محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11 جولائی 2009ء میں محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ کا ذکرخیر اُن کے بیٹے مکرم داؤد احمد حنیف صاحب (مربی سلسلہ) نے کیا ہے۔
محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ 1923 ء میں حضرت میاں چوہدری فقیر احمد صاحبؓ صدر جماعت ونجواں ضلع گورداسپور کے ہاں پیدا ہوئیں۔ حضرت چوہدری صاحبؓ کو یہ فخر حاصل ہے کہ لوائے احمدیت کے لئے کپڑے کی تیاری شروع ہوئی تو آپؓ نے زمین خود تیار کر کے ہر بیج پر دعائیں کرنے کے بعد اپنی زمین میں کپاس کے بیج بوئے۔ خود اپنے کنویں سے پانی دیتے اور اس طرح کپاس کے پودوں کی پرداخت کرتے رہے ۔ خود بھی اورمنتخب صحابہ و صحابیات سے چنوائی کروائی اور پھر حضرت حشمت بی بی صاحبہؓ نے اسے کاتا اور جب سوت تیار ہو گیا تو اسے قادیان لے جا کر پیش کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اسے قبول فرمایا اور پھر اس سے لوائے احمدیت تیار کیا گیا۔
محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ نے بچپن میں قرآن کریم ناظرہ پڑھ لیا اور کچھ اردو بھی سیکھ لی۔ جبکہ باقی سب خواتین ناخواندہ تھیں۔ اسی لئے مقامی لجنہ کے قیام سے ہی آپ کو خدمت کی سعادت بھی عطا ہوتی رہی۔ پھر شادی کے بعد محمود آباد سندھ اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک گاؤں میں قیام کے دوران بھی خدمت کی بڑی توفیق ملی ۔ عورتوں کو مختلف چندوں کی اہمیت بتاتیں اور چندہ اکٹھا کرتیں، نئی پختہ مسجد کی تعمیر اور اس کی آبادکاری کی خاطر بہت محنت کی۔ احمدی بچوں اور بچیوں کو قرآن پڑھانے کا کام سالہا سال بڑی بشاشت سے سر انجام دیا اور سینکڑوں بچوں نے آپ سے قرآن پاک سیکھا ۔ بدرسوم کے خلاف بھی آپ نے بہت جہاد کیا۔
آپ کو مقبول دعاؤں کی توفیق عطا ہوتی تھی۔ آپ کی شادی محترم چودھری سید محمد صاحب سے ہوئی جو اُس وقت حضرت مصلح موعودؓ کے عملہ حفاظت میں تھے۔ بعد میں وہ سندھ کی زمینوں پر ملازمت کرتے رہے۔ سندھ میں قیام کے دوران غالباً 1949ء میں وہ میعادی بخار میں مبتلا ہوگئے اور بیماری کا اثر اعصاب و دماغ پر ایسا پڑا کہ وہ تقریباً دس سال کوئی ملازمت یا زمیندارہ کرنے کے قابل نہیں تھے۔ ایسے حالات میں گھر کے سات افراد کا گزارہ انتہائی مشکل نظر آتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو قبول کیا اور بغیر مانگے مختلف ذرائع سے رقوم آپ کو ملنے لگیں۔ آپ کے ایک بیٹے (ڈاکٹر منور احمد صاحب سیکرٹری امورعامہ یوکے) نے F.Sc. کا امتحان دیا تو آپ نے اُن کی اعلیٰ تعلیم اور وظیفہ ملنے کے لئے بہت دعا کی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں وظیفہ حاصل کرکے برطانیہ میں Ph.D. کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائی۔
ربوہ میں اپنے بیس سالہ قیام کے دوران بھی اپنے محلہ میں لجنہ کی خدمت بجالاتی رہیں۔ بہت پُرجوش داعی الی اللہ تھیں۔ پابندیوں کے باوجود یہ فرض ادا کرتی رہیں۔ ان کی دعوت الی اللہ سے 98 19ء میں 10 بیعتیں اور 1999ء میں 6 بیعتیں ہوئیں۔ خاکسار کے قیام گیمبیا کے دور ان وہاں تشریف لائیں تو وہاں بھی اصرار کرکے پمفلٹ لئے اور سڑک پر کھڑے ہوکر تقسیم کئے۔ زبان تو کوئی آتی نہیں تھی۔ اسی طرح لندن اور کینیڈا گئیں تو وہاں بھی پمفلٹ تقسیم کرنے کا کام کرتی رہیں۔
جب اولاد بر سرِ روز گار ہوگئی تو آپ بچوں کو غریبوں کی مدد کے لئے کئی مرتبہ خاص طور پر متوجہ کرتیں اور خود تو بغیر بتائے بڑی مدد کر دیا کرتی تھیں۔ غریب بچیوں کی شادی پر خاموشی سے خاصی رقوم دیدیا کرتی تھیں اور کئی یتیم بچوں کو بھی خرچ دیا کرتی تھیں۔ لیکن اس بارہ میں بچوں کو بھی نہیں بتاتی تھیں۔
ایک بیٹے نے 1972ء میں اپنی پہلی تنخواہ ساری آپ کو بھجوادی تاکہ گھر میں نلکا لگوالیں۔ لیکن آپ نے وہ ساری رقم مسجد کے لئے دیدی اور بیٹے کو لکھا کہ یہ پہلی تنخواہ تھی یہ میں نے خدا کے گھر کی تعمیر کے لئے دیدی ہے ۔ اگلے ماہ کی تنخواہ سے آپ کی خواہش پوری کر لوں گی اور نلکالگوالوں گی۔
آپ لڑائی جھگڑے سے بہت دُور رہتیں لیکن جہاں کسی کمزور کی مدد کرنی ہو تو بہت ہمت اور دلیری سے کمزور کا ساتھ دیتیں اور اِس کے بدلہ میں ہر خطرہ مول لینے کو تیار رہتیں۔
آپ گاؤں کے ایک گھرانہ کو تبلیغ کرتی تھیں جن کی ایک لڑکی بہت بیباک تھی اور حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ آپ نے اُسے الہام اِنِّیْ مُھِیْنٌ سناکر تنبیہ کی اور وہاں جانا چھوڑ دیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ عجیب بیماری میں مبتلا ہوگئی اور پھر آپ کو اصرار سے اپنے گھر بلاکر معافی مانگی اور دعا کے لئے اصرار کرتی رہی۔ تب آپ نے اُسے کہا کہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کو بھی معافی کا خط لکھو۔ چنانچہ اس کے بعد اُس لڑکی کو آرام آنا شروع ہوگیا اور اسے صحت ہوگئی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تحریک وقف زندگی کے ماتحت آپ نے مجھے وقف کر دیا ہوا تھا۔ بچپن سے ہی وقف کے لئے تیار کیا کرتی تھیں اور تربیت و نگرانی کرتی تھیں۔ جب جامعہ میں داخل ہوا تو مشکل پڑھائی کی وجہ سے جامعہ چھوڑ دینے کا خیال آیا۔ اس پر میرے والدین نے بہت محنت کی اور والدہ تو ربوہ آکر میرے اساتذہ سے ملیں۔ آخر سب کی محنت رنگ لائی اور مَیں پڑھائی میں دلچسپی سے آگے بڑھنے لگا۔
آپ کو قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ سے بہت محبت تھی ۔ تلاوت قرآن، نماز تہجد اور صوم و صلوٰۃ کی پابند، صاحب رؤیا، تقویٰ شعاراوربزرگ خاتون تھیں۔ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ سے ایک ملاقات میں درخواست کی کہ حضور ان کا جنازہ خود پڑھائیں۔ چنانچہ حضور انور نے ازراہ شفقت ان کی وفات کے بعد لندن میں اُن کا جنازہ غائب پڑھایا۔ 29؍اگست 2007ء کو آپ کا امریکہ میں انتقال ہوا۔ موصیہ تھیں، جنازہ ربوہ لے جایا گیا اور مقبرہ بہشتی میں تدفین ہوئی۔ آپ کے چاروں بیٹوں کو مختلف حیثیتوں سے خدمت دین کی توفیق عطا ہورہی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں