محبت کا ایک آنسو از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین ستمبر و اکتوبر2015ء)

آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ قیامت کے دن سات قسم کے آدمی عرش کے سایہ میں ہوں گے۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہوگا جس کے متعلق آنحضور ﷺ فرماتے ہیں کہ

رَجل ذِکْر اللہ خَالِیاً ففاضت عیناہُ

وہ شخص جس کی آنکھ اللہ کو تنہائی میں یاد کرتے ہوئے بھر آئے۔

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی ایک پُرکیف نظم اسی تنہائی کے آنسو کی تعریف میں لکھی گئی ہے جو تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے سابق طلباء کی برطانیہ میں‌قائم تنظیم کے ماہنامہ ’’المنار‘‘ جون 2011ء کے شمارہ میں شامل ہے۔

ملاحظہ فرمائیں:

ہزار علم و عمل سے ہے بالیقیں بہتر
وہ ایک اشکِ محبت جو آنکھ سے ٹپکا
خراجِ حُسن میں ہر جنس سے گراں مایہ
نُذورِ عشق میں کیا خوب گوہرِ یکتا
خلاصۂ ہمہ عالَم ہے قلب مومن کا
خلاصۂ دلِ مومن یہ اشک کا قطرہ
نہ اِنفعال، نہ حسرت، نہ خوف و غم باعث
وہ ایک اَور ہی منبع ہے جس سے یہ نکلا
نہ اس کے راز کو دو کے سوا کوئی جانے
نہ یہ کسی کو خبر کب بنا ، کہاں ڈھلکا
جو جھلکے آنکھ میں تو مست و بے خبر کردے
گرے تو لیویں ملائک اُسے لپک کے اُٹھا
نہیں زمانہ میں اس سا کوئی فصیح و بلیغ
جو دل کا حال ہو دلبر سے اس طرح کہتا
عرق ہے خونِ دلِ عاشقاں کا یہ آنسو
یہی ہے نارِ محبت سے جو کشید ہوا
یہ تحفہ وہ ہے جو خالص خدا کی خاطر ہے
نہیں ہے اس میں رِیا اور نفاق کا شعبہ
پناہِ تیزئے خورشیدِ روز محشر ہے
ملے گا اشک کی برکت سے عرش کا سایہ
جو ’عینِ جاریہ‘ درکار ہے اے زاہد خشک
وہ عینِ جاریہ اپنی بھی کچھ بہا کے دکھا
مَیں کیا سرشکِ محبت تیری کروں تعریف
کہ ذاتِ باری نے خود تجھ کو دوست فرمایا

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں