں ۔ شادی کے سات سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اولاد سے نوازا۔ کُل تین بیٹے اور تین بیٹیاں عطا ہوئیں جو اللہ کے فضل سے شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں ۔آپ نے اپنی ساری اولاد کی بہترین رنگ میں تربیت کی۔
تقسیم ملک کے بعد جب حالات مکمل طور پر سازگار ہو گئے اور صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر قائم ہوگئے تو شعبۂ حفاظت مرکز کے تعلیم یافتہ درویش نوجوانوں کو دفاتر میں کام کرنے کی ذمہ داری سونپی جانے لگی۔ چنانچہ محترم سردار صاحب کو مختلف شعبوں میں پہلے بطور نائب ناظر، پھر آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ، پھر ناظر بیت المال آمد و خرچ اور نائب ناظراعلیٰ کے طور پر خدمت بجا لانے کی توفیق ملی ۔ 1985ء میں ناظر بیت المال خرچ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ بعدہ‘ بطور نائب ناظم وقف جدید بیرون تقرر ہوا۔ آخر کمزوری اور عمر کے تقاضا کی بنا پر 2005ء میں اس خدمت سے سبکدوش ہوئے۔ آپ نے نہایت لگن اور جذبہ سے تمام خدمات سر انجام دیں۔ ساری درویشانہ زندگی نہایت صبر و شکر سے گزاری اور ہمیشہ سلسلہ سے وفا کی۔ کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا اور آبائی جائیداد کی بھی کوئی پروا نہیں کی۔
1982ء میں آپ کو انتخاب خلافت رابعہ کے موقعہ پر صدر انجمن احمدیہ قادیان کی نمائندگی کی سعادت ملی۔اسی طرح 1988ء میں جلسہ سالانہ UK میں بطور نمائندہ صدر انجمن احمدیہ قادیان شامل ہوئے۔
محترم سردار محمود احمد عارف صاحب کی وفات 25فروری 2009ء کو ہوئی۔ بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ درویشان میں تدفین عمل میں آئی۔ 27فروری کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں نماز جمعہ کے بعد آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی اور آپ کے اوصاف حمیدہ کا ذکر کر تے ہوئے فرمایا: ’’… آپ بھی نہایت نیک متقی نمازوں کے پابند صابر شاکر انسان تھے۔ درویشان تقریباً سارے ہی صابر شاکر ہیں ۔نو جوانی میں شیخوپورہ سے قادیان ہجرت کر گئے اور مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا اور زندگی وقف کرنے کی توفیق پائی ۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ارشاد پر فوج میں بھرتی ہوئے اور پھر آپ کے حکم سے ہی فوج چھوڑ دی اور جماعت کی خدمت پر آگئے۔ آپ نے ناظر بیت المال آمد و خرچ اور بعد میں نائب ناظم وقف جدید بیرون کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ ان کی تین بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں آپ کے ایک بیٹے نصیر احمد عارف صاحب کو نظارت امور عامہ قادیان میں خدمت کی توفیق مل رہی ہے ‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں