محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ

مکرم میجر (ر) سید سعید احمد صاحب اپنی اہلیہ محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ مرحومہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍جون 1997ء میں رقمطراز ہیں کہ مرحومہ ساری زندگی دینی شعار پر قائم رہیں اور برقعہ پوشی ہر حال میں اپنائی حتی کہ مشترکہ تقریبات میں بھی برقعہ پہن کر حصہ لیتی رہیں اور آپ پردہ پر اعتراض کرنے والوں کو اس مؤثر رنگ میں تعلیم پیش کرتیں کہ دوسری عورتیں فوراً قائل ہو جاتیں۔
مرحومہ نے بچوں کی تربیت کا گھر پر ایسا انتظام کیا ہوا تھا کہ بچے سکول کی تعلیم کے دوران ہی آپ سے قرآن کریم باترجمہ و تفسیر پڑھ لیتے۔ اس مقصد کیلئے روزانہ گھر میں کلاس لگائی جاتی اور ہر پارہ کے اختتام پر امتحان بھی لیا جاتا اور حوصلہ افزائی کیلئے انعام دیئے جاتے۔
ایک بار بعض عیسائی مشنری لڑکیاں آپ کے گھر آگئیں۔ جب آپ نے بات چیت شروع کی تو انہوں نے لاجواب ہوتے ہوئے سوال کیا ’’کیا آپ احمدی ہیں؟‘‘ اور جواب اثبات میں پاکر وہ فوراً چلی گئیں۔
۔…٭…٭…٭…۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍ اگست 1997ء میں مکرم سید حسین احمد صاحب اپنی والدہ محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ مرحومہ کی ایک بہت بڑی خوبی ہر نماز کو وقت پر ادا کرنا تھی۔ خواہ کوئی بھی تقریب ہو اور محفل میں بیٹھی ہوں۔ نماز کا وقت ہوتے ہی خاموشی سے گھر کے کسی کونے میں جاکر نماز پڑھ لیا کرتیں۔ آپ کو قرآن کریم سے عشق تھا چنانچہ اپنے سب بچوں کو قرآن کریم کا ترجمہ سکھایا کرتیں اور ہرپارہ کے ختم ہونے پر تحریری امتحان لیا کرتی تھیں۔ آپ نے قادیان کی دینیات کلاس میں اور پھر اپنے بزرگ والدین سے بخاری شریف سبقاً سبقاً پڑھی۔ حدیث سن کر فوراً بتا دیتیں کہ بخاری کی ہے یا نہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے علم کلام کی کوئی نہ کوئی کتاب بھی ہمیشہ زیر مطالعہ رہتی۔
۔…٭…٭…٭…۔
ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ ستمبر 1997ء کا ضخیم شمارہ محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ سابق صدر لجنہ اماء اللہ ضلع لاہور کی یاد میں شائع کیا گیا ہے جس میں ان مضامین سے صرف انتخاب شائع کیا گیا ہے جو محترمہ سیدہ کی وفات کے بعد ان کی یاد میں تحریر کئے گئے۔
مرحومہ نے 61؍ سال تک مختلف حیثیتوں میں لجنہ کی خدمت کی توفیق پائی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان کی وفات پر فرمایا: ’’…لاہور نے تمام پاکستان کے لئے غیرمعمولی طور پر نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ اور اس کا سہرا ہماری مرحومہ آپا بشریٰ کے سر ہے۔ بڑی خاموش خدمت کرنے والی تھیں، آخری سانس تک آپ نے خدمت کی…‘‘۔
محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ 27؍جولائی 1922ء کو قادیان میں حضرت سید میر محمد اسحاق صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئیں جو ام المومنین حضرت سیدہ نصرت جہاںؓ کے بھائی، مدرسہ احمدیہ کے ہیڈماسٹر اور دارالشیوخ کے نگران اعلیٰ تھے۔ آپکی والدہ حضرت سیدہ صالحہ بیگم صاحبہ ؓ تھیں جو حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کی پوتی اورموجد قاعدہ یسرناالقرآن حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ کی صاحبزادی تھیں۔
محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ نے جب 16 سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان دیا تو آپ قرآن کریم لفظی ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھ چکی تھیں۔ میٹرک کے بعد آپ نے ’’جامعہ نصرت‘‘ میں داخلہ لیا اور چھ سالہ دینیات کا کورس اعلیٰ نمبروں میں پاس کرکے ’’علیمہ‘‘ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کئی سال تک نائبہ ناظمہ جلسہ سالانہ رہیں، جب حضرت مصلح موعودؓ مستقل قیام کے لئے ربوہ تشریف لائے تو آپ کو بھی جملہ انتظامات میں ڈیوٹی کی سعادت عطا ہوئی۔ ربوہ کے پہلے جلسہ سالانہ 1949ء کے تیسرے روز (28؍دسمبر کو) آپ کا نکاح حضورؓ نے محترم میجر سید سعید احمد صاحب کے ساتھ پڑھایا۔ 1951ء میں حضورؓ کے ارشاد پر لجنہ کے ایک گروپ کو اختلافی مسائل کے بارے میں خصوصی تربیت دی گئی جس میں آپ بھی شامل تھیں۔ جب لجنہ لاہور نے ایک گرلز سکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو انتظامی کمیٹی کی آپ سیکرٹری بنائی گئیں۔گزشتہ چودہ سال سے آپ کا ضلع لجنہ اماء اللہ پاکستان کے علم انعامی کے مقابلے میں دوم قرار پا رہا تھا۔
٭ محترمہ صالحہ درد صاحبہ اپنے مضمون میں مرحومہ کی ان خوبیوں کو بیان کرتی ہیں جن کی وجہ سے وہ ایک کامیاب اور مقبول صدر تھیں۔ ان کے کام لینے کا طریق، تربیت کا انداز، بروقت درست فیصلے، امیر کی اطاعت، وقت کی پابندی، عبادت کا ذوق اور دعوت الی اللہ کا شغف ایسی خوبیاں تھیں جو دوسروں کیلئے قابل تقلید ہیں۔
٭ مکرمہ امۃ الکافی عمر صاحبہ نے اپنے مضمون میں اپنی والدہ محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ کی عائلی زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔ مرحومہ کی زندگی خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق کی چھاپ تھی۔ آپ ہمیشہ خدا کی رضا کو پیش نظر رکھتیں۔بچوں نے جب بھی کہانی سننے کی خواہش کی تو ہمیشہ انبیاء، خلفاء اور صحابہ کے واقعات بیان کئے۔ خلافت سے تعلق مضبوط کرنے کیلئے ،جب بھی بچے نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو کہتیں کہ سب سے پہلے حضرت صاحب کے لئے دعا کرو۔ اپنی نمازیں تو باوضو کھڑے ہوکر خاص توجہ اور التزام سے ادا کرتیں لیکن بچوں کی نمازوں اور وضو پر بھی خاص نظر تھی۔ اگر کوئی بچہ جلدی جلدی نماز پڑھ لیتا تو دوبارہ پڑھواتیں۔ مضمون نگار بیان کرتی ہیںکہ ہمارے گھر میںفجر کی نماز کے بعد قرآن شریف کی تلاوت کئے بغیر ناشتہ نہیں دیا جاتا تھا۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے والدین کو تہجد گزار پایا۔ میری شادی کے ڈیڑھ دو سال بعد اپنے ایک خط میں انہوں نے یہاں تک لکھا کہ اگر تم نے کوئی نماز کبھی چھوڑی تو سمجھو کہ اس دن میرا ہارٹ فیل ہو جائیگا۔ان کو قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کا اتنا شغف تھا کہ نہ صرف اپنے گھر پر پڑھایا کرتیں بلکہ دوسروں کے گھروں میں جاکر بھی زبردستی پڑھاتیں ۔ اپنے بچوں کو روزانہ مغرب کے بعد قرآن کریم کا لفظی ترجمہ سکھلاتیں اور پھر ہر سپارے کے بعد امتحان لیا کرتیں۔ تربیت کی طرف ایسی توجہ تھی کہ کبھی کسی کا برے رنگ میں ذکر نہ کیا۔ سچائی کا ایسا احترام تھا کہ جھوٹ بولنے کی سزا بڑی ہی شدید ہوا کرتی۔ جو بات وہ خود نہ بتانا چاہیں تو آرام سے کہہ دیتیں کہ یہ نہیں بتاؤں گی لیکن جھوٹ کبھی نہیں بولا۔ محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ کی خدمت خلق کی عادت نے انہیں ان کے ہمسایوں میں بھی مقبول بنا رکھا تھا۔ پھر یہ کہ وہ خود دور دور تک کے گھروں کے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی پیشکش کرتیں اور اس طرح تعلقات استوار کرتیں لیکن نذر نیاز وغیرہ کے کھانے بے دھڑک واپس کردیتیں اور کبھی ان رسومات کو اپنے تعلقات میں حائل نہیں ہونے دیا۔ اپنے غیراحمدی رشتہ داروں کی شادیوں میں بھی بشاشت سے شامل ہوتیں لیکن ہرقسم کی رسومات سے بکلی اجتناب کرتیں۔ جو لوگ نامناسب انداز میں آپ کے سامنے کوئی اعتراض کرتے تو بھی آپ حوصلے سے سنتیں اور تحمل سے جواب دیتیں۔ آپ صاحب رؤیا بھی تھیں اور آپ کو اکثر سچی خوابیں آتیں جن کا ذکر بھی کر دیتی تھیں۔ اپنی وفات سے قبل بھی خواب دیکھ چکی تھیں۔
٭ مکرم سید حسین احمد صاحب کے مضمون کا خلاصہ قبل ازیں ’’الفضل‘‘ انٹرنیشنل 7؍نومبر کے اسی کالم میں بیان ہوچکا ہے۔ اپنی والدہ محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے وہ بیان کرتے ہیں کہ شاید ہی کوئی موقعہ ایسا آیا ہو کہ آنحضورﷺ کا نام آئے اور آپکی آنکھوں سے آنسو رواں نہ ہوں۔… حضرت مسیح موعودؑ سے بھی عشق تھا۔ بچپن میں اپنی والدہ محترمہ سے کہا کرتیںکہ آپکے پھوپھا حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ ہیں اور میرے پھوپھا حضرت مسیح موعودؑ ہیں۔ گویا حضرت اقدسؑ سے محبت اور تعلق جتلانے کا یہ ایک نیا انداز تھا۔
٭ مکرمہ سیدہ نسیم سعید صاحبہ رقمطراز ہیں کہ محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ شادی شدہ عورتوں کے لئے بھی نمونہ تھیں۔ آپ بہت صابر و شاکر اور فرمانبردار بیوی تھیں۔ دورے پر جاتیں لیکن پوری کوشش ہوتی کہ مغرب تک گھر واپس پہنچ جائیں کیونکہ ان کے میاں کو یہ پسند نہیں تھا کہ دیر سے واپس آئیں اور وہ قطعاً نہیں کہتی تھیں کہ اگر دیر بھی ہوگئی تو کیا ہے لجنہ کے دورے پر ہی گئی تھی۔ … آپ ان کے لئے بھی نمونہ ہیںجو خدمت دین کے وقت گھریلو مصروفیات کے عذر تراشتی ہیں۔
٭ حضور امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ کی وفات پر آپ کے بیٹے کے نام اپنے مکتوب میں فرمایا: ’’آپا بشریٰ اپنے بزرگ والدین کے رنگ میں رنگین تھیں۔ حدیث سے خاص شغف تھا اور دعاؤں سے کام لینے کی عادی تھیں۔ الحمدللہ کہ خدا نے انہیں بہشتی مقبرہ میں بھی خاص جگہ عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے …‘‘۔
٭ محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ کی یاد میں مکرمہ امۃالباری ناصر صاحبہ کی نظم میں سے دو بند ملاحظہ فرمائیں:

آپ کی ذات تھی تحریک، تموج، طوفاں
آپ کو زندگی کرنے کا ہنر آتا تھا
خوبصورت تھا بہت خدمت دیں کا انداز
آپ کے پاس جو آتا تھا سنور جاتا تھا
خوش دلی اور بشاشت تھے تمہارے اوصاف
سادگی اور نفاست سے پیارے اوصاف
آپ کی ذات ہر اک رخ سے حسیں تھی بے حد
بے تکاں جود و عنایت سے تمہارے اوصاف
50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں