محترم روشن دین تنویر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18 جون 2009ء میں مکرم پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کے قلم سے محترم روشن دین تنویر صاحب کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔

پروفیسر پرویز پروازی صاحب

محترم روشن دین تنویر صاحب نے اپنے قبول احمدیت کا ذکرکئی بار تحدیث نعمت کے انداز میں کیا تھا اور یہ بھی کہ احمدیت قبول کرنے سے قبل وہ سخت مخالف تھے اور علمی رنگ میں جماعت کے عقائد کا بطلان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ اس سلسلہ میں سیالکوٹ بار ایسوسی ایشن کے اکثر ارکان سے ان کی بحث بھی چلتی رہتی تھی۔ مگر وقت آیا تو قادیان کے ایک ہی سفر نے اُن کی کایا پلٹ دی۔ بار کے ارکان میں جناب چوہدری نصراللہ خاں صاحب والد محترم چوہدری سر ظفراللہ خاں صاحب اور چوہدری شاہنوازصاحب کے علاوہ مشہور شاعر فیض احمدفیض کے والد خان بہادر حاجی چوہدری سلطان محمد خاں بھی تھے جن کا رویہ احمدیت کے بارہ میں بڑا محتاط تھا، مخالف تھے مگر تکذیب نہیں کرتے تھے۔
احمدی ہونے سے قبل تنویر صاحب اپنے وقت کے مؤقر ادبی رسائل میں چھپتے تھے۔ مگر احمدی ہوئے تو ان ادبی رسائل میں چھپنا بند کر دیا۔ آپ نے دیر سے آنے کے باوجود احمدیہ علم کلام پر وہ دسترس حاصل کی کہ لوگ دنگ رہ گئے۔ الفضل جیسے پرچے کے ایڈیٹر مقرر کر دیئے گئے اور یہ کوئی کم خراج تحسین نہیں تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍ اپریل 1940ء میں فرمایا: ’’ابھی سیالکوٹ کے ایک دوست احمدیت میںداخل ہوئے ہیں۔ شیخ روشن دین تنویر ان کا نام ہے اور وکیل ہیں۔ جب مجھے اُن کی بیعت کا خط ملا تو میں نے سمجھا کہ کالج کے فارغ التحصیل نوجوانوں میں سے کوئی نوجوان ہوں گے مگر اب جو وہ ملنے کے لئے آئے اور شوریٰ کے موقع پر میں نے انہیں دیکھا تو ان کی داڑھی میں سفید بال تھے۔ میں نے چوہدری اسداللہ خان صاحب سے ذکر کیا کہ میں سمجھتا تھا کہ یہ نوجوان ہیں اور ابھی کالج سے نکلے ہیں مگر ان کی داڑھی میں سفید بال آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تو دس بارہ سال سے وکیل ہیں پہلے احمدیت کے سخت مخالف ہوا کرتے تھے مگر احمدی ہو کر تو اللہ تعالیٰ نے ان کی کایا ہی پلٹ دی ہے‘‘ ۔
تنویر صاحب کو اپنے دیر سے آنے کا احساس تھا اس لئے سلسلہ کے لٹریچر کا بہت مطالعہ کرتے تھے۔ وہ اپنی قبول احمدیت کی داستان یوں بیان کرتے ہیں کہ دسمبر 39ء کے شروع میں میری ایک مربیہ محترمہ سکینہ بی بی نے مجھے قادیان کی زیارت کی دعوت دی۔ میںنے یونہی کچا پکا وعدہ کرلیا۔ انہی دنوں محترمی محمد نذیر فاروقی ضلعدار ریاست بہاولپور نے بھی (جو میرے لنگوٹئے یار ہیں) ایک خط میں اس قسم کی دعوت دی اور کہا کہ دیرینہ مفارقت کے بعد ملاقات کا اچھا موقع ہاتھ آجائے گا۔ مزید برآں ایک اور دعوت بھی ایک عزیز نے بھجوا دی۔ اس سہ گونہ دعوت کا مقابلہ میری بے پروائی سے نہ ہو سکا۔ 24دسمبر کی صبح مَیں قادیان کا واپسی ٹکٹ خرید کر پلیٹ فارم پر گاڑی کی روانگی کے انتظار میںتھا کہ اخویم چوہدری شاہنواز صاحب سے مڈھ بھیڑ ہوئی۔ مَیں نے ان سے قادیان جانے کا تذکرہ کیا مگر ان کو یقین نہیں آیا کیونکہ اُن کو معلوم تھا کہ مَیں احمدیت کا سخت مخالف ہوں۔ جب میںنے اُن کو ٹکٹ دکھایا تو وہ حیران رہ گئے۔ انہوں نے فرمایا قادیان سے تم ضرور احمدی ہو کرپلٹوگے۔میں نے جواب دیا یہ ناممکن ہے۔ آپ جانتے ہیں مجھ جیسا آزاد منش آدمی ایسی قیدوں میں سما نہیں سکتا۔ میں تو صرف ایک تماشا دیکھنے جا رہا ہوں۔ تعطیلات ہیں لاہور نہ سہی قادیان سہی۔
گاڑی میں سوار ہوئے تو ویرکاؔ ریلوے سٹیشن پر تبدیلی کے لئے اترنا پڑا۔ وہاں پر احمدی خاندانوں کے خاندان اتر پڑے۔ پلیٹ فارم سوٹ کیسوں ٹرنکوں اور بستروں سے پٹ گیا۔ اس منظر نے ایک عجیب و غریب اثر میرے دل پر کیا۔ مرد عورتیں اور بچے، اس سردی کے موسم میں کنبوں کے کنبے گھروں کو تالے لگا کر کس شوق و ذوق سے آمادئہ سفر ہیں۔ پختگی ٔ اعتقاد کا ایک مقدس پہاڑ میری نگاہوں میں بلند ہو رہا تھا۔
یہ پہلا اثر تھا جس نے زیارت قادیان کا جوش پوری طاقت کے ساتھ میرے دل میں پیدا کر دیا۔ غروب آفتاب کے وقت گاڑی قادیان کے سٹیشن پر پہنچی۔ تقدس کا ایک سمندر تھا جو ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ جس مکان میں ہم ٹھہرے وہ محلہ دارالبرکات میں تھا۔ محلوں کے نام سنے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم خلدِ بریں میں آگئے ہیں۔ ایک بیرونی کمرے میں ہم اترے نیچے کماد کا چھلکا بچھا تھا سردی کا موسم تھا نرم گدیلوں میں لطف کہاں۔ آرام و تعیش پر موت وارد ہو چکی تھی۔ لنگر سے کھانا منگوایا کھایا اور سو رہے۔صبح اٹھ کر بازار سے ہوتے ہوئے بہشتی مقبرہ کی زیارت کی۔ مُردوں کی پاک نفسی قبروں کے گوشوں سے نکل نکل کر میری روح سے ہم آغوش ہو گئی۔ تربتوں کی سادگی نہایت جاذبِ نظر تھی۔ زندہ مردوں کی ایک دنیا! ایسے مردے کہ جن کے سامنے مجھ جیسا زندہ ایک مردہ معلوم ہوتا۔ پاک نفسوں کا اتنا بڑا جمگھٹا شاید ہی کسی اور جگہ دیکھنے میں آئے۔ بے اختیار میرے ہاتھ فاتحہ کے لئے اٹھ گئے۔
بعدہ‘ ہم اس چاردیواری میں داخل ہوئے جہاں حضرت مسیح موعودؑ کا مزار مقدس ہے۔ سادگی پر ہزار بناوٹیں قربان ہو رہی تھیں۔ خاک کے ذرّے ذرّے سے صداقت کی آواز اٹھ رہی تھی۔ یہ قبر اس انسان کی تھی جس نے اپنے مسیحائی کے دعوے کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کے ساتھ عمربھر نبرد آزمائی کی۔ جس کی تکفیر کے فتوے لکھے گئے جس پر عیاذاً باللہ صرف عیاشی کے ہی اتہام نہ لگائے گئے بلکہ جس کو قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں اور جس کی اہانت کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا گیا مگر خدا نے اسے ہر ایک گزند سے بچایا۔ اس مٹی کی ڈھیری نے میرے دل میں ایمان کا شعلہ بھڑکا دیا اور میں ایک مضطرب جان لے کر وہاں سے لوٹا … بعد دوپہر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی باتیں انجمن خدام الاحمدیہ کے جلسہ میں سنیں۔ اس گرانما یہ شخصیت کے متعلق جتنے شکوک میں اپنے دل میں لے کر آیا تھا تمام کے تمام اس طرح مٹ گئے کہ گویا کبھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اتنا سادہ اور پر زور کلام میں نے پہلے کبھی نہیں سنا۔ تقریر میں کوئی دقیق مسائل نہیں بیان کئے گئے، سادہ روزمرہ کی باتیں تھیں مگر انہی سادہ باتوں میں خدا جانے کہاں کی جاذبیت تھی کہ میں نے ایک ایک لفظ ہمہ تن گوش ہو کر سنا اور اپنے آپ کو زندہ سے زندہ تر پایا۔ دوران جلسہ میں حضور کی دیگر تقاریر بھی سنیں جو اپنی سادگی برجستگی اورتاثیر کے لحاظ سے بے مثل تھیں۔
باوجود ان تاثرات کے میں پکّا غیر احمدی رہا اور 29دسمبر کی صبح قادیان سے روانہ ہوا۔ میرے ہمراہ اور بہت سے لوگ بھی اس گاڑی پر واپس ہو رہے تھے جو عموماً احمدی تھے ۔ میرے ڈبے میں ایک شخص کے پاس چند کتب تھیں جو وہ قادیان سے خرید کر لایا تھا۔ میں نے دفع الوقتی کے لئے ایک کتاب ان میں سے اٹھا لی اور پڑھنے لگا۔ یہ کتاب حضرت مصلح موعودؓ کی تقریر ’’انقلاب ِ حقیقی‘‘ تھی۔ اس تقریر کے ختم کرنے تک میں دل میں احمدی ہو چکا تھا۔ زمین تو پہلے تیار تھی صرف بیج ڈالنے کی دیر تھی جو انقلاب حقیقی نے ڈال دیا۔ پہلے میں نے احمدیہ لٹریچر کا مطالعہ ایک مخالفانہ نکتہ ٔ نگاہ سے سے کیا ہوا تھا وہ تمام مطالعہ اب یکدم مجھ پر کریمانہ انداز سے جھپٹا اور مَیں شکار ہو گیا۔ مجھے اپنے آپ پر خود یقین نہ آتا تھا۔
عید قربان کی نماز جامع مسجد احمدیہ سیالکوٹ میں ادا کی اور گھر آکر بیعت کا فارم پُر کرکے امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ بھیج دیا۔ اس خط میں یہ قطعہ بھی لکھا:

عید قرباں ہے آج اے تنویر
مجھ پہ ہے فضلِ ربِ سبحانی
پیش کرتا ہوں روح و قلب و دماغ
کاش منظور ہو یہ قربانی

اور پھر یہ توارد و اتفاق دیکھئے کہ وفات سے کچھ روز پہلے آپ نے لکھا۔

’’عید قرباں ہے مگر عید کا سامان کہاں؟
جان قربان کروں تن میں مگر جان کہاں؟‘‘

اور ان کا انتقال عین عید قربان کے روز ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں