محترمہ سرور سلطانہ صاحبہ اہلیہ مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9مارچ 2011ء میں مکرمہ شوکت گوہر صاحبہ کے قلم سے اُن کی والدہ محترمہ سرور سلطانہ صاحبہ اہلیہ محترم مولانا عبدالمالک خان صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
محترمہ سرور سلطانہ صاحبہ کے والد محترم محمد یاسین خان صاحب انتہائی شریف النفس اور نیک انسان تھے۔ فیروزپور میں بیکری کا کاروبار کرتے تھے اور اس کے علاوہ ڈیرہ دون میں آپ کا مَیس بھی تھا۔ آپ کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ ایک احمدی نے آپ کا یہ شوق دیکھ کر حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ اور ’کشتیٔ نوح‘ آپ کے سرہانے رکھ دی۔ ان کا مطالعہ کیا تو حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کرلی اور پھر تبلیغ کرکے سارے خاندان کو احمدی کرلیا۔ مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ اپنے ایک بیٹے محمد یامین صاحب کو قادیان لے جا کر جامعہ میں داخل کروایا لیکن وہ طالب علمی کے دوران ہی وفات پاگئے۔
ایسے نیک باپ کی اولاد محترمہ سرور سلطانہ صاحبہ خود بھی انتہائی شفیق، نیک اور خدا ترس خاتون تھیں۔ اکثر خداتعالیٰ کے ذکر میں محو رہتیں۔ ایک واقف زندگی کا رشتہ شادی کے لئے منتخب کیا۔ محترم مولانا عبدالمالک خان صاحب اس وقت جامعہ سے فارغ ہی ہوئے تھے اور لکھنؤ میں متعیّن تھے۔ تنگدستی کا زمانہ تھا۔ شادی کے بعد میاں بیوی نے مشکل حالات میں بھی گزارہ کیا اور کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔ اپنے شوہر کے وقف کے تقاضوں کو نبھانے کے لئے ہر پہلو سے ہمیشہ ساتھ دیا۔
محترمہ سرور سلطانہ صاحبہ کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ مڈل تک سکول جا کر تعلیم حاصل کی پھرکسی وجہ سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کرسکیں لیکن مطالعہ بہت کیا۔ شادی کے بعد تو علم بہت وسیع ہوگیا۔ بچوں کے دلوں میں بھی علم حاصل کرنے کا شوق پیدا کیا۔ بچوں کی دینی تعلیم کا بھی بہت فکر ہوتا تھا۔ تمام بچوں کو خود قرآن کریم پڑھایا۔ بار بار دہرائی کرواتیں۔ ذیلی تنظیموں کے نصاب کی کتابیں پڑھاکر سمجھاتیں۔ آپس میں دینی مقابلے کرواتیں اور انعام دیتیں۔ ہم سب بہن بھائیوں کو ہر وقت یہی سمجھاتیں کہ دین کودنیا پر مقدّم رکھنا ہے۔ ہمارے ہاتھ سے چندے دلواتیں۔ امتحان میں کامیابی پر ہم سے دو نفل شکرانے کے ادا کرواتیں۔ اکلوتے بیٹے سے کبھی بے جا لاڈ پیار نہ کیا۔ اس کی ہر جائز بات مانتیں اور ہر غلط بات پر سرزنش کر تیں۔
ہر مشکل میں خدا کا دامن تھامتیں اور اُسی سے مدد مانگتیں۔ جب بھی مشکل مواقع آئے بچوں کے ساتھ اجتماعی دعا کرتیں نفل ادا کرتیں اور خدا پر بھروسہ کرتیں۔ خدا تعالیٰ بھی آپ کا کام کردیتا۔ مثلاً ایک دفعہ آپ کے پاس کوئی پیسہ نہ تھا کہ سبزی بھی منگوائی جا سکتی۔ اسی دوران کسی مہمان کے آنے کی بھی اطلاع آگئی۔ بہت پریشان ہوئیں اور دعا میں لگ گئیں۔ خدا نے ایسا فضل فرمایا کہ تھوڑی دیر بعد کسی نے دروازہ پر دستک دی اور بیس روپے دے کر کہنے لگا کہ ایک سال پہلے میں نے مولوی صاحب سے ادھار لئے تھے پھر میں کہیں چلا گیا تھا اب آیا ہوں تو یہ ادھار واپس کر رہا ہوں۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں۔
آپ نے بچوں میں عزتِ نفس پیدا کرنے کی کوشش بھی کی۔ ایک معمولی سا واقعہ ہے کہ اس زمانہ میں ہمارے گھر میں فریج نہیں ہوتا تھا ۔ ہمارے گھر کے اوپر جو فیملی رہتی تھی وہ مالی وسعت رکھتے تھے۔ایک دن اُن کی امی نے ہم سے کہا کہ تم لوگوں کو برف کی ضرورت ہوتو ہم سے لے جا یا کرو اور ساتھ ہی انہوں نے ہمیں بہت سی برف دے دی۔ مَیں اور میرا بھائی برف لے کر بہت خوش ہوئے اور دوڑتے ہوئے گھر آئے اور امی کو لا کر دی اور سب حال سنایا۔ امی بہت ناراض ہوئیں۔ کہنے لگیں تم فقیر ہو جو لوگوں سے برف مانگتے ہو اور یہ کہہ کر ساری برف پھینک دی اور کہا کہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا بہت بُری بات ہے۔ مانگنا ہے تو خدا سے مانگو۔ پھر آٹھ آنے دئے کہ جاؤ بازار سے برف خرید کر لاؤ۔ اس وقت تو ہمیں سمجھ نہ آئی تھی، آج اندازہ ہوتا ہے کہ بچپن سے عزت نفس پیدا کردی۔
مہمان نوازی کا خلق آپ میں حد سے زیادہ تھا۔ ہر مہمان کی، واقف ہو یا اجنبی، خاطر داری کرتیں۔ اکثر اس کے لئے مشقّت بھی برداشت کرتیں۔ مہمان بھی بہت آتے تھے لیکن کبھی نہ تھکتیں نہ تنگ آتیں بلکہ خوشدلی سے ان کے آگے کچھ نہ کچھ پیش کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ مہمان نوازی تو صفت انبیاء ہے۔
اسی طرح جذبہ خدمت خلق آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ کبھی کسی کو تکلیف میں دیکھ لیتیںیا کسی کا دکھ سن لیتیں اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتیں جب تک اس کی مدد نہ کرلیتیں۔ لمبا عرصہ ان کا معمول تھا کہ مہینہ میں ایک دفعہ اپنے ہاتھ سے بہت سارا کھانا پکاتیں اور غرباء کی بستی میں تقسیم کروادیتیں۔ اسی طرح کبھی کسی مستحق کو کپڑے سی کر دے دیتیں۔ایک دفعہ پڑوس کی ایک غریب بچی کے پاس عید پر پہننے کے نئے کپڑے نہ تھے۔ مالی تنگی کے باوجود آپ اس کے لئے بازار سے کپڑا لائیں اور اس کا جوڑا سی کر ساتھ چوڑیاں لگا کر اس کو دیا۔ بیماروں کی عیادت کرتیں۔ کبھی کبھی ان کے لئے کچھ پکا کر پرہیزی کھانا بھجواتیں۔
آپ میں صبر کا مادہ بہت تھا۔ کراچی میں ایک پڑوسی تعصّب کی بِنا پر بہت تکلیف دیتے تھے۔ گھر میں گند پھینک دیتے۔ آپ خاموشی سے صاف کردیتیں۔ کوئی جھگڑا نہ کرتیں۔ وہ بچوں کو بھی آتے جاتے تنگ کرتے۔ ان پر ایک دفعہ آزمائش کا وقت آگیا۔ جوان بیٹا جل گیا، خاوند کو فالج ہوگیا۔ بیٹی کو مجبوراً کسی بوڑھے سے بیاہنا پڑا۔ ایسے میں امی اُن کی تمام مخالفت اور ایذارسانی بھول کر ان کی ہمدردی کو گئیں۔ کھانا پکا کر بھیجا۔ وہ عورت حیران ہوئی کہ جس کے ساتھ بدسلوکی کرتی تھی آج وہی میرا خیال رکھ رہی ہے۔
آپ کا ایک بیٹا ڈیڑھ سال کی عمر میں پلنگ سے گِر کر فوت ہوگیا ۔ اسی طرح ایک بیٹی جو ہندوستان میں بیاہی تھیں وفات پاگئیں۔ ملکی قیود کی وجہ سے جا بھی نہ سکتی تھیں۔ بہت صدمہ تھا لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور دوسرے بچوں کو بھی صبر کی تلقین کی۔ پھر پیار کرنے والا شوہر آن واحد میں ایک حادثہ میں جدا ہوگیا لیکن آپ نے بہت حوصلہ سے یہ دکھ برداشت کیا اور فرمایا میں حضرت اماں جانؓ کے الفاظ میں یہی کہوں گی کہ خدا ہمیں نہ چھوڑے۔
آپ بہت بہادر تھیں۔ شوہر دورہ پر جاتے تو آپ چھوٹے بچوں کے ساتھ بہادری سے رہتیں اور سارے کام انجام دیتیں۔ 1953ء میں کراچی میں احمدیوں کے لئے مشکل حالات آئے۔ ایک دن جب آپ بچوں کے ساتھ گھر میں تھیں کہ مخالفین کا ایک گروہ گھر کو آگ لگانے آگیا۔ آپ نے ہمت سے اپنی دانست میں آگ سے بچاؤ کے جو طریق ہوسکتے تھے اختیار کئے، بچوں کو محفوظ جگہ پر چھپا دیا اور خود جائے نماز بچھا کر اس خطرہ کے ٹلنے کی دعا کرتی رہیں۔ خدا تعالیٰ نے ایسا کرم کیا کہ پڑوسیوں کا ملازم شور سن کر باہر آیا اور مخالفین کو روکنے کے لئے دھمکانے لگا ۔وہ لوگ کچھ گھبراکر فرار ہوگئے اور خدا نے ہم سب کو محفوظ رکھا۔
آپ انتہائی سلیقہ مند خاتون تھیں کبھی حرص یا طمع کا شائبہ بھی ان میں نہیں دیکھا ۔ بہت قناعت پسند تھیں۔ جو ملتا وہ کھالیتیں، جو میسر آتا وہ لباس پہن لیتیں۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو جوڑ کر بچوں کے لئے ایسے جاذب نظر لباس بناتیں جو کسی طرح بازار کے ریڈی میڈ کپڑوں سے کم نہ ہوتے۔ اسی طرح پرانے کپڑوں کو کَتر بیونت کرکے گھر کی بہت سی کار آمد چیزیں بنالیتیں۔ کھانا بہت اچھا بناتیں۔ بہت صفائی پسند تھیں۔
آپ خدا سے محبت کرتیں اور اُس کی اطاعت کی ہر ممکن کوشش کرتیں۔نمازوں کی پابند، تلاوت قرآن کثرت سے کرتیں۔ تہجد گزاراور نوافل کا اہتمام کرنے والی۔ ان کو دعاؤں کی بہت عادت تھی۔ کام کرتے وقت بھی دعا کرتی رہتیں اور آنکھوں سے آنسو گرتے رہتے۔ خلافت سے بہت محبت تھی۔ خلیفۂ وقت کی ہر تحریک پر فوراً لبیک کہتے ہوئے حسب توفیق حصہ لیتیں۔ دین کے کام کرنے کا بہت جذبہ تھا۔ کراچی میں نگران ناصرات اور پھر اپنے حلقہ کی صدر رہیں۔ جب ربوہ آئیں تو بھی محلہ کی صدر لجنہ کے طور پر کام کیا۔ بہت لگن سے کام کرتیں۔ اپنی خوش اخلاقی سے ہر دلعزیز تھیں۔ محبت و پیار سے کام لیتیں۔ کبھی آپ کے کام کی تعریف ہوتی تو عاجزی سے یہی کہتیں:

یہ سراسر فضل و احساں ہے کہ میں آیا پسند
ورنہ درگاہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار

اپنے بیٹے کے پاس لاس اینجلس امریکہ گئیں تو وہاں لجنہ قائم کردی۔ انتخاب کروایا اور ان کو کام کرنے کے طریقے سمجھائے۔ محلہ میں بچوں کو قرآن کریم پڑھنے پڑھانے پر بہت زور دیتیں اور ہر سال ایک تقریبِ آمین کرواتیں۔ محلہ میں اگر خدانخواستہ کوئی وفات ہوجاتی تو محلہ کی طرف سے تعزیتی کھانا بھی پکاکر لواحقین کو بھجواتیں۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی طرف سے صدریاں سینے کا ارشاد لجنہ کو ہوا تو آپ نے محلہ کی تمام عورتوں کو اپنے گھر میں بلاکر صدریاں تیار کروائیں۔ یوں لگتا تھا کہ ایک چھوٹی سی فیکٹری ہے جہاں دن رات کام ہورہا ہے۔
کراچی میں آپ کی رہائش کے دوران کئی رشتہ دار کام یا تعلیم کی غرض سے کراچی آکر مہینوں اور سالوں آپ کے ہاں رہتے۔ آپ خوشدلی سے ہر ایک کے لئے گھر کے دروازے کھلے رکھتیں۔
آپ کو اپنے سسر حضرت مولا نا ذوالفقار علی خان صاحبؓ گوہر کی کئی نظمیں زبانی یاد تھیں اور اکثر ترنم سے پڑھتیں۔ خاص طور پر یہ شعر پڑھتیں تو روتی بھی تھیں:

کھڑے ہوں روز محشر راست بازوں کی قطاروں میں
ہمارے نام بھی شامل ہوں تیرے جاں نثاروں میں

آخری چند سالوں میں صحت کمزور ہوگئی تھی۔ مختلف عوارض تھے۔ ہر ممکن علاج کیا گیا لیکن آخر تقدیر الٰہی غالب آئی اور22 جون 2010ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں