محترمہ حلیمہ بیگم صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍جولائی 2005ء میں مکرمہ صفیہ بشیر سامی صاحبہ اپنی والدہ محترمہ حلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ محمد حسن صاحب مرحوم کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ آپ حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ ہرسیاں والے کے گھر میں پیدا ہوئیں۔ میرے والد کا تعلق لدھیانہ سے تھا۔ میرے دادا اور تایا تو احمدی تھے مگر والد نے ابھی بیعت نہیں کی تھی اور وہ احرار کے پرجوش مہرے تھے۔ اِن کی والدہ بچپن میں وفات پا چکی تھیں، کوئی روکنے والا بھی نہیں تھا اور ڈرتے بھی کسی سے نہیں تھے۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ ایک بار جب مَیں جیل سے واپس آیا تو ایک بزرگ نے مجھے سمجھایا اور حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت سے متعلق اپنی ایک خواب بھی سنائی۔ چنانچہ مَیں اگلے جلسہ سالانہ پر اپنے تایازاد بھائی کے ساتھ قادیان چلاگیا۔ وہاں کی دنیا اور میری دنیا میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ دل نے گواہی دی یہی سچ ہے چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت پائی۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ والد صاحب احمدی ہوئے تو رشتہ کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ چچا کی بیٹی سے منگنی ہو چکی تھی لیکن احمدی لڑکا اُن کو پسند نہیں تھا۔ انہوں نے بہت زور لگایا کہ جب تک نکاح نہیں ہو تا کہہ دو کہ میں احمدی نہیں ہوں۔ شادی کے بعد جو مرضی ہو کرنا۔ لیکن آپ نے کہہ دیا کہ دین کا معاملہ ہے۔ آپ اپنی بیٹی کی شادی کہیں اَور کرلیں۔ اس کے بعد آپ کا رشتہ ہماری والدہ سے طے پایا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نکاح کا اعلان فرمایا۔
میرے والد کا خاندان نہ صرف احمدی نہیں تھا بلکہ تعلیم سے بھی نابلد تھا۔ جبکہ وا لدہ پرائمری پاس تھیں اور صحابی کی بیٹی اور مربیان کی بہن تھیں۔ اِن کا حسن سلوک دیکھ کر سب اِن کی تعریف کرتے تھے۔ پہلے گھر میں احمدیت کی مخالفت ہوتی تھی جو اِن کی خدمت اور قربانی کے جذبہ کو دیکھ کر آہستہ آہستہ ختم گئی۔ بلکہ سب نے قادیان کی زیارت بھی کرلی۔
والدہ بہت بہادر اور زیرک تھیں۔ تقسیم ہند کے وقت جب فسادات شروع ہوئے تو میرے والد صاحب کسی دوسرے شہر میں تھے اور گھر میں امّی کے ساتھ ہم چار بہنیں ہی تھیں۔ امی ہمیں سلاکر خود سر پر پگڑی پہنے ہاتھ میں موٹا سا ڈنڈا لئے، پوری رات چھت پر ہماری نگرانی کرتے گزار دیتی تھیں۔
پاکستان بن گیا توکچھ عرصہ بعد ہم فیصل آباد آگئے۔ انہی دنوں فرقان فورس کے لئے میرے والد صاحب کا نام تجویز ہوا تو انہیں صرف اس لئے حجاب تھا کہ بچیاں چھوٹی تھیں اور میری والدہ بھی امید سے تھیں۔ لیکن میری والدہ نے انہیں کہا کہ وہ ضرور جائیں اور میری فکر نہ کریں۔ دنیا میں بے شمار ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں جو جنگلوں میں بچوں کو جنم دیتی ہیں، آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ چنانچہ والد صاحب چلے گئے اور اُن کے بعد اللہ تعالیٰ نے بھائی (محمد اسلم خالد کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری لندن) عطا فرمایا۔
تین مہینے بعد والد صاحب واپس آئے تو بہت مالی مشکلات تھیں چنانچہ وہ اپنے بھائیوں کے پاس مشرقی افریقہ چلے گئے۔ پھر ہم سب ربوہ آگئے جو اُس وقت بیابان جگہ تھی۔ کچے مکان میں رہائش تھی جس کی چھت ہر بارش کے بعد ٹپکنے لگتی۔ کچھ عرصہ بعد والد نے پیسے بھجوائے تو میری والدہ نے دارالبرکات میں زمین خریدی اور بہت مشقّت برداشت کرکے وہاں ایک مکان بنالیا۔ لیکن پانی وہاں بے حد نمکین تھا چنانچہ روزانہ رات کو اپنی امّی کے ساتھ ہم محلہ دارالرحمت سے پانی کے مٹکے سروں پر اٹھاکر لاتے۔ امی کے ہاتھ میں کتوں کو ڈرانے کیلئے ایک موٹا ڈنڈا بھی ہوتا۔ رات کو بھی چوروں سے ڈر لگا رہتا۔ امّی رات کو گھر میں پہرہ دیتیں، ان دنوں سانپ اور بچھو وغیرہ بہت نکلتے تھے۔ بچھو تو معمولی بات تھی، سانپ کو بھی بے دھڑک ماردیتیں۔
آپ بہت ہمدرد تھیں۔ کسی ضرورتمند کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتیں۔ رمضان میں ہمیشہ دو لوگوں کو روزے رکھواتیں۔ سحری کے بعد نماز فجر کے لئے ہمیں مسجد مبارک لے کر جاتیں اور وہاں سے بہشتی مقبرہ دعا کرکے واپس گھر آتے۔ پھر ظہر کے بعد مسجد مبارک میں درس کے لئے جاتے اور افطاری شام کو گھر سے کرکے پھر تراویح بھی مسجد مبارک میں ادا کی جاتیں۔
قرآن مجید کی عاشق تھیں۔ بے شمار بچوں کو قرآن پڑھنا سکھایا۔ بلکہ اپنے شوہر کو بھی قرآن کریم آپ ہی نے پڑھایا۔ بیمار کی عیادت فرض سمجھتیں تھیں۔ کبھی کسی کو قرض دیا تو اس سے تقاضا نہیں کیا۔ ہر ایک کی مدد کرنے پر ہمیشہ آمادہ نظر آتیں۔ اباجان 1970ء میں لندن آگئے تو امی 1974ء میں یہاں آگئیں۔
دینی کاموں میں امی نے ہمیشہ حصہ لیا۔ وصیت 1/3کی تھی۔ پردہ کی اتنی پابند تھیں کہ آخری دم تک برقعہ ہی پہنا۔ طبیعت کی سادہ، ہر قسم کے تکلفات سے پاک تھیں۔ کوشش کرتیں کہ ان کے ہاتھ یا زبان سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اباجان کی جلسوں پر لنگرخانہ میں ڈیوٹی ہوتی تھی اور وہ قریباً ایک ماہ پہلے ہی کام کیلئے اسلام آباد چلے جاتے تھے۔ امی اُن کیلئے جو چیز بھیجتیں تو اُن کے ساتھیوں کا حصہ بھی ضرور ڈالتیں۔
آپ نے تقریباً 84سال کی عمر پائی۔ 1998ء میں اپنی بیٹی کی وفات کا غم راضی برضا رہتے ہوئے برداشت کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں