مجلس انصاراللہ برطانیہ کے 36ویں سالانہ اجتماع 2018ء کا انعقاد

سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی تشریف آوری اور اختتامی خطاب،
علمائے سلسلہ کی تربیتی تقاریر، اور معلوماتی پریزنٹیشنز، علمی اور ورزشی مقابلہ جات کا انعقاد،
معلوماتی و تبلیغی نمائشوں کا اہتمام۔ 2519؍ انصار سمیت کُل 3913 ؍افراد کی شمولیت۔

(محمود احمد ملک۔ ناظم رپورٹنگ سالانہ اجتماع)

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین ستمبر و اکتوبر 2018ء)
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم فروری 2019ء)

خداتعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ برطانیہ کے احمدیوں کو یہ سعادت حاصل ہے کہ خلفائے احمدیت کی براہ راست ہدایت، رہنمائی اور دعاؤں سے فیضیاب ہوتے ہوئے نظام جماعت اور اپنی اپنی ذیلی تنظیموں میں ترقی کی منازل طے کرتے چلے جارہے ہیں۔ ان ترقیات کی پیمائش کا ایک ذریعہ ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات بھی ہیں۔ امسال مجلس انصاراللہ برطانیہ کے 36ویں سالانہ اجتماع کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ ایک نئے مقام ’کنگزلے کنٹری مارکیٹ ہیمپشائر‘ (Kingsley Country Market, Hampshire) میں نہایت کامیابی کے ساتھ 28۔ 29 اور 30 ستمبر 2018ء کو منعقد ہوا۔ یہ مارکیٹ ’’حدیقۃالمہدی‘‘ سے محض چار کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے چنانچہ اس اجتماع میں شامل ہونے والوں کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اجتماع کے تینوں ایّام کے دوران اپنی دیگر مصروفیات مختصر کرکے حدیقۃالمہدی میں قیام فرمایا اور اس دوران نہ صرف تمام نمازیں پڑھانے کیلئے حضورانور ازراہ شفقت مقامِ اجتماع میں رونق افروز ہوتے رہے بلکہ 30؍ستمبر کو اجتماع کے اختتامی اجلاس میں رونق افروز ہوکر انصار کو نہایت قیمتی نصائح سے نوازا۔ حضورانور کا بلاشبہ یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اپنی انتہائی مصروفیات کے باوجود اپنے غلاموں کے لئے اپنی شفقت کا انتہائی محبت سے اظہار فرمایا۔

جَزَاھُمُ اللہ اَحْسَنَ الْجَزَاء۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حضورانور کی نصائح پر عمل کرنے اور حقیقی معنوں میں انصاراللہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی خطاب
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہد،تعوذ ،تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃالذّاریات کی یہ آیت تلاوت فرمائی:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ۔

اور مَیں نے جِنّ و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔
بعدازاں حضورانور نے فرمایا کہ گزشتہ ہفتے خدام الاحمدیہ کا اجتماع تھا جس کا theme صلوٰۃ تھا۔ بلکہ سارا سال ہی انہوں نے اس بات کے حصول کو اپنا ٹارگٹ مقرر کیاتھا۔ لیکن مَیں نے (اُ ن کے اجتماع کی) اپنی اختتامی تقریر میں خدام کو توجہ دلائی تھی کہ یہ صرف ایک سال کا ٹارگٹ نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کا مقصدِ حیات ہی یہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے۔ پس اس لحاظ سے میں آج انصار اللہ کو بھی اسی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ یہ زندگی کا ایک ایسا مقصد ہے جسے حاصل کئے بغیر کوئی مسلمان ہونے کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ لیکن بدقسمتی سے انصاراللہ کی عمر کے لوگوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اس اہم فریضے اور مقصدِ حیات کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور جو توجہ ہونی چاہئے تھی وہ توجہ اُن میں نہیں ہے۔ انصار اللہ کی عمر میں آکر تو خاص طور پر اس طرف توجہ ہونی چاہئے۔ جوانی میں اگر احساس نہ بھی پیدا ہو، گو کہ جوانی میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا احساس ایک احمدی میں پیدا ہونا چاہئے اور مؤمن کی یہ شان ہے، اور اگر یہ احساس پیدا نہیں ہوتا تو مومن کی شان کے خلاف ہے اور اسے ایمان سے باہر نکالتا ہے۔ لیکن بڑی عمر میں چالیس سال کی عمر کے بعد تو یہ احساس بہت بڑھ جانا چاہئے کہ ہر آنے والا دن ہماری عمر میں اضافہ نہیں کررہا بلکہ ہماری عمر کو کم کر رہا ہے۔ جو وقت اللہ تعالیٰ نے دیدیا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے استعمال کریں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے صَرف کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہماری زندگی کا مقصد بتایا ہے۔
گزشتہ اجتماع انصار اللہ، جس میں مَیں شامل ہوا تھا اُس، میں بھی مَیں نے انصار اللہ کو نمازوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔اکثر خطبات میں بھی مَیں اس طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں لیکن آپ لوگ چند دنوں میں ہی اس بات کو بھول جاتے ہیں اور وہ رونق مسجد کی نہیں رہتی جس کی ایک احمدی مسجد سے توقع کی جاتی ہے۔
حضورانور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیشمار جگہ نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے شروع میں ہی ہدایت پانے والے اور حقیقی مومنوں کے لئے

یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃ

کے الفاظ استعمال فرمائے یعنی نمازوں کو قائم کرنے والے۔ اگر ہم

یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃ

کے الفاظ کی لغات کے لحاظ سے کچھ وضاحت کریں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نماز کو باجماعت ادا کرنے والے۔ نماز کو اس کی شرائط کے مطابق اور وقت پر ادا کرنے والے۔ ایک دوسرے کو نماز کی تلقین کرنے والے تاکہ مسجدیں بارونق ہوں۔ نمازوں کی خواہش اور محبت دلوں میں پیدا کرنے والے۔ نمازوں کی ادائیگی میں باقاعدگی اور پابندی کرنے والے۔ نماز کی حفاظت کرنے والے۔ اپنی توجہ نماز کی طرف رکھنے والے۔ نماز پڑھتے ہوئے بعض دوسرے خیالات کی طرف توجہ ہوجاتی ہے تو انسان پھر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہوئے دعا کرتا ہے اور ان خیالات کو جھٹکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تا کہ نماز کی حفاظت ہو۔
حضورانور نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہدایت پانے والے مومنوں کو نمازوں کے قیام کی ہدایت فرمائی تو قیامِ نماز کا مقصد یہ ہے کہ نہ صرف اپنی نمازوں کی پابندی اور حفاظت کرنی ہے، خود مسجدوں کو آباد کرنا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی مسجد میں لانے کی کوشش کرنی ہے اور آپس میں مل جل کر ایک دوسرے میں ایسی روح پھونکنی ہے جس سے نمازوں کی طرف توجہ بڑھے اور مؤمنوں کی وہ جماعت قائم ہو جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ مؤمن کی معراج نماز ہے۔ پس انصار اللہ کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس بات کی اہمیت کو سمجھیں۔ اقامت الصلوٰۃ کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ اپنے بچوںکو اپنے گھر والوں کو نمازوں کی طرف توجہ دلائیں۔ اگر انصار اللہ کی عمر کے لوگوں میں سے جو اپنی متعلقہ مجالس کے عہدیدار بھی ہیں اگر وہ خود اس طرف توجہ کریں کہ انہوں نے قیام نماز کا حق ادا کرنا ہے ہر سطح پر جو عہدیدار ہیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتے ہوئے مسجدوں میں لانے کی کوشش کرنی ہے اور اپنے احمدی ہمسایوں کو بھی نماز میں آتے جاتے اس طرف توجہ دلاتے رہنا ہے تو ہم دیکھیں گے کہ ہماری مسجدیں حقیقت میں بارونق مسجدیں بن جائیں گی اور اگر تمام انصار اس کی طرف توجہ کریں تو ایک انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔ پس اس طرف توجہ کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
حضورانور نے فرمایا کہ یَعْبُدُوْنَ کا لفظ عبد سے نکلا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ عبادت کا حق ادا کرنے والے اور کامل اطاعت کرنے والے۔ پس عبد ہونے کا حق ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے اور اس کے حکموں کی کامل اطاعت کرنا ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عبودیت اور ربوبیت میں ایک گہرا تعلق رکھا ہے اور اس تعلق اور رشتہ کو قائم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے نماز بنائی ہے۔ پس اس رشتہ کو قائم کرنے کی ضرورت ہے اس بات کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنے کی ضرورت ہے اگر نماز کے حق ادا نہیں کر رہے تو عبد ہونے کا بھی حق ادا نہیں کر رہے۔ اگر نماز کے ادا کرنے کی، اس کی تمام لوازمات کے ساتھ، فکر نہیں ہے تو پھر اپنے لئے یا اپنی اولاد کے لئے اللہ تعالیٰ کو ربّ کہنے کا دعویٰ بھی صرف منہ کی باتیں ہیں۔ پس ہمیں بہت فکر سے اپنی نمازوں کی فکر ہونی چاہئے تا کہ ہم عبد ہونے کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا بھی صحیح ادراک حاصل کرنے والے ہوں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے جنّ اور انس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔ پس اس آیت کی رُو سے اصل مدّعا انسان کی زندگی کا خدا کی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا کے لئے ہو جانا ہے۔
فرماتے ہیں کہ یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدّعا اپنے اختیار سے مقرر کرے کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا بلکہ وہ ایک مخلوق ہے۔ اور جس نے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قویٰ اس کو عنایت کئے اسی نے اس کی زندگی کا ایک مدّعا ٹھہرا رکھا ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو ساتھ ہی ایک مقصد بھی بنایا ہے۔ یہ نہیں کہ باقی جانوروں کی طرح پھرتے رہو، کھاؤ پیو، سوؤ۔ اور قصّہ ختم ہو گیا۔ فرماتے ہیں خواہ کوئی انسان اس مدّعا کو سمجھے یا نہ سمجھے مگر انسان کی پیدائش کا مدّعا بلاشبہ خدا کی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا میں فانی ہو جانا ہی ہے۔ خدا میں فانی انسان اسی وقت ہو سکے گا، خدا کی معرفت اسی وقت پیدا ہو گی جب ہر وقت اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والا ہو گا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض ارشادات پیش فرمائے جن میں سے ایک میں حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں کہ اسلام قطعاً یہ نہیں کہتا کہ دنیا کو چھوڑ دو اور جنگلوں میں جا کر بیٹھ جاؤ۔ نہیں۔ اسلام تو انسان کو چست ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے۔ اس لئے مَیں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جدوجہد سے کرو۔ جو جس کی دنیاوی ذمہ داریاں ہیں ان کے لئے پوری کوشش کرو اور اس کو بھی انتہا تک پہنچانے کی کوشش کرو۔ ان میں ترقی کرو یہ بھی تو مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کی نشانی ہے کہ وہ دنیاوی معاملات میں بھی ترقی کریں گے۔ یہ نہیں کہ مانگنے والے ہاتھ ہی رہیں، کام کرنے کی طرف اور محنت کرنے کی طرف توجہ نہ ہو اور ہر وقت یہی ہو کہ ہماری مدد کی جائے۔ یہ نہیں۔ جو بھی کام ہے، ایک حقیقی مؤمن کو اپنے دنیاوی کاموں کے لئے بھی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ فرماتے ہیں کہ حدیث میں آیا ہے کہ جن کے پاس زمین ہو اور وہ اس کا تردّد نہ کرے، اس میں محنت نہ کرے ،اس کو صحیح طرح اس کو استعمال نہ کرے تو اس سے مؤاخذہ ہو گا۔ اس سے بھی جواب طلبی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیاوی سامان دئیے تھے تا کہ اس سے تمہارے اندر بہتری پیدا ہو، تمہارے ہاں کشائش پیدا ہو، تم اپنے بیوی بچوں کے حق ادا کرنے والے بنو، تم جماعت کے حق ادا کرنے والے بنو۔ اگر تم نے اس جائیداد کا صحیح استعمال نہیں کیا، جو کاروبار تھے ان کو صحیح طرح نہیں چلایا، جس محنت کی توقع کی جاتی ہے وہ صحیح طرح نہیں کی تو تب بھی اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تمہیں مَیں نے یہ سب کچھ دیا تھا دنیاوی سازو سامان تم نے کیوں نہیں ان سے فائدہ اٹھایا؟ فرماتے ہیں پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہوجاوے وہ غلطی کرتا ہے۔ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کاروبار جو تم کرتے ہو اس میں دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اس کے ارادے سے باہر نکل کر اپنی اغراض و جذبات کو مقدّم نہ کرو۔ ہاں دنیاوی کاروبار بھی کرنے ہیں، اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کا جب وقت آتا ہے، اس کی عبادت کرنے کا جب وقت آتا ہے، نمازوں کے اوقات جب آتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا اُس وقت یہ ہے کہ اس کی عبادت کرو۔ اور جب نمازیں وقت پر اور ان کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھ لو تو پھر دنیاوی کاموں میں مصروف ہو جاؤ کیونکہ ان کا کرنا بھی اللہ تعالیٰ کا ہی حکم ہے۔ پس عبد بننے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی رضا مقصود ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو اس اصل غرض کو مدّنظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خرید لوں، فلاں مکان بنا لوں، فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جائے تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلا لے اور کیا سلوک کیا جاوے۔ جو نیکیاں کرنے کا اجر ہے، جو ثواب اللہ تعالیٰ کے ہاں جا کے ملنا ہے وہ تو پھر نہیں ملے گا۔ وہ تو دنیا میں ہی ڈوبا ہوا ہے۔ دنیا کماؤ، دنیا کے لئے کوشش کرو لیکن اس حد تک جس حد تک اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ انسان کے دل میں خدا کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اُس کے نزدیک وہ قابل قدر شئے ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی قابل قدر ہو جائے گا اور دنیا میں بھی وہ قابل قدر ہو گا۔ اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کا ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جائے گا۔
پس اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش ہمیں کرنی چاہئے نہ کہ دنیا داروں کی طرح زندگی گزاری جو خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو عبادت کا طریق سکھایا ہے وہ کیا ہے!۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد پیش کرتا ہوں جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ صحیح عبد بننے کا طریق کیا ہے اور عبد بننے کے لئے کیا چیز ضروری ہے۔ دراصل نماز ہی صحیح عبد بننے کی طرف میں لے جاتی ہے۔ اور ایسی نمازوں کی حضرت مسیح موعودؑ ہم سے توقع رکھتے ہیں جن میں گدازش ہو اور وہ پُرسوز نمازیں ہوں۔ پھر یہ شکوہ نہیں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ہماری سنتا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں بہت سے ایسے ہیں جن کی نمازوں میں گدازش ہے ان کی نمازوں سے ان میں سوزش پیدا ہوتی ہے ان کو نمازوں میں سرور اور مزہ آتا ہے اور انہیں کوئی شکوہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ سنتا نہیں ہماری وہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوتے ہیں۔ کبھی ان کا سرور کم نہیں ہوتا۔
حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ عبادتوں میں سرور آنے اور مزہ آنے کا ذکر تو بہت سے نئے احمدی بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ بینن کے ایک نَومبایع ادریس صاحب کہتے ہیں کہ احمدیت قبول کرنے سے پہلے بھی مَیں مسلمان تھا نمازیں بھی پڑھتا تھا بلکہ تہجد بھی پڑھا کرتا تھا لیکن نمازوں میں مجھے سرور اور لذّت نہیں ملتی تھی لیکن جب سے میں احمدی ہوا ہوں بالکل کایا پلٹ گئی ہے نمازوں میں سرور اور لذت پاتا ہوں اب مزہ ہی اور ہو گیا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کی معرفت انسان کو ملتی ہے اور دعاؤں میں درد پیدا ہوتا ہے تو پھر سرور بھی آتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جس طرح بہت دھوپ کے ساتھ آسمان پر بادل جمع ہو جاتے ہیں اور بارش کا وقت آ جاتا ہے ایسا ہی انسان کی دعائیں ایک حرارت ایمانی پیدا کرتی ہیں اور پھر کام بن جاتا ہے۔ فرمایا نماز وہ ہے جس میں سوزش اور گدازش کے ساتھ اور آداب کے ساتھ انسان خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہوتا ہے۔ عاجزی ہوتی ہے تو ایک حرارت پیدا ہوتی ہے، ایک درد پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر جو نماز کے آداب ہیں یا عاجزی کی انتہا یہی ہے کہ جب خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہوتا ہے تو پھر ایک حقیقی حالت نماز کی پیدا ہوتی ہے۔ فرمایا کہ جب انسان بندہ ہو کر لاپرواہی کرتا ہے تو خدا کی ذات بھی غنی ہے۔ ہر ایک امّت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس میں توجہ الی اللہ قائم رہتی ہے۔ ایمان کی جڑ بھی نماز ہے۔ بعض بیوقوف کہتے ہیں کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے؟ فرمایا کہ اے نادانو! خدا کو حاجت نہیں ہے مگر تم کو حاجت ہے کہ خداتعالیٰ تمہاری طرف توجہ کرے۔ خدا کی توجہ سے بگڑے ہوئے کام درست ہو جاتے ہیں۔ نماز ہزاروں خطاؤں کو دُور کر دیتی ہے اور ذریعۂ حصولِ قربِ الٰہی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کو ہماری ضرورت نہیں۔عبادت کا کہہ کر ہم پر اُس نے احسان کیا ہے کہ ہم اُس کے قریب ہوں گے تو دین بھی پائیں گے اور دنیا بھی پائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ پانچ وقت اپنی نمازوں میں دعا کرو۔ اپنی زبان میں بھی دعا کرنی منع نہیں ہے۔ نماز کا مزہ نہیں آتا جب تک حضور نہ ہو، جب تک کہ پوری طرح توجہ نہ ہو۔ اور حضور قلب نہیں ہوتا جب تک عاجزی نہ ہو۔ اپنے اندر عاجزی پیدا کرو تبھی دل کی پوری توجہ بھی پیدا ہو گی۔ عاجزی تب پیدا ہوتی ہے جو یہ سمجھ آ جائے کہ کیا پڑھتا ہے۔ اس لئے اپنی زبان میں اپنے مطالب پیش کرنے سے جوش اور اضطراب پیدا ہو سکتا ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ ہمیں اس زمانے میں دینی مجالس منعقد کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جلسوں اور اجتماعوں کے انعقاد کے بھی انتظام فرما دئیے ہوئے ہیں۔ یہاں ہم اکٹھے ہوتے ہیں تاکہ دینی باتیں بھی سنیں، نمازیں بھی پڑھیں۔ محبت اور انس پیدا ہو تو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک زائد چیز ہم میں پیدا فرما دی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے اور اس شکرگزاری کرنے کا حق یہی ہے کہ اپنے دلوں میں ایسی محبت پیدا کریں اور یہ عہد کریں کہ ہم اللہ تعالیٰ کا صحیح عبد بننے کی کوشش کریں گے، اللہ تعالیٰ کا بھی حق ادا کریں گے اور بندوں کے بھی حق ادا کریں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ بھی فرماتے ہیں کہ: نماز خدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو۔ وفا اور صدق کا خیال رکھو اگر سارا گھر غارت ہوتا ہے تو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو۔
پھر آپؑ نماز کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ یہ دین کو درست کرتی ہے، اخلاق کو درست کرتی ہے، دنیا کو درست کرتی ہے۔ نماز کا مزہ دنیا کے ہر مزے پر غالب ہے۔ تم لوگ لذّاتِ جسمانی کے لئے ہزاروں روپیہ خرچ کرتے ہو پھر ان کا نتیجہ بیماریاں ہوتی ہیں۔ اَور اگر نمازیں پڑھنے والا ہو تو یہ مفت کا بہشت ہے جو انسان کو ملتا ہے۔ قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے۔ ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذّت ہے۔ کس طرح نمازیں پڑھنے والوں میں یہ انقلاب پیدا ہوتا ہے، کس طرح ان کو یہ سرور حاصل ہوا اور دنیا کی جنت حاصل کرنے والے بنتے ہیں، ایسے لوگ جماعت میں بہت سارے ہیں بلکہ اُن کو دیکھ کر اُن کے بچوں کی بھی حالت بدل گئی ہے وہ بھی اس دنیاوی جنت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ بینن کے ایک دوست عبدالمؤمن صاحب لافیا نے بتایا کہ میں ایک پیدائشی مسلمان ہوں لیکن نماز وغیرہ کی طرف توجہ نہیں تھی اور اسی وجہ سے میرے بچے بھی، خصوصاً میری چھوٹی بیٹی تو بالکل اسلام سے دُور تھی۔ میرا اپنا ہی نمونہ ٹھیک نہیں تھا اس لئے میں جو بھی نصیحت کرتا وہ اثر نہیں کرتی تھی۔ لیکن جب میں نے احمدیت قبول کی تو میرے اندر بھی تبدیلی آئی اور اب خدا کا شکر ہے کہ میری بیٹی نہ صرف اسلام سے محبت رکھتی ہے بلکہ باقاعدہ جماعتی پروگراموں میں شمولیت کرتی ہے اور ہم سب کی نمازوں کی طرف بھی پہلے سے بڑھ کر بلکہ حقیقی توجہ پیدا ہو گئی ہے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کا نمونہ اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لئے ضروری ہے اور یہ نمونہ دکھانا انصاراللہ کا کام ہے اور یہی حقیقی انصاراللہ ہونے کا مقصد بھی ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ دعاؤں اور عبادتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ انسانوں میں سے بھی جو سب سے زیادہ قابل قدر ہے اسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھتا ہے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا سچا تعلق رکھتے اور اپنے اندرونے کو صاف رکھتے ہیں۔ اندر باہر ایک ہیں۔خدا تعالیٰ سے ایک حقیقی تعلق ہے ۔ صرف منہ سے نہیں کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے پیار اور محبت ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے عبد ہیں بلکہ دل بھی ان کی اس بات کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں اور اُن کا ہر عمل اس بات کی گواہی دے رہا ہوتا ہے کیونکہ نوع انسان کے ساتھ خیر اور ہمدردی سے پیش آتے ہیں۔
قرآن شریف فرماتا ہے کہ

قُلْ مَا یَعْبَؤُ بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَاؤُکُمْ۔

یعنی تُو کہہ دے کہ اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تو میرا ربّ تمہاری کوئی پرواہ نہ کرتا۔ اس سے صاف پتا لگتا ہے کہ وہ اُن کی پرواہ کرتا ہے جو سعادت مند ہوتے ہیں یعنی دعا کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ جب تم دعا کرو گے تو میں تمہاری پرواہ کروں گا اور جب اللہ تعالیٰ پرواہ کرتا ہے تو ان کو ایک خاص مقام مل جاتا ہے۔
حضورانور نے فرمایا کہ جب انسان اپنی اصلاح کر لیتا ہے اور خدا سے صلح کر لیتا ہے تو خدا اس کے عذاب کو بھی ٹال دیتا ہے۔ خدا کوکوئی ضد تو نہیں۔ چنانچہ صاف طور پر فرمایا ہے:

مَایَفْعَلُ اللّٰہِ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ۔

یعنی خدا نے تم کو عذاب دے کر کیا کرنا ہے اگر تم دیندار ہو جاؤ۔
چنانچہ تنزانیہ کے ایک گاؤں اگمبیا میں اکثریت لامذہب کی تھی۔ اکثر لوگوں کا مشغلہ شراب نوشی کرنا، جؤا کھیلنا تھا اور دوسری برائیاں بھی عام تھیں۔ کوئی برائی نہیں جو اُن میں نہ ہو۔ جب معلّم صاحب وہاں تبلیغ کے لئے گئے اور گاؤں کی حالت کا اندازہ لگایا تو اُن کاخیال تھا کہ شاید کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو گی۔ سب برائیوں میں ملوث ہیں، انہوں نے ہماری بات کیا سننی ہے دین کی اور مذہب کی اور خدا کی۔ کہتے ہیں بہرحال جب ہم نے تبلیغ کی تو انہی لوگوں نے نہ صرف اسلام احمدیت کا پیغام سنا بلکہ کافی لوگوں نے اسی وقت بیعت کر کے اسلام احمدیت کو قبول کر لیا۔ پھر بیعت کرنے والوں میں ایسی تبدیلی رونما ہوئی کہ ان میں سے بعض نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے چار کلو میٹر دُور ایک قریبی جماعت کی مسجد میں پہنچتے۔ پھر وہاں بھی ایک عارضی مسجد بنائی گئی اور باقاعدہ نماز باجماعت کا آغاز ہوگیا۔ تو وہی لوگ جو نشوں میں ڈوبے ہوئے تھے، جو شرابی تھے، جؤا کھیلنے میں ہروقت مصروف رہتے تھے وہی لوگ جو دوسری برائیوں میں ملوث تھے اب وہ پانچ وقت مسجد میں نمازیں پڑھ رہے ہیں۔ تو یہ انقلاب ہے جو بیعت کرنے کے بعد ان لوگوں میں پیدا ہوا۔
حضورانور ایدہ اللہ نے نہایت درد سے فرمایا کہ ہمارے لئے ایک بڑا سوچنے کا مقام ہے۔ آپ کی اکثریت یہاں جو بیٹھی ہے میرے سامنے اس میں اکثر جو ہیں وہ اس وجہ سے یہاںآئے ہیں ان مغربی ممالک میں کہ ہماری عبادتوں پر پابندی تھی ہمیں کھل کر عبادت کرنے کی اجازت نہیں تھی ہمیں کھل کر اپنے آپ کو مسلمان کہنے کی اجازت نہیں تھی ہمیں اسلامی احکامات پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے ہمیں کھل کر اللہ تعالیٰ کا نام لینے کی اجازت نہیں ہے اور ان تنگیوں کی وجہ سے ہم یہاں آئے ہیں تو اس کے بعد تو کس قدر یہ حق بنتا ہے بلکہ فرض بنتا ہے ہمارا کہ ہم اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے ہوں اور اس کے حکموں کے مطابق چلنے والے ہوں اپنی مسجدوں کو آباد کرنے والے ہوں۔ اگر ہم نہیں یہ کریں گے عبادت کا حق ادا نہیں کریں گے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر نہیں چلیں گے اس کا صحیح عبد نہیں بنیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی بے نیاز ہے پھر۔ یہ بات بھی ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے اللہ تعالیٰ کی کوئی کسی سے رشتہ داری نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ان کو کہہ دے کہ اگر تم نیک چلن انسان نہ بن جاؤ اور اس کی یاد میں مشغول نہ رہو تو میرا خدا تمہاری زندگی کی پرواہ کیا رکھتا ہے اور سچ ہے کہ جب انسان غافلانہ زندگی بسر کرے اور اس کے دل پر خدا کی عظمت کا کوئی رعب نہ ہو اور بے قیدی اور دلیری کے ساتھ اس کے تمام اعمال ہوں تو ایسے انسان سے ایک بکری بہتر ہے جس کا دودھ پیا جاتا ہے اور گوشت کھایا جاتاہے اور کھال بھی بہت سے کاموں میں آجاتی ہے۔ پھر وہ جانور انسانوں سے زیادہ بہتر بن جاتا ہے جو حلال جانور ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پس بہت غور اور فکر کا مقام ہے۔ ہمیں ہر وقت اس بارہ میں سوچنا چاہئے۔ صرف نعرے لگانے سے اسلام فتح نہیں ہوگا۔ صرف نعرے لگانے سے ہماری اصلاح نہیں ہو گی۔ صرف نعرے لگانے سے ہماری اگلی نسلوں میں احمدیت اور اسلام کا حقیقی پیغام جاری نہیں رہے گا۔ بلکہ اس کے لئے کوشش کرنی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے ہمیں محنت کرنی پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عبادتوں کا صحیح حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اس کی معرفت ہم میں پیدا ہو، نہ صرف اپنی اصلاح کرنے والے ہوں بلکہ اپنے بچوں کے لئے بھی نمونہ بن جائیں۔
آجکل دنیا جس تیزی سے خدا تعالیٰ کو بھلا رہی ہے اس کی اصلاح صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہی کر سکتی ہے جن کو اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں بھیجا ہے۔ اگر پرانے احمدی اس اہمیت کو نہیں سمجھیں گے اور یہاںآ کر شکر گزاری کے بجائے دنیا میں ڈوب جائیں گے، اپنے بچوں کے لئے مثالیں قائم نہیںکریں گے تو اللہ تعالیٰ اور مخلصین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرما دے گا اور دنیا میںہرجگہ عطا فرما رہا ہے۔ وہی لوگ پھر دنیا کا عَلم اور جھنڈا اٹھانے والے ہوں گے، حقیقی انصار اللہ ہوں گے۔ پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ اگر ان لوگوں میںشامل ہونا ہے اور اپنی نسلوں کو ان لوگوں میں شامل کرنا ہے جن کی اللہ تعالیٰ پرواہ کرتا ہے تو پھر اپنی نمازوں کی اور اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

سالانہ اجتماع کے مختصر کوائف اور حاضری

جلسہ سالانہ برطانیہ کے ایّام میں کنگزلے کنٹری مارکیٹ کئی سال سے اضافی پارکنگ کرنے کے لئے کرایہ پر حاصل کی جارہی ہے۔ امسال خدام کا اجتماع اسی مقام پر منعقد ہوا تھا اور ایک ہفتہ بعد مجلس انصاراللہ اور لجنہ اماء اللہ کے سالانہ اجتماعات بھی (پردہ کی رعایت کے ساتھ) یہاں منعقد ہوئے۔ مقام اجتماع کا ایک بڑا حصہ پارکنگ کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔ اگرچہ امسال نئی جگہ، موسمِ سرما کے آغاز اور گرم پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے شاملینِ اجتماع کو کچھ تکلیف بھی اٹھانی پڑی تاہم اجتماع کے تیسرے روز بھرپور حاضری ریکارڈ کی گئی۔ الحمدللہ
کارپارکنگ کے لئے مقام اجتماع کے بالکل سامنے وسیع میدان مختص تھا۔ ذاتی کاروں کے علاوہ مختلف مقامات سے 17 کوچز میں انصار مقام اجتماع تک پہنچے تھے۔ ان کوچز کومقامِ اجتماع میں داخل کرنےکے لئے رجسٹریشن اور سیکیورٹی کا نظام ہم آہنگ ہوکر مصروف عمل تھا۔ رضاکاروں کی ایک ٹیم آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے اُن کی رہنمائی کررہی تھی۔ رجسٹریشن کے وسیع خیمہ سے متّصل اجتماع کی انتظامیہ کے دفاتر کے علاوہ نیشنل شعبہ وصیت، ہیومینٹی فرسٹ، ریڈیو Voice of Islam اور مجلس انصاراللہ برطانیہ کے شعبہ مال وغیرہ نے سٹالز لگائے ہوئے تھے۔ حسب سابق اجتماع کی رجسٹریشن کروانے کے لئے قبل از وقت online سہولت مہیا تھی اور ویب سائٹ پر مکمل معلومات مسلسل update کی جارہی تھیں۔
رجسٹریشن اور سیکیورٹی کے مراحل طے کرنے کے بعد مقامِ اجتماع میں داخل ہونے کے بعد سامنے ہی لوائے انصاراللہ اور برطانیہ کا قومی پرچم لہراتے ہوئے نظر آتے تھے۔ نیز ایک خوبصورت نقشہ بھی آویزاں تھا جس میں مقامِ اجتماع کے ضروری مقامات کی نشاندہی کی گئی تھی۔
امسال مرکزی مارکی (Main Marquee) میں فرشی نشست پر چار ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی جبکہ 1200 کرسیاں بھی لگائی گئی تھیں۔ مارکی کے سٹیج پر پچاس سے زائد افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ سٹیج کے بائیں جانب ایک بہت بڑی سکرین (LED) نصب کی گئی تھی جو نہ صرف مارکی کے پچھلے حصہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو اجتماع کی کارروائی سے باخبر رکھتی تھی اور بہت سی Presentations کے دوران مختلف گرافس اور تصاویر پیش کرنے کے لئے اس سکرین سے بھرپور استفادہ کیا جا رہا تھا۔ مارکی کی دیواروں پر مختلف بینرز آویزاں تھے جن پر خصوصیت سے مجلس انصاراللہ کے قیام کے مقاصد اور انصار کے لئے خلفائے سلسلہ کی ہدایات رقم تھیں۔ مارکی کے پچھلے حصہ میں ایک معلوماتی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس خوبصورت نمائش کے ایک حصہ میں مختلف موضوعات پر آیاتِ قرآنی اور اُن کا ترجمہ آویزاں تھا نیز مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم بھی میز پر ترتیب سے رکھے گئے تھے۔ نمائش کے ایک حصہ میں ایک تبلیغی سٹال کا نقشہ پیش کیا گیا تھا۔ جبکہ نمائش میں مجلس انصاراللہ یوکے کی نیشنل اور ریجنل سطحوں پر ہونے والے چند اہم پروگراموں کی تصاویر اور معلومات پر مبنی پوسٹرز بھی نمائش کے لئے پیش کئے گئے تھے۔ سرد موسم کی وجہ سے اجتماع گاہ میں سنٹرل ہیٹنگ کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ امسال سٹیج کی بیک گراؤنڈ سادہ مگر دیدہ زیب تھی۔ سبز رنگ کے کینوس پر سورۃالرعد کی آیت 29’’الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُہُم بِذِکْرِاللّہِ أَلاَ بِذِکْرِ اللّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ‘‘ تحریر تھی جس کے ساتھ اس کا انگریزی ترجمہ دیا گیا تھا۔ اس آیت کا اردو ترجمہ یوں ہے:’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ سنو! اللہ ہی کے ذکر سے دل اطمینان پکڑتے ہیں۔‘‘
جماعت احمدیہ برطانیہ کے شعبہ تبلیغ کے تحت ایک خوبصورت معلوماتی تبلیغی نمائش کا اہتمام علیحدہ مارکی میں بھی کیا گیا تھا جسے بڑی تعداد میں زائرین نے ملاحظہ کیا۔ ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی، طبّی امداد کے علیحدہ علیحدہ کیمپ قائم تھے۔ ایک بڑی مارکی انصار کی رہائش کے لئے مختص تھی جس میں ساڑھے تین سو بستر لگائے گئے تھے۔ جبکہ ایک بڑی مارکی میں طعام کا انتظام کیا گیا تھا جس میں اڑہائی صد میزیں اور ڈیڑھ ہزار کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ مختلف اوقات میں گرم چائے اور بعض اوقات پھل بھی شرکائے اجتماع کو پیش کئے گئے۔ ماحول کی صفائی کا خاص طور پر اہتمام کیا گیا تھا۔
جمعہ، ہفتہ اور اتوار، تینوں دن، نماز تہجد باجماعت ادا کی گئی اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد قرآن کریم اور حدیث مبارکہ کا درس بھی دیا گیا۔ امسال بھی اردو زبان میں کی جانے والی تمام تقاریر کے Live (براہ راست) انگریزی زبان میں ترجمہ کا انتظام موجود تھا۔
امسال سالانہ اجتماع میں شامل ہونے والے افراد کی کُل تعداد 3913 تھی جن میں 2519؍ انصار اور 1394 دیگر زائرین تھے۔ جبکہ گزشتہ سال اجتماع میں شامل ہونے والے 2685 افراد میں 2334 انصار اور 351 دیگر مہمان شامل تھے۔

سالانہ اجتماع کا پہلا روز

28؍ ستمبر 2018ء کی صبح ناشتہ کے بعد 11 بجے سے رجسٹریشن جاری تھی۔ دوپہر ایک بجے مقامِ اجتماع میں موجود احباب جماعت نے ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے ذریعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ جمعہ براہ راست سنا اور بعدازاں مقامی طور پر نماز جمعہ اور عصر باجماعت ادا کی گئیں۔
شام قریباً پونے پانچ بجے لوائے انصاراللہ لہرانے کی تقریب منعقد ہوئی۔ مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت یُوکے نے لوائے انصاراللہ جبکہ مکرم ڈاکٹر چوہدری اعجازالرحمٰن صاحب صدر مجلس انصاراللہ یوکے نے برطانیہ کا قومی پرچم لہرایا۔ مکرم امیر صاحب نے دعا کروائی۔ بعدازاں افتتاحی اجلاس کی صدارت مکرم امیر صاحب نے کی۔ تلاوت قرآن کریم کی سعادت مکرم ظفراللہ احمدی صاحب کو حاصل ہوئی۔ آیات کریمہ کا انگریزی ترجمہ مکرم نثار آرچرڈ صاحب نے پڑھا۔ مکرم ڈاکٹر چوہدری اعجاز الرحمٰن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ کی اقتداء میں انصار نے کھڑے ہوکر انصاراللہ کا عہد دہرایا۔ جس کے بعد مکرم آصف چغتائی صاحب نے نظم پڑھی۔ اس کے بعد مکرم امیر صاحب نے افتتاحی تقریر میں انصار کو بعض تربیتی امور سے متعلق توجہ دلائی۔
ذکرحبیب علیہ السلام
اجتماع کا پہلا باقاعدہ اجلاس مکرم امیر صاحب یوکے کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم رانا مشہود احمد صاحب جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ برطانیہ کی تھی جس کا عنوان تھا: ’’ذکرحبیبؑ‘‘۔ یہ تقریر اردو زبان میں تھی۔
مقرر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ حیات مبارکہ سے متعدّد منتخب واقعات حاضرین کے سامنے رکھتے ہوئے حضور علیہ السلام کے عظیم الشان کردار کے روشن پہلوؤں کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
فلاحی ادارے ’ہیومینٹی فرسٹ‘ کےمنصوبوں کی کامیابی کے لئے مجلس انصاراللہ برطانیہ کا غیرمعمولی کردار
اس سیشن کی دوسری تقریر مکرم ڈاکٹر عزیز احمد حفیظ صاحب نے انگریزی زبان میں کی۔ یہ تقریر دراصل خیراتی ادارے ہیومینٹی فرسٹ اور اس کی امدادی سرگرمیوں کا تعارف تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ اور حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے مختلف خطبات اور خطابات کے مختصر حصّے پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اب تک 4.2 ملین پاؤنڈزکی خطیر رقم مجلس انصاراللہ نے ہیومینٹی فرسٹ میں پیش کی ہے۔ دنیابھر میں قدرتی آفات کی آمد پر ادارے کی طرف سے جس طرح امدادی سرگرمیاں پیش کی جاتی ہیں اس کی متعدد ویڈیوز بھی چلائی گئیں جن میں رضاکاروں کو آفت زدہ علاقوں میں خدمت کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ دیگر مقامات سے آفت زدہ علاقوں میں جانے والے بعض رضاکاروں کے تجربات کی گفتگو سنائی گئی۔ اسی طرح مقامی رضاکاروں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ ہیومینٹی فرسٹ کے ادارہ کے توسّط سے خدمت خلق کرنے کے نتیجہ میں انہیں کیسا محسوس ہوا۔
دعا کے ساتھ یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا ۔ بعدازاں سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتدا میں نماز مغرب و عشاء ادا کی گئیں اور پہلے دن کا پروگرام اختتام کو پہنچا۔

سالانہ اجتماع کا دوسرا روز

اجتماع کا دوسرا اجلاس مکرم منور احمد مغل صاحب ناظم اعلیٰ ساؤتھ ویسٹ کی صدارت میں صبح قریباً دس بجے منعقد ہوا۔ تلاوت قرآن کریم مکرم ایوب ندیم صاحب نے کی اور آیاتِ کریمہ کا ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں مارکی میں چند علمی مقابلہ جات کا انعقاد ہوا جبکہ اُسی وقت میدانِ عمل میں چند ورزشی مقابلہ جات منعقد ہوئے۔

طعام کے بعد اجتماع گاہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتدا میں نماز ظہر و عصر سوا دو بجے جمع کر کے ادا کی گئیں۔نمازوں کے بعد قریباً اڑہائی بجے حضورانور ایدہ اللہ نے مکرم صدر صاحب مجلس انصاراللہ برطانیہ کی خصوصی درخواست پر ازراہ شفقت اپنے دست مبارک سے ’’لوائے انصاراللہ‘‘ لہرایا اور دعا کروائی۔ بعد ازاں حضور انور اپنی رہائشگاہ واقع حدیقۃالمہدی کے لئے روانہ ہوگئے۔

نمازوں کی ادائیگی کے بعد سالانہ اجتماع انصاراللہ برطانیہ 2018ء کا تیسرا سیشن مکرم ڈاکٹر چودھری اعجازالرحمٰن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ تلاوت قرآن کریم مکرم معید حامد صاحب نے کی۔ آیات کریمہ کا ترجمہ مکرم احمد Owusu Konadu صاحب نے پڑھ کر سنایا۔ مکرم چودھری منصور احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاکیزہ منظوم کلام میں سے چند اشعار ترنّم کے ساتھ پڑھ کر سنائے۔
صفِ دوم کے انصار کے لئے وقت اور مال کی قربانی کی اہمیت
اس سیشن میں پہلی تقریر مکرم فہیم احمد انور صاحب نائب صدر (صف دوم) مجلس انصاراللہ برطانیہ کی تھی۔ انگریزی زبان میں کی جانے والی اس تقریر کا موضوع تھاکہ صف دوم کے انصار کے لئے خداتعالیٰ کی راہ میں وقت اور مال کی قربانی کس قدر اہم ہے۔
آنحضرت ﷺ کی تبلیغی حکمتِ عملی اور عصرحاضر کے تقاضے
اس سیشن کی دوسری تقریر مکرم ڈاکٹر سر افتخار احمد ایّاز صاحب چیئرمین انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیٹی نے اردو زبان میں کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا :’’آنحضرت ﷺ کی تبلیغی حکمتِ عملی اور عصر حاضر کے تقاضے‘‘۔
مجلس انصاراللہ برطانیہ کی دعوت الی اللہ کی ایک جھلک
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول حضرت محمدمصطفیٰﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: بَلِّغ مَآ اُنزِ لَ اِلَیکَ مِن رَّبّک۔ پہنچا دے جو تیرے ربّ کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ چنانچہ تبلیغ ایک اہم فریضہ ہے،جو ہر ایک احمدی پر فرض ہے۔جس کو ادا کرنے کے لئے مجلس انصار اللہ یوکے خلیفۂ وقت کے ارشادات کی روشنی میں تبلیغی لائحہ عمل بناتی ہے، اور اس پرنیشنل، ریجنل اور لوکل سطح پر ایک پروگرام کے تحت کام کیا جاتا ہے۔ اجلاس کے اختتام سے قبل ایک Presentation مکرم شکیل احمد بٹ صاحب قائد تبلیغ مجلس انصاراللہ یوکے نے پیش کی۔ آپ نے نہایت اختصار کے ساتھ مجلس انصاراللہ برطانیہ کے زیراہتمام چلنے والے دعوت الی اللہ کے منصوبوں پر روشنی ڈالی۔ مختلف گرافس اور چارٹس کے ذریعہ سے گزشتہ چند سالوں کی کارکردگی کا جائزہ پیش کیا اور آئندہ کے لائحہ عمل پر روشنی ڈالی۔
آپ نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی روشنی میں مجلس انصاراللہ یوکے سارے ملک میں مسلسل ایسے پروگراموں کا انعقاد کرتی رہتی ہے جس کے نتیجے میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ملک کی زیادہ سے زیادہ آبادی تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچ جائے۔ حضور انور نے ایک بار یہ ہدایت بھی فرمائی تھی کہ جس طرح حج اور دیگر میلوں کے مواقع پر آنحضور ﷺ تبلیغ کیا کرتے تھے اسی طرح انصار بھی مقامی طور پر ہونے والے میلوں میں سٹال لگائیں اور اسلام کے بارہ میں غلط فہمیوں کا ازالہ کریں۔ نیز دیہات میں چونکہ شرفاء کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اس لئے وہاں کے باسیوں میں انفرادی تبلیغ پر خصوصی توجہ دی جائے۔ چنانچہ مجلس انصاراللہ نے مختلف تبلیغی پروجیکٹس پر کام شروع کیا ہوا ہے۔جن کی تفصیل یہ ہے:
دیہاتی علاقوں میں تبلیغی دورہ جات۔ تبلیغ اسٹالز۔ تبلیغی پمفلٹس کی تقسیم۔ ون ٹو ون یعنی انفرادی تبلیغ۔ قرآن کریم کا تحفہ پیش کرنے کا منصوبہ۔ بین المذاہب امن کانفرنس۔ مجالسِ سوال و جواب اور قرآن کریم کی نمائشیں۔ جلسہ ہائے سیرت النبی ﷺ۔ نیشنل تبلیغ سیمینار۔ مقامی و علاقائی تبلیغی فورمز۔ عشرہ ہائے تبلیغ اور علاقائی یومِ تبلیغ وغیرہ۔
قائد صاحب تبلیغ نے مختلف اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے گزشتہ پانچ چھ سال میں مجلس انصاراللہ برطانیہ کی تبلیغی کاوشوںپر روشنی ڈالی۔
اسلام آباد ریجن کا سپین میں وقف عارضی کا پروگرام
امسال اسلام آباد ریجن کے چھ انصار نے سپین میں چھ روزہ وقف عارضی کرنے کی توفیق پائی ہے۔ سیشن کے اختتام سے قبل مکرم عطاء القدوس صاحب ناظم اعلیٰ ریجن اسلام آباد نے اس وقف عارضی کے ایام کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ دنوں کے دوران جن قصبات اور دیہات میں پہلی بار اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی اُن کی تعداد 19 ہے۔ ان مقامات پر پندرہ ہزار سے زائد لیفلٹس تقسیم کئے گئے۔
بعدازاں مکرم ابراہیم اِخلف صاحب سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ برطانیہ نے مختصراً انصاراللہ برطانیہ کی تبلیغی کاوشوں کو سراہتے ہوئے انصار کو اِس میدان میں وقت کی قربانی کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
دعا کے ساتھ یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا جو مکرم ڈاکٹر چودھری اعجازالرحمٰن صاحب صدر اجلاس نے کروائی۔ بعدازاں حاضرین کی خدمت میں چائے و دیگر لوازمات اور پھل پیش کئے گئے۔
چائے کے وقفہ کے بعد قریباً پانچ بجے سالانہ اجتماع انصاراللہ برطانیہ 2018ء کا چوتھا اجلاس مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ تلاوت قرآن کریم مکرم وسیم احمد چودھری صاحب نے کی۔ آیات کریمہ کا ترجمہ مکرم Hakeem Mensah صاحب نے پڑھ کر سنایا۔
دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کا عہد
اس سیشن کی پہلی تقریر مکرم فضل الرحمن ناصر صاحب قائد تربیت مجلس انصاراللہ برطانیہ نے ’’دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کا عہد‘‘کے موضوع پر کی۔ یہ تقریر رسالہ انصارالدین کے مارچ و اپریل 2019ء کے شمارہ میں شائع کی جارہی ہے-

أَلَا بِذِکْرِاللّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ

اس سیشن کی دوسری تقریر مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نائب امیر یوکے و امام مسجد فضل لندن کی تھی۔ آپ کی تقریر کا موضوع سورۃ الرعد کی آیت 29 کا وہی حصہ تھا جو امسال کے اجتماع کا مرکزی نکتہ (Theme) بھی تھا یعنی

’’أَلاَ بِذِکْرِ اللّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ‘‘۔

اس تقریر کے بعد شعبہ تبلیغ اور شعبہ مال کے حوالہ سے اعلیٰ کارکردگی کی حامل مجالس کے زعماء کو مکرم امیر صاحب یُوکے (صدراجلاس) نے اعزازات سے نوازا۔
ایک شعری نشست
اس اجلاس کے باقاعدہ اختتام سے قبل معروف شاعر مکرم مبارک احمد صدیقی صاحب نے اپنی پُرلطف خوبصورت شاعری سے چند نظمیں اور حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ کے حوالہ سے چند ایمان افروز مشاہدات بیان کئے۔
بعدازاں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتدا میں نماز مغرب و عشاء ادا کی گئیں اور اس طرح سالانہ اجتماع کے دوسرے روز کا پروگرام بخیروخوبی اپنے اختتام کو پہنچا۔ الحمدللہ

سالانہ اجتماع کا تیسرا روز

30؍ستمبر2018ء بروز اتوار سالانہ اجتماع کا پانچواں اجلاس قریباً ساڑھے دس بجے مکرم ڈاکٹر چودھری اعجازالرحمٰن صاحب صدر مجلس انصاراللہ کی صدارت میں تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا جو مکرم فضل احمد طاہر صاحب نے کی۔ مکرم نعمان احمد راجہ صاحب نے آیات کریمہ کا ترجمہ پڑھ کر سنایا اور مکرم فیصل مبارک صاحب نے نظم پڑھی۔
خلافت احمدیہ کے حوالہ سے ذاتی مشاہدات
اس سیشن کی پہلی تقریر مکرم عابد خان صاحب پریس سیکرٹری جماعت احمدیہ کی تھی۔ آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں نہایت ایمان افروز ایسے واقعات بیان کئے جو حضورانور نے خود بیان فرمائے یا مقرر موصوف نے ذاتی طور پر مشاہدہ کئے تھے۔ یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی جس کو بہت دلچسپی اور انہماک سے حاضرین نے سنا اور استفادہ کیا۔
تندرستی ہزار نعمت ہے
اس سیشن کی دوسری تقریر مکرم ڈاکٹر عمران ملک صاحب کی تھی۔ صحت عامہ سے متعلق کی جانے والی اس تقریر کا تعلق خاص طور پر ایشین افراد میں پیدا ہونے والی بیماریوں ذیابیطس اور بلڈپریشر وغیرہ سے تھا۔ آپ نے مختصراً بتایا کہ بیماریوں کا علاج کروانے سے بہتر یہی ہے کہ عمدہ اور مناسب خوراک کے استعمال اور ورزش یا سیر وغیرہ میں باقاعدگی اختیار کرکے بیماریوں سے دُور رہنے کی کوشش کی جائے۔
مجلس انصاراللہ برطانیہ کے چند فلاحی پروگرام
اس کے بعد مکرم رفیع احمد بھٹی صاحب سیکرٹری چیریٹی واک فار پِیس نے مختلف عوامی نمائندوں اور نامور شخصیات کے منتخب پیغامات پیش کئے اور چند اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس سلائیڈز کے ذریعہ دکھائیں۔آپ نے بہت عمدگی سے اُن سکیموں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تھی جو مجلس انصاراللہ برطانیہ کے تحت دنیابھر میں جاری ہیں اور فلاحی تنظیم ہیومینٹی فرسٹ کے تعاون سے اُن کے بابرکت نتائج بھی ظاہر ہورہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال 29 اپریل2018 ء کو Windsor Great Parkمیں منعقد ہونے والی چیرٹی واک میں مجموعی حاضری 4500 سے زائد تھی جن میں دو ہزار سے زائد غیراحمدی مہمان شامل تھے۔ مہمانوں میں سکولوں کے طلباء اور اسا تذہ، فوج کے نمائندگان، سکاؤٹس اور ڈیڑھ صد سے زائد چیرٹیز کے نمائندے اور سپورٹرز شامل ہوئے۔
اس پریزنٹیشن کے بعد علمی و ورزشی مقابلہ جات میں دوم اور سوم آنے والے انصار میں مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نائب امیر یُوکے و امام مسجد فضل لندن نے انعامات تقسیم کئے۔ مقابلہ جات میں اوّل پوزیشن حاصل کرنے والے خوش نصیب انصار نے حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اجتماع کے اختتامی سیشن کے دوران انعام حاصل کرنے کی سعادت پائی۔
صدر مجلس انصاراللہ یُوکے کی تقریر
اس اجلاس کا اختتام مکرم ڈاکٹر چودھری اعجازالرحمٰن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ کی مختصر تقریر سے ہوا۔ یہ تقریر معلوماتی اور تربیتی مواد اپنے اندر سموئے ہوئے تھی۔آپ نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اپنے غلاموں سے اُس شفقت کا ذکر کیا جس کے نتیجہ میں حضورانور اجتماع کے تینوں دن حدیقۃالمہدی میں قیام فرما رہے اور مقامِ اجتماع میں تشریف لاکر پانچوں نمازیں پڑھاتے رہے۔
مکرم صدر صاحب نے بتایا کہ گزشتہ سال ہم نے انصاراللہ کا اجتماع ایک سٹیڈیم نما بڑی عمارت کرایہ پر لے کر منعقد کیا تھا لیکن بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے توجہ دلانے پر کہ اجتماع کا مقصد انصار کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی تربیت کرنا ہے اور اس کے انتظامات انصار اگر خود کریں گے تو اجتماع کے مقاصد پورے ہونے میں مدد ملے گی، چنانچہ اپنے پیارے آقا کی ہدایت کے پیش نظر امسال یہ اجتماع ایک کھلے میدان میں مارکیاں لگاکر منعقد کیا جارہا ہے۔
مکرم صدر صاحب نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے جو افضال گزشتہ سال کے دوران نازل ہوئے ہیں وہ دراصل ہماری کاوشوں کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ یہ حضورانور ایدہ اللہ کی راہنمائی اور دعاؤں کا نتیجہ ہیں جو ہمیں خداتعالیٰ کے فضل سے ہمہ وقت حاصل رہتی ہیں۔
مجلس عاملہ کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے بتایا کہ قائد صاحب تربیت نے گزشتہ ایک سال میں برطانیہ کی تمام مجالس کا دورہ کیا ہے۔ شعبہ عمومی کے تحت مجالس سے آمدہ رپورٹس امسال سو فیصد رہی ہیں جو ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
مکرم صدر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند ارشادات بھی پیش کئے جن میں تقویٰ کے ذریعہ خداتعالیٰ کو خوش کرنے کی کوشش کرنے کی نصیحت کی گئی تھی اور یہ بھی کہ وہ خدا تو لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے۔ اس ضمن میں آپ نے خصوصاً فجر کی نماز کی بروقت اور باجماعت ادائیگی کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ عمومی طور پر انصار کے مقامِ اجتماع میں قیام نہ کرنے کی وجہ سے صبح فجر کی نماز میں حاضری زیادہ نہیں رہی لیکن آج صبح جب حضورانور فجر کی نماز کی ادائیگی کے لئے تشریف لائے تو ایک نو دس سالہ بچے نے پوچھنے پر بتایا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ لندن سے نماز پڑھنے کے لئے آیا ہے۔
مکرم صدر صاحب نے کارڈف میں تعمیر کی جانے والی احمدیہ مسجد کے بارہ میں بتایا کہ پراپرٹی خریدنے کے بعد Planning Permission کا حصول بہت مشکل امر تھا۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام بڑی مشکلات حل ہوچکی ہیں اور امید ہے کہ مسجد کی باقاعدہ تعمیر آئندہ ایک دو ماہ میں شروع ہوجائے گی۔ تاہم تعمیر میں تاخیر کے سبب تعمیر کی لاگت کا جو اندازہ 2012ء میں لگایا گیا تھا اُس میں خاطرخواہ اضافہ ہوچکا ہے چنانچہ انصار کو اپنے وعدہ جات کی ادائیگی کرتے ہوئے یہ تبدیلی بھی پیش نظر رکھنی چاہئے۔
آخر میں مکرم صدر صاحب نے دعا کروائی اور یہ اجلاس اختتام کو پہنچا۔

لجنہ اماء اللہ یوکے کے سالانہ اجتماع کی اختتامی تقریب سے حضورانور کا خطاب

قریباً سوا بارہ بجے سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لجنہ کے مقام اجتماع میں تشریف لاکر اُن کے اجتماع کے اختتامی اجلاس کی صدارت فرمائی۔ یہ تقریب براہ راست انصاراللہ کی مارکی میں نیز ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیابھر میں دیکھی اور سُنی گئی۔
دعا کے ساتھ لجنہ اماء اللہ برطانیہ کا اجتماع اختتام پذیرہوا جس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ ’حدیقۃالمہدی‘ تشریف لے گئے۔ اس دوران انصارکے لئے طعام اور تیاری نماز کا وقفہ ہوا۔

اجتماع انصاراللہ کا اختتامی اجلاس

نماز ظہر و عصر کی باجماعت ادائیگی کے بعد مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع 2018ء کا اختتامی اجلاس منعقد ہوا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے کرسیٔ صدارت پر تشریف فرما ہونے کے بعد قریباً ساڑھے تین بجے اختتامی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا جو مکرم داؤد احمد صاحب نے کی۔ آیات کریمہ کا انگریزی ترجمہ مکرم Toban Emphram صاحب نے پڑھا۔ حضورانور ایدہ اللہ کی اقتدا میں انصار نے کھڑے ہوکر اپنا عہد دہرایا۔ جس کے بعد مکرم خالد محمود بٹ صاحب نے سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام میں سے چند اشعار بہت دلنشیں آواز میں پیش کئے۔ بعدازاں مکرم ڈاکٹر چودھری اعجازالرحمن صاحب صدر مجلس انصار اللہ نے مختصر رپورٹ پیش کی۔
اس کے بعد علمی اور ورزشی مقابلہ جات میں اوّل انعامات کے علاوہ مجالس کی سطح پر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوںنے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک سے انعامات حاصل کرنے کی سعادت پائی۔ امسال منعقد ہونے والے علمی مقابلہ جات میں تلاوت، حفظ قرآن، نظم، تقریر (اردو اور انگریزی)، فی البدیہہ تقریر (اردوو انگریزی)، مضمون نویسی، ٹیم کوئز، تعلیم القرآن کوئز (از تفسیر سورۃالفاتحہ) اور پیغام رسانی شامل تھے جبکہ ورزشی مقابلہ جات میں والی بال، فٹ بال، رسّہ کشی، گولہ پھینکنا (صف اوّل و صف دوم)، کلائی پکڑنا (صف اوّل و صف دوم)، وزن اٹھانا (صف اوّل و صف دوم)، صف اوّل کی 50 میٹر اور صف دوم کی 100 میٹر اور 400 میٹر کی دوڑوں کے مقابلے شامل تھے۔
مختلف شعبہ جات میں مجالس کی کارکردگی کے حوالہ سے جو انعامات دیئے گئے اُن میں گزشتہ سال کے دوران تعلیمی پیپر حل کرنے والی بہترین مجلس Cheam اور ریجن ساؤتھ کے علاوہ دعوت الی اللہ میں بہترین مجلس Balham اور بہترین ریجن نُورؔ، شعبہ مال میں بہترین مجلس Cheam اور بہترین ریجن نُورؔ، خدمت خلق کے حوالہ سے بہترین مجلس Balham شامل ہیں۔ تعلیم القرآن کے حوالہ سے بہترین کارگزاری بیت الفتوح ریجن نے پیش کی جبکہ چیریٹی واک فار پِیس کے لئے انفرادی طور پر سب سے زیادہ رقم اکٹھی کرنے پر مکرم رفیق احمد حیات صاحب (امیر یُوکے) اور Popy Appeal کے لئے چیریٹی اکٹھا کرنے پر مکرم ندیم عالم صاحب نے انعام وصول کیا۔
علم انعامی کے حوالہ سے مجموعی کارکردگی میں ریجنز میں اوّل نُورؔ ریجن، دوم فضلؔ ریجن اور سوم ساؤتھ ریجن رہا۔ اسی طرح مجموعی کارگزاری کی بنیاد پر چھوٹی مجالس میں اوّل مجلس Liverpool، دوم مجلس Wimbledon South اور سوم مجلس Bromley & Lewishm قرار پائی۔ جبکہ بڑی مجالس میں سوم مجلس Balham اور دوم مجلس Tooting قرار پائی جبکہ مجلس حلقہ مسجد (Mosque) نے اوّل آکر خصوصی سند اور علمِ انعامی حاصل کرنے کی سعادت پائی۔ اللہ تعالیٰ یہ اعزازات بابرکت فرمائے۔
اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انصار سے خطاب فرمایا جو الفضل انٹرنیشنل کے یکم فروری 2019ء اور انصارالدین کے جنوری و فروری 2019ء کے شماروں کی زینت ہے۔
خطاب کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی جس کے ساتھ سالانہ اجتماع 2018ء بخیروخوبی اختتام پذیر ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کے شاملین اور کارکنان کو جزائے خیر عطا فرمائے اور اجتماع کی برکات سے متمتّع فرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں