محترم راجہ علی محمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4 دسمبر 2010ء میں مکرم سیف اللہ وڑائچ صاحب نے اپنے مضمون میں محترم راجہ علی محمد صاحب سابق امیر ضلع گجرات کا ذکرخیر کیا ہے۔
مکرم راجہ علی محمد صاحب PCS آفیسر تھے اور افسر مال ریٹائرڈ ہوئے۔ آپ چھمبی چوآسیدن شاہ کے رہنے والے تھے اور کوٹ راجگان میں مستقل رہائش تھی۔ آپ کی دوسری شادی محترم ملک برکت علی صاحب (آف کھوکھر غربی) کی بڑی صاحبزادی (محترمہ شریف بیگم صاحبہ) سے ہوئی جو خالد احمدیت ملک عبدالرحمان خادم صاحب کی بڑی بہن تھیں۔ محترم راجہ غالب احمد صاحب آف لاہور آپ کے بڑے صاحبزادہ اور مکرم منیر احمد شیخ شہید (سابق امیر ضلع لاہور) سب سے چھوٹے داماد تھے۔
محترم راجہ صاحب قیام پاکستان سے قبل قادیان میں رہائش پذیر تھے۔ پاکستان بنا تو پہلے گجرات رہائش اختیار کرلی اور 1968ء میں لاہور آ گئے۔ یہیں 1972ء میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔
محترم راجہ صاحب مرحوم میرے استاد اور محسن تھے۔ میری والدہ سوتیلی تھیں اس لحاظ سے آپ مجھے بہت پیار کرتے اور بغیر کسی کو بتائے میری ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔ آپ نے میرے والد چوہدری عنایت اللہ صاحب کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ اس لحاظ سے مجھے اپنے پوتوں جیسا سمجھتے تھے۔ اور میں روزانہ کالج سے واپسی پر سیدھا آپ کے گھر جاتا۔ آپ مجھے انگلش پڑھاتے۔ اکثر دوپہر کا کھانا اُن کے پاس کھاتا۔ بڑے مہمان نواز، بارعب شخصیت کے مالک، صاحب علم اور پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ آپ نے 1967ء میں اپنے ذاتی خرچ سے اپنے گاؤں کوٹ راجگان میں احمدیہ مسجد طیبہ تعمیر کروائی۔جماعتی عہدیداران کی بہت خاطر مدارات کرتے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ بھی خلافت سے چند ماہ قبل گجرات تشریف لائے تو راجہ صاحب کے گھر بڑی شاندار دعوت ہوئی جس میں چند معززین اور احباب جماعت بھی مدعو تھے۔
راجہ صاحب ایک خواب کے ذریعہ احمدی ہوئے تھے اور ہمیشہ تقویٰ کی راہوں پر چلتے تھے۔ 1964ء میں آپ نے ایک قیمتی قطعہ اراضی کسی زمیندار کو بیچا اور 65ہزار زبانی بیعانہ وصول کیا۔ بیعانہ کے بعد دوسرے فریق نے چار دیواری بنا لی اورایک دروازہ راجہ صاحب کی باقی زمین کی طرف رکھ لیا جو کہ غلط تھا اور معاہدہ میں نہیں تھا۔ راجہ صاحب نے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دی۔ ڈپٹی کمشنر کہنے لگے کہ آپ نے جو بیعانہ زبانی لیا ہے اُس سے انکار کر دیں پھر ہم مخالف فریق سے پلاٹ ہی خالی کروا لیں گے۔ مگر آپ نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ میں نے بیعانہ لیا ہوا ہے۔ ڈپٹی کمشنر آپ کی ایمانداری پر حیران ہوا اور معاملہ رفع دفع کروادیا۔
آپ کہا کرتے تھے کہ جب کہیں رشتہ کرنا ہو تو دیکھو کہ اُن کا پہلے رشتہ داروں کے ساتھ کیسا سلوک ہے۔ اگر پہلوں کے ساتھ اچھا ہے تو آپ کے ساتھ بھی اچھا رہے گا۔ لہٰذ ارشتہ سوچ سمجھ کر اور دعا کرکے کرنا چاہئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں