محترمہ بشریٰ صدیقہ صاحبہ

روزنامہ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍اکتوبر 2009ء میں مکرم اللہ بخش صاحب نے اپنے ایک مضمون میں اپنی اہلیہ محترمہ بشریٰ صدیقہ صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترمہ بشریٰ صدیقہ صاحبہ سجاول والا (تحصیل چنیوٹ) میں مکرم نذر محمد صاحب کے ہاں قریباً 1950ء میں پیدا ہوئیں۔ آپ اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھیں۔ بچپن میں ہی والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ مشکل اور تنگی میں والدہ اور بھائی بہنوں کے ساتھ وقت گزارا۔ سکول کی تعلیم تو حاصل نہ کی لیکن قرآن مجید ناظرہ پڑھا ہوا تھا۔
ہم دونوں آپس میں خالہ زاد تھے، یہ رشتہ 1967ء میں ازدواجی رشتہ میں منتقل ہو گیا۔ اپنے سارے خاندان میں مَیں اکیلا احمدی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے دوران تعلیم ربوہ آنے کے ایک سال بعد 1961ء میں بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ شادی کے کچھ دنوں کے بعد میری اہلیہ کو بھی بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ بیعت فارم لے کر ہم حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے اور بیعت کی منظوری اور تبدیلی نام کی درخواست کی۔ اس پر حضور انور نے ازراہ شفقت اپنے دست مبارک سے بیعت فارم پر پہلے ’’بخت بی بی‘‘ اور پھر نیا نام ’’بشریٰ صدیقہ‘‘ تحریر فرمایا۔
شادی کے پانچ سال بعد تک ہمارے ہاں اولاد نہ ہوئی تو ہمارے غیر احمدی رشتہ داروں نے کہنا شروع کر دیا کہ احمدی ہونے کی وجہ سے اولاد نہیں ہورہی۔ ہم حضورؒ کی خدمت میں مسلسل دعا کی درخواست کرتے رہے۔ ایک دفعہ ملاقات کے دورا ن اپنے مالی حالات اور اولاد کے لئے دعا کی درخواست کی اور رشتہ داروں کی باتوں کا بھی ذکر کیا تو حضورؒ نے فرمایا: کیا سب غیر از جماعت کی اولاد ہوتی ہے اور سب احمدیوں کی نہیں ہوتی؟ پھر فرمایا: خرچ پر کنٹرول کریں، اللہ تعالیٰ اولاد بھی ضرور دے گا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے تین بیٹیوں اور تین بیٹوں سے نوازا اور ایک بھتیجی کی پرورش کی بھی توفیق ملی۔
میری اہلیہ ناخواندہ تھیں اس کے باوجود میرے آرام اور خدمت، بچوں کی صحت، تعلیم و تربیت اور گھر کے کام اور صفائی کا خاص خیال رکھا کرتی تھیں۔ میری محدود آمد کے پیش نظر کپڑوں پر کڑھائی کے کام کے ذریعہ کچھ آمد پیدا کرکے بچوں کی تعلیم اور گھر کے اخراجات میں میری مدد گار اور معاون رہیں۔
میری والدہ اور پھر بھاوجہ کی وفات کے بعد میرے والد صاحب، بھائی اور ان کے چھوٹے بچوں کی خدمت کا موقع بھی ملا اور ان بچوں کو بھی والدہ جیسی محبت اور پیار دیا۔ اور میرے بھائی کی ایک بچی جس کی عمر اس کی والدہ کی وفات کے وقت صرف تین ماہ تھی، اُس کی پرورش اپنے ذمہ لی اور اس کی ضروریات اور تعلیم و تربیت کا اپنے حقیقی بچوں جیسا خیال رکھا۔
1991ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کا پتہ چلا تو ہم بھی قادیان جانے کے لئے تیار ہوئے۔ تین چھوٹے بچے تھے اور مالی حالت کی وجہ سے سفر کے لئے زاد راہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ لیکن ہماری انتہائی خواہش تھی کہ بچوں کو بھی ضرور قادیان لے جائیں۔ اس جلسہ پر جانے والے کارکنان کوحضور انور کی طرف سے ملنے والے تحفہ ایک ہزار روپیہ نے ہمارا حوصلہ بلند کیا۔ جستی ٹرنک میں پانچ کس کے پہننے کے کپڑے اور دو بستر باندھ کر قافلہ کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ اس سفر میں اہلیہ نے صحت کی کمزوری کے باوجود قادیان جانے کی خوشی میں بڑی ہمت سے میرا ساتھ دیا۔ خاص طورپر ریلوے سٹیشن لاہور، اٹاری اور قادیان میں سامان اٹھانے اور بچوں کو سنبھالنے میں میری بھرپور مدد کی۔
خاکسار کو2000ء میں جلسہ سالانہ لندن اور جرمنی میں بطور نمائندہ شمولیت کی سعادت ملی۔ خاکسار کی لندن روانگی سے قبل مرحومہ الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں زیر علاج تھیں۔ روانگی کے دن بھی اُن کو بیٹی اور داماد کے ساتھ چیک اَپ کے لئے الائیڈ ہسپتال اتار ا، تو مجھے پریشان دیکھ کر مجھے کہا میں بالکل ٹھیک ہوں۔ لندن اور جرمنی سے بھی جب فون پر رابطہ ہوا تو بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ بڑے حوصلہ اور ہمت والی خاتون تھیں۔ ان کے تین آپریشنز ہوئے لیکن کوئی گھبراہٹ نہ تھی۔
خلفاء کی اطاعت کا بے پناہ جذبہ تھا۔ جونہی خلیفۃ المسیح کی طرف سے کوئی تحریک ہوتی تو فوراً اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے سویابین کے استعمال کی تحریک فرمائی تو فوراً تعمیل شروع کردی۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایلومینیم کے برتنوں کے استعمال کو مضر صحت قرار دیا تو ایلومینیم کے سب برتن بازار میں فروخت کرکے سٹیل کے برتن خرید لئے اور اپنی بیٹیوں کو جہیز میں بھی ایسا کوئی برتن نہ دیا۔ بعض غیر از جماعت رشتہ داروں نے کہا کہ یہ برتن سستے داموں فروخت کرنے کی بجائے ہمیں دیدیتے۔ تو کہنے لگیں کہ جن برتنوں کو ہم نے خود استعمال میں نہیں لانا، وہ کسی رشتہ دار کو کیوں دیں۔
قرآن مجید کی تلاوت اور صوم و صلوٰۃ کی پابند اور دعاگو خاتون تھیں۔ نماز جمعہ کے علاوہ رمضان میں نماز تراویح ، نماز فجر اوردرس القرآن میں شامل ہونے کے لئے اکٹھے مسجد مبارک جانا ہمارا معمول تھا۔ مرحومہ خود بھی جماعتی چندے باقاعدگی سے ادا کرتیں اور اکثر صدقہ و خیرات کرتیں۔ ناخواندہ ہونے کے باوجود دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا ۔ احمدی ہونے کے بعد خاندان کی مخالفت کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ مجھے بھی کہتیں کہ خاص طور پر خاندان کے افراد میں تبلیغ کیا کریں۔ سفر میں بھی ہمسفر کے ساتھ احمدیت کے بارہ میں گفتگو شروع کر دیتیں۔
مرحومہ مہمان نوازی کے وصف سے بھی مزین تھیں ۔ چونکہ ہمارا تعلق گاؤں سے تھا۔ علاج وغیرہ کے لئے گاؤں سے آنے والوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ دعوت الی اللہ بھی کرتیں۔ مہمانوں کی بہت محبت اور احترام سے مہمان نوازی کرتیں اور ہر طرح ان کے آرام کا خیال رکھتیں۔ جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کے لئے تو گھر تک خالی کر دیا جاتا جبکہ ان مہمانوں سے کوئی رشتہ بھی نہ تھا۔ ایک کمرہ میں اپنی رہائش اور گھر کا سامان رکھ کر باقی گھر مہمانوں کے سپرد ہو جاتا۔ گھر کے صحن میں بھی خیمہ لگایا جاتا۔ جلسہ کے بعد صفائی بڑا مسئلہ ہوتا لیکن بڑی خوشی اور بشاشت کے ساتھ ہم دونوں مل کر گھر کی صفائی کرتے۔
مرحومہ نے بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھا۔ سب بچے وقف اولاد کی تحریک میں اور ایک بیٹا تحریک وقف نو میں شامل ہے۔ سب بچے نظام وصیت میں بھی شامل ہیں۔ مرحومہ کی زندگی میں دو بیٹیوں کی شادی ہوگئی تھی اور بڑے بیٹے کا رشتہ بھی کرچکی تھیں۔ ہماری اولاد میں سے بڑی بیٹی عزیزہ طاہرہ صدیقہ بیوت الحمد پرائمری سکول میں ٹیچر ہے، دوسری بیٹی عزیزہ حامدہ صدیقہ سٹاف نرس زبیدہ بانی ونگ فضل عمر ہسپتال ہے جبکہ دو بیٹے عزیزم ملک ناصر احمد اور عزیزم طاہر احمد ملک وکالت وقف نو تحریک جدید میں خدمت سلسلہ کی توفیق پا رہے ہیں۔ تیسرا بیٹا عزیزم مظفر احمد عارف واقف نو ابھی زیر تعلیم ہے۔
مرحومہ نے لمبے عرصہ تک اپنی بیماری کو بڑے صبر اور حوصلہ سے برداشت کیا۔ 3,2 دسمبر 2002ء کی رات کو 52سا ل کی عمر میں وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں