محترمہ نور جہاں صاحبہ

لجنہ اماء اللہ کینیڈا کے رسالہ ’’النساء‘‘ ستمبر تا دسمبر 2010ء میں محترمہ مریم اقبال صاحبہ نے اپنی بڑی بہن محترمہ نورجہاں صاحبہ بیگم مرزا عبدالرحیم بیگ مرحوم (نائب امیر جماعتِ احمدیہ کراچی) کا ذکرخیر کیا ہے۔
آپا نور جہاں صاحبہ کم عمری سے ہی بہت عبادتگزار اور سچی خوابیں دیکھتی تھیں۔ ہمارے والد حضرت حکیم عبدالصمد صاحبؓ دہلوی نے 1905ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت حاصل کی۔ ہمارے نانا داروغہ عبدالحمید صاحب تھے جنہوں نے 1904ء میں ’’براہینِ احمدیہ‘‘ پڑھ کر فرمایا تھا کہ یہ کتاب کسی غوث، ولی یا ابدال کی لکھی ہوئی ہے۔ بعد ازاں وہ نوکری چھوڑ کر میرٹھ میں آباد ہوگئے اور وہاں ہی دونوں خاندان رشتہ میں پروئے گئے۔ ہمارے والد اور نانا، دونوں کی نیکیاں میری آپا جان نے اپنے اندر سمیٹ لی تھیں۔
میں چند ماہ کی تھی کہ امی کی وفات ہوگئی اور گھر کا سارا بوجھ آپا جان اور باجی (بلقیس جہاں صاحبہ) پر پڑگیا۔ ہم 12 بہن بھائی تھے۔ بڑے پیارے انداز سے ابا جان اور ان دونوں بہنوں نے ہم سب کی دینی اور دنیاوی تربیت کی۔ ابا جان دواخانہ کے علاوہ زیادہ وقت ہم بچوں کے ساتھ گزارتے۔ جمعہ کی نماز میں سب کو لے کر جاتے۔ فجر، مغرب اور عشاء باجماعت کرواتے۔ قرآن پاک کی تلاوت روز کا معمول تھا۔ پہلے قرآن کریم خود پڑھتے اور پھر فرماتے کہ اب تم سناؤ۔ تلاوت کے بعد ناشتہ ملتا۔
امی جان کی وفات کے چھ سال بعد آپاجان کی شادی ایک نیک خاندان میں ہوئی۔ محترم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب چھوٹی عمر ہی سے جماعت کے کاموں میں حصہ لیتے تھے۔ جب پاکستان بنا تو مرکز کی حفاظت کے لئے قافلہ کا امیر آپ کو بناکر بھیجا گیا تھا۔ شادی کے بعد انہوں نے جماعتی کام کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی شروع کر دی۔ شادی کے وقت آپ میٹرک پاس تھے اور ریلوے میں ملازم تھے۔ زیادہ تنخواہ نہیں تھی۔بعد میں انتہا ئی کا میاب وکیل بنے اور آخری عمر تک نا ئب امیر جما عت کراچی کے طور پر خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی۔
آپا نورجہاں شادی ہوکر رام سوامی بلڈنگ میں گئیں وہاں ان کی سب بچیاں پیدا ہوئیں۔ ایک لمبا عرصہ کراچی کے حلقہ ’رام سوامی‘ کی صدر لجنہ رہیں۔ آخری دم تک وہاں ہی قیام رہا۔ شادی کے بعد چار سال میں چار بچیاں پیدا ہوئیں۔ ان بچیوں کی پیدائش پر ایک خاص خدا کا یہ فضل تھا کہ ہر بچی کی پیدائش کے وقت شہد کا چھتہ ان کے گھر کے کسی حصہ میں لگتا تھا۔اور جب بچی کی پیدائش کا وقت آتا آپا کے سسر (اباجی) وہ شہد نکالتے اور وہی بچی کی پیدائش پر دیا جاتا۔ چار بچیوں کے بعد بیٹا پیدا ہوا تو اس بچے کے وقت شہدکا چھتہ نہیں لگا۔ ابا جی نے فرمایا کہ لو اب لڑکا ہوگیا ہے اس کے لئے شہد منگاؤ۔ بچیاں تو اتنی مبارک اور بھاگوان ہیں کہ وہ اپنا رزق پہلے سے لے کر آتی ہیں۔
پیاری آپاجان ایک مثالی بیٹی،ایک مثالی بہو،ایک مثالی ماں اور ایک مثالی ساس تھیں۔ اپنی بچیوں کی بہت پیاری تربیت فرمائی۔ ان کی بڑی بیٹی حور جہاں بشریٰ کی اچانک وفات پر ان کے کام اور کردار کی تعریف حضرت خلیفۃ الرابعؒ نے بہت شاندار الفاظ میں فرمائی تھی۔ وہ لجنہ کراچی کی 5نگران ممبران میں سے ایک تھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں