محترم راویل بخارائیف صاحب

روزنامہ الفضل ربوہ 23فروری 2012ء میں محترم راویل بخاری صاحب کے خودنوشت تعارف کا اردوترجمہ (از مکرم مظہرالحق صاحب) شائع ہوا ہے۔ یہ تعارف بی بی سی کی انگریزی ویب سائٹ پر میری صدی کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔
میرا نام راویل بخارائیف ہے۔ میں 1951ء میں دریائے وولگا (Volga) کے کنارے واقع شہر کازان میں ایک ریاضی دان خاندان میں پیدا ہوا۔ پیدائشی طور پر میں ایک مسلمان ہوں مگر حالات ایسے تھے کہ 1989ء تک اسلام کے بارہ میں کوئی واضح تصوّر میرے پاس نہیں تھا کیونکہ سالہا سال سے مَیں اشتراکی روسی ریاستی الحاد میں زندگی بسر کرتا رہا۔ آجکل میں ایک ریڈیو کا صحافی ہوں، ایک طرح سے مذہبی سکالر، ایک زبان دان، ایک مصنف اور شاعر اور ایک ایمان رکھنے والا مسلمان ہوں۔
میرے والدین دونوں 30 کی دہائی میں دوسری جنگ عظیم سے پہلے پیدا ہوئے۔ پس اس کا مطلب ہے کہ اشتراکی ریاستی الحاد پہلے سے اپنی بلندی پر تھا۔ انہیں اپنے پس منظر کے بارہ میں علم تھا لیکن انہوں نے کبھی اسلام پر ایک مذہب کے طور پر عمل نہیں کیا اور میرے لئے یہ اَور بھی زیادہ کم تھا کیونکہ میں 50 کی دہائی میں پیدا ہوا اور اس وقت نہ صرف اسلام پر بحیثیت ایک مذہب بلکہ میری مادری زبان (کازان تاتاری) پر بھی مکمل پابندی تھی۔ سکول کے نصاب سے اسے نکال دیا گیا تھا۔ کم و بیش سارے تاتاری (خواہ وہ کوئی بھی تھے) اسلام کے بارہ میں علم رکھتے تھے۔ وہ کوئی بھی کام بسم اللہ پڑھے بغیر نہیں کرتے تھے۔ پس اس مفہوم میں ہزار سالہ پرانی تاتاری ثقافت ہمیشہ اسلامی اقدار پر رہی ہے۔
میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ایک خفیہ مسلمان تھا جو ہمیشہ مسجد جانے اور اپنی نماز پڑھنے کے بارہ میں سوچتا رہتا تھا۔ یقینا یہ صورت نہیں تھی۔ میں ایک نوجوان اور طالبعلم تھا اور ہر چیز دماغ میں آتی تھی۔ لیکن اگر ایک شخص اسلام یا اپنی قوم کی اصل کے بارہ میں کچھ زیادہ سیکھنا چاہتا تھا تو وہ ارباب اختیار کی نظر میں مشتبہ ہو جاتا۔ یہ ارباب اختیار مقامی تاتاری تھے جو اپنے مستقبل کے لئے بہت زیادہ خوفزدہ تھے ۔
1989ء میں ماحول نہ صرف مذہبی لحاظ سے بلکہ ہرطرح کی اصطلاح میں بہت زیادہ فراخدلانہ ہو گیا۔ لیکن ایک مذہبی شخص ہونے کے لئے یہ کافی نہیں کہ منطقی طور پر سمجھ لیا جائے کہ مذہب کیا ہے۔ ایمان خدا ہی کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی میں ایک قسم کا اس میں جکڑا ہوا تھا۔ کیونکہ عقلی طور پر میں سمجھ سکتا تھا کہ اسلام اچھا ہے کیونکہ یہ اچھی بات کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن میری روح میں کچھ نہیں تھا اور صرف ایک چیز جس نے مجھے اس شک سے بچایا وہ یہ تھا کہ لندن میں میں کچھ لوگوں سے ملا جن کو اب میں سچا مسلمان گردانتا ہوں۔ گو کہ وہ ایک بدعتی کے طور پر باہر کی ایک بڑی دنیا میں اذیتیں دیئے جا رہے ہیں۔ احمدیہ مسلم سوسائٹی۔ احمدیت کا بڑا تصور یہ ہے کہ آپ اس کی مخلوق سے پیار اور اس کی مخلوق کی مدد کئے بغیر خدا سے ایک خالق کے طور پر پیار نہیں کر سکتے۔ یہاں میں سمجھا کہ یہ میری منزل ہے کیونکہ ہر چیز ساتھ آئی۔ میری تعلیم، علم اور عقلیت کی میری پیاس اور ایک خالص دینی اور روحانی تجربہ کے لئے میری جستجو۔ اور اب میں بہت پختہ ایمان رکھتا ہوں کہ کچھ بھی اس دنیا میں غائب نہیں ہوتا۔ آپ کسی چیزکو بہت بے دردی سے کچل تو سکتے ہیں لیکن آپ صرف اسے کسی بڑی گہرائی میں چھپانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ حقیقت میں اسلام کو تباہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ سیاست نہیں ہے، یہ ثقافت نہیں ہے۔ بہرصورت یہ ایک ذہن کی کیفیت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں