محترمہ بی بی غلام سکینہ صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7 جون 2010ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرم ناصر احمد ظفر صاحب بلوچ نے اپنی تایازاد ہمشیرہ محترمہ بی بی غلام سکینہ صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے۔

مکرم ناصر احمد ظفر صاحب

بلوچوں کی بستی مندرانی میں احمدیت کی آمد کی تاریخ یوں ہے کہ محترم محمد شاہ صاحب ولد مکرم محمود شاہ صاحب سکنہ بستی مندرانی کو اپنے پیر میاں رانجھا کی یہ وصیت تھی کہ میں مرجاؤں گا لیکن میرے مرنے کے بعد امام مہدی تشریف لائیں گے، آپ جہاں بھی ہوں لبّیک کہتے ہوئے جا کر بیعت کرلیں۔ چنانچہ محترم محمد شاہ صاحب کو جب حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کی اطلاع ملی تو آپ پیدل ریت کے ٹیلوں اور پتھریلے دشوار گزار راستوں سے گزر کر اور کہیں اونٹ کی سواری کرکے حضرت اقدسؑ کے دربار میں پہنچے اور شرف بیعت پایا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کے ایک خط کے جواب میں اپنے دست مبارک سے یکم اپریل 1903ء کو تحریر فرمایا:
’’انسان جب سچے دل سے خدا کا ہو کر اس کی راہ اختیار کرتا ہے تو خود اللہ تعالیٰ اس کو ہر یک بلا سے بچاتا ہے اور کوئی شریر اپنی شرارت سے اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ کیونکہ اس کے ساتھ خدا ہوتا ہے۔ سو چاہئے کہ ہمیشہ خداتعالیٰ کو یاد رکھو اور اس کی پناہ ڈھونڈو اور نیکی اور راست بازی میں ترقی کرو اور اجازت ہے کہ اپنے گھر چلے جاؤ اور اس راہ کو جو سکھلایا گیا ہے فراموش مت کرو کہ زندگی دنیا کی ناپائیدار اور موت درپیش ہے اور میں انشاء اللہ دعا کروں گا‘‘۔
حضرت محمد شاہ صاحبؓ کو قادیان اور کشمیر میں دعوت الی اللہ کی توفیق ملی۔ آپؓ نظام وصیت میں بھی شامل تھے۔ آپ کی وفات 65 سال کی عمر میں 18 مارچ 1920ء کو کشمیر میں ہوئی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں یادگاری کتبہ نصب کیا گیا۔
محترمہ بی بی غلام سکینہ صاحبہ یکم جنوری 1926ء کو کوہ سلیمان کے دامن میں واقع بستی مندرانی میں محترم سردار غلام محمد خان صاحب ولد حضرت حافظ فتح محمد خان صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد اپنے علاقہ میں بچوں بچیوں کو قرآن پاک پڑھانے اور حاذق طبیب ہونے کے باعث عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ آپ کے دادا جب قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو اپنی اس معصوم پوتی کو اپنی گود میں لے لیتے اور آپ اپنے دادا کی گود میں اُن کی غیرمعمولی حسن قراء ت کو ہمہ تن گوش ہو کر سنتی رہتیں۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ میری اس پوتی کو قرآن پاک سے بے انتہا عشق ہوگا۔ اُن کا یہ فرمان بعد میں من و عن پورا ہوا۔
محترمہ غلام سکینہ صاحبہ نے 1947ء سے قبل ڈیرہ غازی خان سے JVT کا کورس مکمل کیا۔ بستی مندرانی سے ڈیرہ غازی خان شہر تقریباً 80 کلومیٹر تھا جبکہ سواری صرف اونٹ کی میسر تھی جو یہ فاصلہ دو روز میں طے کرتی۔ سفر کی درمیانی رات آپ راستہ کے ایک گاؤں میں ایک عزیز کے گھر میں پڑاؤ کرتیں۔ آپ کی شادی 1940ء میں اپنے ماموں کے اکلوتے بیٹے مکرم نور محمد خان صاحب بزدار ولد فتح محمد خان صاحب سے ہوئی۔ آپ بھی استاد تھے۔
آپ بطور معلمہ جس سکول میں تعینات ہوتیں ہمدرد استاد کی حیثیت سے اس گاؤں میں غیرمعمولی نیک اثرات اور یادیں چھوڑ آتیں۔ دونوں میاں بیوی کی سب سے بڑی خوبی بچوں کے نصابی کورس کی تکمیل کے علاوہ انہیں قرآن پاک پڑھانا تھا۔ علاوہ ازیں طالبات اور دیگر خواتین کو طبّ کے ذریعہ بھی فیضیاب کرتیں۔ حسب ضرورت دواؤں کے ساتھ مستحقین کے مفت علاج اور ہمدردی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتیں۔ ہر دو بے پناہ عزت سے دیکھے جاتے اور ہر دو کو کبھی کسی تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ گاؤں بزدار کی آبادی تقریباً 25 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کے تمام رہائشی اس احمدی میاں بیوی کے شاگرد ہیں۔ اور جملہ غیرازجماعت خواتین کو محترمہ غلام بی بی صاحبہ نے قرآن پڑھانے کی سعادت پائی جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
محترمہ غلام بی بی صاحبہ اپنی بزرگی اور تقویٰ کے ساتھ اطاعت نظام کی خوگر تھیںاور خلافت سے والہانہ عقیدت رکھتی تھیں۔ سب کی خیرخواہ، ہمدرد اور دعاگو خاتون تھیں۔
1965ء میں آپ کے شوہر اچانک وفات پاگئے۔ یہ صدمہ جہاں شوہر کے ضعیف و نحیف والدین کے لئے ناقابل برداشت تھا وہاں آپ کے لئے دوہرے صدمہ کے مترادف تھا۔ بیک وقت بزرگ سسرال کی خدمت کے علاوہ معصوم اولاد کی تعلیم و تربیت کی بھاری ذمہ داریاں بھی کندھوں پر آن پڑیں۔ سب سے چھوٹا بچہ 6 ماہ کا تھا اور بڑا بیٹا ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھا۔ تاہم آپ نے صبر اور شکر کا مثالی عملی نمونہ پیش کیا اور لمبا عرصہ دن کو اپنی سکول کی ڈیوٹی اور رات کو اپنے بزرگوں کی خدمت میں گزار دیا۔ اس باہمت ماں کی مامتا نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں بھی کمی نہ آنے دی۔ نگرانی کے ساتھ ساتھ خلیفۂ وقت کی خدمت میں دعائیہ خطوط لکھتیں۔
جب آپ کے بڑے بیٹے اعلیٰ تعلیم کے بعد بطور ٹیچر تعینات ہوئے تو آپ نے اُن کو نصیحت کی کہ استاد اگر فرشتہ نہیں تو فرشتہ سیرت ضرور ہونا چاہئے۔ تم اپنے فرائض منصبی اسی اصول کو پیش نظر رکھ کر ادا کروگے تو تمہیں کبھی مشکل پیش نہیں آئے گی اور اللہ تعالیٰ رزق میں بھی برکت ڈالتا رہے گا۔ پھر بتایا کہ آپ نے ہمیشہ اپنے بچوں کو باوضو ہو کر دودھ پلایا ہے۔
آپ کوحسب توفیق مالی قربانی کی سعادت بھی ملتی رہی۔ بستی مندرانی کی آپ پہلی خاتون تھیں جو نظام وصیت میں شامل ہوئی۔ اس کے علاوہ دیگر چندوں، صدقات و خیرات کی توفیق بھی پاتی رہیں۔
14 نومبر 2009ء کو آپ نے تقریباً 86 سال کی عمر میں وفات پائی۔ جنازہ ربوہ لایا گیا جہاں بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں