مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع 2003ء کے موقع پرخطاب

تبلیغ کرنا، قرآن پڑھنا، شرائع کی حکمتیں بیان کرنا، اچھی تربیت کرنا اور قوم کی دنیاوی کمزوریوں کو دور کر کے اسے ترقی کے میدان میں بڑھانا اگر یہ پانچ باتیں پیدا ہو جائیں تو انشاءاللہ ہماری ترقی کی رفتار کئی گنا بڑھ جائے گی۔
(بانی مجلس انصار اللہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات کے حوالہ سے انصار کو اہم نصائح )
مجلس انصار اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر 14ستمبر 2003ء کو
سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا
بمقام طاہر ہال بیت الفتوح مورڈن میں اختتامی خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ – اَلْحَمْدُللہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کو اپنے بچپن سے ہی اور جوانی سے ہی ہر وقت یہ فکر دامنگیر رہتی تھی کہ کس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو، آمد کے مقصد کو پورا کیا جائے اور آپ کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچایا جائے اور خلیفہ منتخب ہونے سے پہلے ہی آپ اس بارے میں بہت سوچا کرتے تھے اور دعائیں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ فروری 1911ء میں آپ کو عالم رؤیا میں دکھایا گیا کہ ایک بڑے محل کا ایک حصہ گرایا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ایک میدان میں ہزاروں پتھیرے بڑی تیزی سے اینٹیں پاتھ رہے ہیں۔ وہ اینٹیں بنانے والے جو سانچے میں مٹی ڈال کر اینٹیں بنا رہے تھے۔ آپ نے پوچھا کہ یہ محل کیا ہے اور یہ کون لوگ ہیں؟ تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ محل جماعت احمدیہ ہے اور پتھیرے فرشتے ہیں اور محل کا ایک حصہ گرایا جا رہا ہے تا بعض پرانی اینٹیں خارج کر کے بعض کچّی اینٹیں پکّی کی جائیں اور نئی اینٹوں سے محل کی توسیع کی جائے۔ نیز معلوم ہوا کہ جماعت کی ترقی کی فکر ہم کو بہت کم ہے اور فرشتے ہی اللہ تعالیٰ سے اِذن پا کر یہ کام کر رہے ہیں۔
(ماخوذ از رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ23 بحوالہ بدر 23 فروری1911ء صفحہ2)
اس خواب کی بناء پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے خلافت سے پہلے ہی ایک انجمن بنانے کا فیصلہ کیا تا کہ اس کے ذریعہ سے احمدیوں کے دلوں میں ایمان کو پختہ کیا جائے اور فریضۂ تبلیغ کو بااحسن وجوہ ادا کیا جائے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے نہ صرف خود ہی استخارہ کیا بلکہ کئی اور بزرگوں سے استخارہ کروایا۔ کئی ایک دوستوں کو اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارات ہوئیں۔(ماخوذ از من انصاری الی اللہ، انوار العلوم جلد1 صفحہ336) تب آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اجازت سے (وہ دَور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا دور تھا) ایک انجمن انصار اللہ کی بنیاد ڈالی اور اخبار بدر میں مفصّل اعلان کروایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے جو ان دنوں میں بیمار تھے بیماری کے باوجود آخر تک اس مضمون کا مطالعہ کیا جو اس مقصد کے لئے شائع کروایا گیا تھا۔اور حضرت صاحبزادہ صاحب سے فرمایا کہ میں بھی آپ کے انصار اللہ میں شامل ہوتا ہوں۔(مأخوذ از تاریخ انصار اللہ جلد اوّل صفحہ19-18)کیونکہ یہ پاک دل سے اٹھی ہوئی ایک پاک تمنا تھی اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے بھی اس کام کو سراہا اور ظاہر ہے اس لئے اس کی قدر بھی کی کیونکہ جیسا کہ بعض اور حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے آپ کے علم میں تھا کہ آئندہ جماعت کی باگ ڈور اس شخص کے ہاتھ میں آنی ہے اور اس لئے بھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی تو ہر وقت یہ خواہش ہوتی تھی، یہی کوشش ہوتی تھی کہ کون اسلام کی خدمت کے لئے آگے آئے اور میں اس کا ساتھ دوں۔ تو اپنے آپ کو انصاراللہ کی اس تنظیم میں شامل فرمایا۔ اس زمانے میں اس تنظیم نے جس کی ممبر شپ اتنی وسیع نہیں تھی جو کام کئے، وہ تو کئے لیکن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے دَور خلافت میں اس رؤیا کے تقریباً تیس سال بعد وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے چالیس سال سے اوپر کی عمر کے ممبران جماعت کے لئے ان کے سامنے کچھ مقاصد پیش کئے جو کہ قومی ترقی کے لئے، نسلوں کی تربیت کے لئے انتہائی ضروری تھے۔ ایک تنظیم کا قیام فرمایا اور اس کا نام انصار اللہ رکھا۔ اس سے پہلے خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں آ چکا تھا اور جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں جن کاموں کی طرف جماعت کو توجہ دلائی وہ پانچ کام ہیں جن کو ہر فردِ جماعت کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور عمر کے لحاظ سے سب سے زیادہ انصار اللہ کو اس پر توجہ دینی چاہئے اور وہ کام یہ ہیں۔ نمبر ایک تبلیغ کرنا۔ نمبر دو قرآن پڑھنا۔ نمبر تین شرائع کی حکمتیں بیان کرنا۔ نمبر چار اچھی تربیت کرنا۔ اور نمبر پانچ قوم کی دنیاوی کمزوریوں کو دور کر کے اسے ترقی کے میدان میں بڑھانا۔ آپ نے اس بات پر بڑا زور دیا کہ اگر یہ پانچ باتیں آپ میں پیدا ہو گئیں تو انشاء اللہ تعالیٰ ہماری ترقی کی رفتار کئی گنا بڑھ جائے گی۔ آپ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرین کا بھی یہی کام ہے جو صحابہ نے کیا اور صحابہ کے یہی پانچ اہم کام تھے اور یہی ہم نے کرنے ہیں۔(مأخوذ از خطبات محمود جلد21 صفحہ278) تبلیغ ہماری ذمہ داری ہے۔ پیغام حق پہنچانا ضروری ہے۔ اور اسلام اور احمدیت کا پیغام ہم نے بہر حال ہر صورت میں دنیا تک پہنچانا ہے اور اس کے لئے ہر طرح کی کوشش کرنی ہے۔
انصار کی عمر ایک ایسی عمر ہے جس میں تبلیغ میں بہت ساری سہولتیںپیدا ہو جاتی ہیں اور اس کی وجوہات ہیں۔اس عمر میں طبیعت میں بھی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔ جذبات پر کنٹرول بھی عموماً پیدا ہو جاتا ہے۔ خیالات بھی matureہو چکے ہوتے ہیں۔ پھر علم اور تجربہ بھی اس حد تک ہو جاتا ہے جس سے وہ خود بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور نوجوانوں کو بھی تبلیغ کے طریقے سکھا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے سب سے زیادہ انصار اللہ کو دعوت الی اللہ کے میدان میں سرگرم ہونا چاہئے۔
پھر قرآن پڑھنا ہے اس میں انصار کو خود بھی توجہ دینی چاہئے اور اپنے بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلانی چاہئے کیونکہ جب تک ہم قرآن پڑھ کر سمجھ کر اس کی تعلیم کو اپنے پر اور اپنی نسلوں پر لاگو نہیں کریں گے ہمارے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
پھر شرائع کی حکمتیں بیان کرنا ہے۔ جو احکامات ہیں ان کو آگے بیان کرنا، اس کے لئے بھی علم حاصل کرنا ضروری ہے۔
پھر تربیت ہے۔ انصار اللہ کی عمر تو ایک ایسی عمر ہے کہ اس میں آپ تو تربیت کر سکتے ہیںلیکن آپ کی تربیت کرنی مشکل ہے۔ تو اس کے لئے بڑا آسان اصول ہے کہ آپ کے ذمہ تربیت کرنے کا جو فرض لگایا گیا ہے اس کو پورا کریں۔ بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں۔ اپنی تربیت بھی ساتھ کے ساتھ ہوتی جائے گی۔
پھر قوم کی دنیوی کمزوریوں کو دور کرنا ہے۔ اس طرف بھی اگر سب توجہ دیں گے تو اقتصادی لحاظ سے بھی، جماعتی لحاظ سے بھی اور قومی لحاظ سے بھی اپنے آپ کو مضبوط بنائیں گے۔
مرکزی سطح پر بھی اور مقامی سطح پر بھی اس کے لئے ہر ذیلی تنظیم ہے۔ انصار اللہ کی بھی ذیلی تنظیم ہے۔ شوریٰ ہوتی ہے وہاں تجاویز دیں۔ اپنے تجربے سے دوسروں کو فائدہ پہنچائیں کیونکہ اقتصادی لحاظ سے مضبوط ہونابھی آجکل کے زمانے میں انتہائی ضروری ہے تا کہ پھر بے فکر ہو کر دین کی خدمت کر سکیں یا دین کی خدمت کرنے والوں کی ضروریات کا خیال رکھ سکیں۔ تو یہ ساری باتیں ایسی ہیں جن پر انصار اللہ کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب آپ اس لحاظ سے سوچیں گے تو پھر ہی آپ اللہ کے دین کے انصار بن سکتے ہیں اور اس آیت کے مصداق ٹھہریں گے کہ

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُوْنُوْا اَنْصَارَاللہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ۔قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُاللہِ فَاٰمَنَتْ طَّآئِفَۃٌمِّنْ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ وَکَفَرَتْ طَّآئِفَۃٌ۔ فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّھِمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاھِرِیْنَ۔(الصف:15)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کے انصار بن جاؤ جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کہ کون ہیں جو اللہ کی طرف رہنمائی کرنے میں میرے انصار ہوں۔ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے انصار ہیں۔ پس بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا اور ایک گروہ نے انکار کر دیا۔ پس ہم نے ان لوگوں کی جو ایمان لائے ان کے دشمنوں کے خلاف مدد کی تو وہ غالب آ گئے۔
مسیح محمدی کو مان کر، اس پر ایمان لا کر جب ہم انصار اللہ میں شامل ہو چکے ہیں تو پھر اس تعلیم پر بھی عمل کرنا ہو گا اور ان باتوں کو بھی ماننا ہو گا جن کا تقاضا اور مطالبہ ہم سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کر رہے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق دشمنوں پر ہمیں جلد غلبہ عطا ہو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’تمام کامیابی ہماری معاشرت اور آخرت کے تعاون پر ہی موقوف ہو رہی ہے۔ کیا کوئی اکیلا انسان کسی کام دین یا دنیا کو انجام دے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ کوئی کام دینی ہو یا دنیوی بغیر معاونت باہمی کے چل ہی نہیں سکتا۔ ہر ایک گروہ کہ جس کا مدّعا اور مقصد ایک ہے مثل اعضائے یک دیگر ہے۔ اور ممکن نہیں جو کوئی فعل جو متعلق غرض مشترک اس گروہ کے ہے، بغیر معاونت باہمی ان کی کے بخوبی و خوش اسلوبی ہو سکے۔ بالخصوص جس قدر جلیل القدر کام ہیں اور جن کی علت غائی کوئی فائدہ عظیمہ جمہوری ہے وہ تو بجز جمہوری اعانت کے کسی طور پر انجام پذیر ہی نہیں ہو سکتے اور صرف ایک ہی شخص ان کا متحمل ہرگز نہیں ہو سکتا اور نہ کبھی ہوا۔ انبیاء علیہم السلام جو توکّل اور تفویض اور تحمل اور مجاہدات افعال خیر میں سب سے بڑھ کر ہیں ان کو بھی بہ رعایت اسباب ظاہری

مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہ

کہنا پڑا۔ خدا نے بھی اپنے قانون تشریعی میں بہ تصدیق اپنے قانون قدرت کے

تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی(المائدۃ: 3)

کا حکم فرمایا۔(مجموعہ اشتہارات جلد1صفحہ51 اشتہار نمبر20 بعنوان’’عرض ضروری بحالت مجبوری‘‘مطبوعہ ربوہ۔ مجموعۂ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 35۔36،ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اس اقتباس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام واضح طور پر فرما رہے ہیں کہ ہماری تمام کامیابیاں چاہے وہ دنیاوی ہوں یا دینی ہوں بغیر آپس کے تعاون کے حاصل نہیں ہوسکتیں کیونکہ اکیلا انسان سارے کام نہیں کر سکتا اس لئے تمام وہ لوگ جو ایک مقصد کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں ایک گروہ کی شکل میں ہیں، ایک جماعت ہیں، ایک ہو کر آپس کے تعاون سے کام کریں گے تو تمام امور، تمام کام خوش اسلوبی سے طے پائیں گے اور کامیابیاں تمہارے قدم چومیں گی کیونکہ جس قدر بڑا کام ہو، جتنا بڑا مقصد ہو اس کے نتائج تم بغیر اکٹھے ہوئے، بغیر ایک team work کے اور ایک دوسرے کی مدد کے حاصل ہی نہیں کر سکتے۔ فرمایا کہ یہاں تک کہ انبیاء بھی جن میں برداشت بھی ہو تی ہے انہوں نے مجاہدات بھی کئے ہوتے ہیں ان کا توکل اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی بہت بڑھا ہوا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ خود ان کو اس کام کے لئے مامور کر رہا ہوتا ہے، مقرر فرما رہا ہوتا ہے پھر بھی ان کو ظاہری ذرائع کی، اسباب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے ان کو کہنا پڑتا ہے کہ کون اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے گئے ان کاموں میں میرے مددگار ہوں گے اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قانون شریعت میں قانون قدرت کے مطابق ہی نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کا حکم فرمایا ہے۔
پھر آپ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں اور خاص طور پر انصار کی عمر کے لوگوں کو اس کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کیونکہ زندگی کا ایک بڑا حصہ گزر چکا ہے اس لئے اب بہت زیادہ فکر کی ضرورت ہے۔ کوئی پتا نہیں کس وقت بلاوا آ جائے۔ آپ فرماتے ہیں کہ :
’’ایک ذرہ بدی کا بھی قابل پاداش ہے‘‘۔اگر ایک چھوٹی سے چھوٹی بدی بھی تم کرتے ہو تو اس پر بھی سزا مل سکتی ہے۔’’ وقت تھوڑا ہے اور کار عمر ناپیدا‘‘۔ بہت تھوڑا وقت رہ گیا ہے اور کوئی پتا نہیں عمر کتنی ہے اور کیا کرم کرنے ہیں۔’’ تیز قدم اٹھاؤ کہ شام نزدیک ہے۔ جو کچھ پیش کرنا ہے وہ بار بار دیکھ لو۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ رہ جائے اور زیان کاری کا موجب ہو یا سب گندی اور کھوٹی متاع ہو جو شاہی دربار میں پیش کرنے کے لائق نہ ہو‘‘۔
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد19 صفحہ26)
یعنی سب کچھ ضائع نہ ہو جائے اور یہ جو تم پیش کر رہے ہو، جو ہمارے اعمال ہیں، یہ ایسے نہ ہوں کہ وہ اس قابل ہی نہ ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کئے جا سکیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے یہ تنظیم قائم فرمائی، فرماتے ہیں کہ :
’’انصار اللہ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ وہ اپنی عمر کے آخری حصہ میں سے گزر رہے ہیں اور یہ آخری حصہ وہ ہوتا ہے جب انسان دنیا کو چھوڑ کر اگلے جہان جانے کی فکر میں ہوتا ہے۔ اور جب کوئی انسان اگلے جہان جا رہا ہو تو اس وقت اسے اپنے حساب کی صفائی کا بہت زیادہ خیال ہوتا ہے اور وہ ڈرتا ہے کہ کہیں وہ ایسی حالت میں اس دنیا سے کوچ نہ کر جائے کہ اس کا حساب گندہ ہو۔ اس کے اعمال خراب ہوں۔ اور اس کے پاس وہ زادِ راہ نہ ہو جو اگلے جہان میں کام آنے والا ہے۔ جب احمدیت کی غرض یہی ہے کہ بندہ اور خدا کا تعلق درست ہو جائے تو ایسی عمر میں اور عمر کے ایک ایسے حصے میں اس کا جس قدر احساس ایک مومن کو ہونا چاہئے وہ کسی شخص سے مخفی نہیں ہو سکتا‘‘۔
(سبیل الرشاد جلداوّل صفحہ90۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍اکتوبر 1943ء)
پھر انصار کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ:
’’ آپ کا نام انصار اللہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ جہاں تک ہو سکے آپ دین کی خدمت کی طرف توجہ کریں اور یہ توجہ مالی لحاظ سے بھی ہوتی ہے اور دینی لحاظ سے بھی ہوتی ہے۔ دینی لحاظ سے بھی آپ لوگوں کا فرض ہے کہ عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت صَرف کریں اور دین کا چرچا زیادہ سے زیادہ کریں تا کہ آپ کو دیکھ کر آپ کی اولادوں میں بھی نیکی پیدا ہو جائے‘‘۔ دین کا چرچا یہی ہے کہ تبلیغ کی طرف زیادہ توجہ دیں۔ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قرآن کریم میں یہی خوبی بیان کی گئی ہے کہ آپ اپنے اہل و عیال کو ہمیشہ نماز وغیرہ کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ یہی اصل خدمت آپ لوگوں کی ہے۔ آپ خود بھی نماز اور ذکر الٰہی کی طرف توجہ کریں اور اپنی اولادوں کو بھی نماز اور ذکر الٰہی کی طرف توجہ دلاتے رہیں۔ جب تک جماعت میں یہ روح پیدا رہے اور لوگوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فرشتوں کا تعلق قائم رہے اور اپنے اپنے درجے کے مطابق کلام الٰہی ان پر نازل ہوتا رہے اسی وقت تک جماعت زندہ رہتی ہے کیونکہ اس میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی آواز سن کر اسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ اور جب یہ چیز مٹ جاتی ہے اور لوگ خدا تعالیٰ سے بے تعلق ہو جاتے ہیں تو اس وقت قومیں بھی مرنے لگ جاتی ہیں۔ پس آپ لوگوں کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اپنی اولادوں کو بھی ذکر الٰہی کی تلقین کرتے رہنا چاہئے‘‘۔(سبیل الرشاد جلداوّل صفحہ144۔145)
پھر تہجد اور ذکر الٰہی اور مساجد کی آبادی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ:
’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کی دماغی نمائندگی انصاراللہ کرتے ہیں۔ جب کسی قوم کے دماغ، دل اور ہاتھ ٹھیک ہوں تو وہ قوم بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ پس مَیں پہلے تو انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے وہ جو یا صحابی ہیں یا کسی صحابی کے بیٹے ہیں‘‘ (اور اس وقت یہاں کافی صحابہ کی اولاد میں سے بھی ہیں) ’’یا کسی صحابی کے شاگرد ہیں۔ اس لئے جماعت میں نمازوں، دعاؤں اور تعلق باللہ کو قائم رکھنا ان کا کام ہے۔ ان کو تہجد، ذکر الٰہی اور مساجد کی آبادی میں اتنا حصہ لینا چاہئے کہ نوجوان ان کو دیکھ کر خود ہی ان باتوں کی طرف مائل ہو جائیں۔ اصل میں تو جوانی کی عمر ہی وہ زمانہ ہے جس میں تہجد، دعا اور ذکر الٰہی کی طاقت بھی ہوتی ہے اور مزہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن عام طور پر جوانی کے زمانہ میں موت اور عاقبت کا خیال کم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے نوجوان غافل ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر نوجوانی میں کسی کو یہ توفیق مل جائے تو وہ بہت ہی مبارک وجود ہوتا ہے۔ پس ایک طرف تو مَیں انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نمونے سے اپنے بچوں، اپنے ہمسایوں کے بچوں اور اپنے دوستوں کے بچوں کو زندہ کریں اور دوسری طرف میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اتنا اعلیٰ درجہ کا نمونہ قائم کریں کہ نسلاً بعد نسل ٍاسلام کی روح زندہ رہے‘‘۔
(سبیل الرشاد جلداوّل صفحہ205۔206۔ خطاب فرمودہ 18؍نومبر 1955ء)
پس آپ نے نَحْنُ اَنْصَار اللّٰہ کہہ کر اللہ تعالیٰ سے جو عہد باندھا ہے اس کوپورا کرنے کے لئے اپنی تمام استعدادوں کو بروئے کار لائیں۔ جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تعلق باللہ کو بڑھائیں۔ دعاؤں اور نمازوں کی طرف زیادہ توجہ دیں۔ تہجد میںبھی باقاعدگی اختیار کریں۔ اپنی راتوں کو زندہ کریں۔ اپنے بچوں اپنے احمدی ماحول کے بچوں کی تربیت کی فکر اپنے اندر پیدا کریں۔
بعض والدین بڑی پریشانی اور فکر کے ساتھ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارے بچے جوانی کو پہنچ کر ہمارے ہاتھوں سے نکل رہے ہیں یا نکل گئے ہیں تو جو وقت ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا اور ہماری اولاد میں سے اگر کوئی بے دینی کی طرف چل پڑا ہے تو پیار سے، محبت سے اس کو بہر حال واپس لانے کی کوشش کریں اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے اس کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ گو ایسی ایک آدھ مثال ہی ملتی ہے لیکن ہم اپنا ایک بھی بچہ کیوں ضائع ہونے دیں۔ پھر بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ ہمیشہ جماعت اور خلافت سے وابستہ رہیں کیونکہ اب خلافت کی وابستگی کے ساتھ ہی آپ کی زندگی اور بقا ہے۔ ویسے بھی آپ لوگ اپنی اولاد کے راعی ہیں اور آپ سے، ہر راعی سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا۔
(بخاری کتاب الجمعۃ باب الجمعۃ فی القری والمدن893)
پھر حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اور اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:
’’یاد رکھو تمہارا نام انصاراللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار۔ گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ازلی اور ابدی ہے۔ اس لئے تم کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ابدیت کے مظہر ہو جاؤ۔ تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لئے قائم رکھتے چلے جاؤ اور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاً بعد نسلٍ چلتا چلا جاوے۔ اور اس کے دو ذریعے ہو سکتے ہیں۔ ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے۔… اور اگر تم حقیقی انصار اللہ بن جاؤ اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لو تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی طور پر رہے گی‘‘۔
(سبیل الرشاد جلداوّل صفحہ122۔ خطاب سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ مرکزیہ۔26؍اکتوبر 1956ء )
فرمایا کہ: ’’ آپ نے انصار کا نام قبول کیا ہے تو ان( صحابہ) جیسی محبت بھی پید اکریں۔ آپ کے نام کی نسبت خدا تعالیٰ سے ہے اور خدا تعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اس لئے تمہیں بھی چاہئے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھو اور ہمیشہ دین کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ اگر خلافت قائم رہے گی تو اس کو انصار کی بھی ضرورت ہو گی، خدّام کی بھی ضرورت ہو گی اور اطفال کی بھی ضرورت ہو گی ورنہ اکیلا آدمی کوئی کام نہیں کر سکتا۔ اکیلا نبی (بھی) کوئی کام نہیں کر سکتا۔ دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حواری دئیے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کی جماعت دی ۔ اسی طرح اگر خلافت قائم رہے گی تو ضروری ہے کہ اطفال الاحمدیہ، خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ بھی قائم رہیں اور جب یہ ساری تنظیمیں قائم رہیں گی تو خلافت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی۔‘‘(سبیل الرشاد جلداوّل صفحہ129۔ خطاب سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکزیہ 26؍اکتوبر1956ء ) انشاء اللہ۔
پھر آپ نے فرمایا کہ:
’’ انصار اللہ خصوصیت کے ساتھ اپنے کام کی عمدگی سے نگرانی کریں تا کہ ہر جگہ اور ہر مقام پر ان کا کام نمایاں ہو کر لوگوں کے سامنے آ جائے اور وہ محسوس کرنے لگ جائیں کہ یہ ایک زندہ اور کام کرنے والی جماعت ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں جب تک انصار اللہ اپنی ترقی کے لئے صحیح طریق اختیار نہیں کریں گے اس وقت تک انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔… مَیں سمجھتا ہوں بڑی عمر کے لوگوں کو ضرور یہ احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے کہ وہ شباب کی عمر میں سے گزر کر اب ایک ایسے حصہ عمر میں گزر رہے ہیں جس میں دماغ تو سوچنے کے لئے موجود ہوتا ہے مگر زیادہ عمر گزرنے کے بعد ہاتھ پاؤں محنت مشقت اور کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس کی وجہ سے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے کاموں کے سرانجام کے لئے کچھ نوجوان سیکرٹری (چالیس سال کے اوپر کے مگر زیادہ عمر کے نہ ہوں) مقرر کریں جن کے ہاتھ پاؤں میں طاقت ہو اور وہ دوڑنے بھاگنے کا کام آسانی سے کر سکیں تا کہ ان کے کاموں میں سستی اور غفلت کے آثار پیدا نہ ہوں‘‘۔
آپ نے اس وقت فرمایا تھا کہ: ’’مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر چالیس سال سے پچپن سال کی عمر تک کے لوگوں پر نظر دوڑاتے تو ضرور اس عمر کے لوگوں میں ایسے لوگ مل جاتے جن کے ہاتھ پاؤں بھی ویسے ہی چلتے ہیں جیسے ان کے دماغ چلتے ہیں‘‘۔(سبیل الرشاد جلد اوّل صفحہ 90۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍اکتوبر 1943ء )
اسی لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے چالیس سال سے پچپن سال تک کے لئے بعد میں انصاراللہ کی صف دوم کا قیام فرمایا اور اس کے لئے ایک نائب صدر بھی علیحدہ ہوتا ہے۔ تو بڑی عمر کے لوگوں کو چاہئے جو چالیس سال سے پچپن سال کی عمر تک کے ہیں کہ بڑوں سے تجربہ حاصل کریں اور بڑوں کو چاہئے کہ اپنے تجربے سے اس عمر کے انصار کو تربیت دیں اور ان کی رہنمائی کریں اور برداشت کرنے کا بھی مادہ پیدا کریں۔ یہ نہیں کہ ہم بڑے ہیں تو اس لئے ہمارے پاس ہی سارے عہدے ہونے چاہئیں۔
آپ فرماتے ہیں کہ:
’’ یہ ایک الٰہی قدرت کا کرشمہ ہے کہ ایک زمانہ انسان پر ایسا آتا ہے جب اس کے جسمانی قویٰ تو نشوونما پاتے ہیں مگر اس کے دماغی قویٰ ابھی پردہ میں ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہتا کہ ان میں انحطاط واقع ہو جاتا ہے‘‘۔ ان میں گراوٹ آنی شروع ہو جاتی ہے۔ ان میں کمی ہو جانی شروع ہو جاتی ہے۔’’ انحطاط نہیں بلکہ قوائے دماغیہ ایک پردہ کے اندررہتے ہیں۔ یہ زمانہ وہ ہوتا ہے جو پچیس سال سے چالیس سال تک کی عمر کاہے۔ لیکن پھر اس کے بعد ایک زمانہ ایسا آتا ہے جب جسم میں نشوو ارتقاء کی طاقت تو نہیں رہتی مگر اسے جو کمال حاصل ہو چکا ہوتا ہے وہ قائم رہتا ہے۔… یہی وہ زمانہ ہے جس میں خدا تعالیٰ عام طور پر نبیوں کو اصلاح خلق کے لئے کھڑا کیاکرتا ہے۔ گویا یہ زمانہ بَلَغَ اَشُدَّہٗ کا زمانہ ہوتا ہے۔ طاقتیں اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہیں… پس جب میں نے انصار اللہ میں شمولیت کے لئے چالیس سال سے اوپر کی شرط رکھی تو اس کے معنی یہ تھے کہ کام کرنے کا بہترین زمانہ انہیں حاصل تھا۔‘‘ بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ ہم انصار کی عمر کو پہنچ گئے ہیں اس لئے اب ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ فرمایا کہ ’’بشرطیکہ اس عمر والوں سے فائدہ اٹھایا جاتا۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ انہوں نے اس حکمت کو نہ سمجھا اور کام انہی لوگوں کے سپرد رکھا جو زیادہ عمر کے ہیں۔ حالانکہ اگر سارے کے سارے کام انہی لوگوں کے سپرد کر دئیے جائیں جو ساٹھ سال سے اوپر اور ستّر سال کے قریب ہوں تو نتیجہ یہ ہو گا‘‘ آپ نے اس وقت فرمایا تھا کہ ’’نتیجہ یہ ہو گا کہ ان لوگوں کے پاس دماغ تو ہو گا مگر چونکہ کام کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں نہیں ہوں گے اس لئے وہ کام خراب ہو جائے گا۔ مفید، نتائج کا حامل نہیں ہو گا‘‘۔
(خطبات محمود جلد24 صفحہ247 تا249)
لیکن الحمدللہ کہ جب سے صف دوم کا اجراء ہوا ہے، ہر طرح کے انصار اپنے کاموں میں شامل ہوتے ہیں۔ عاملہ کے ممبران کے علاوہ جو بھی دوسرے انصار ہیں مجلس عاملہ کو اور انصاراللہ کی تنظیم کو کوشش کرنی چاہئے کہ ان کو بھی زیادہ سے زیادہ اپنے پروگراموں میں شامل کریں۔ اور ایسے لوگ جو ایک عمر کے بعد مایوس ہونا شروع ہو جاتے ہیں ان کو مایوسی سے نکالیں۔ ان کی مایوسی دور کریں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے کہا صف دوم کی وجہ سے انصار اللہ میں ایک نئی قوت اور ہمت پیدا ہو چکی ہے۔ اب انصار اللہ کا وہ تصور نہیں ہے کہ بس چالیس سال سے اوپر نکلے اور جو بھی پہلے کام کرتے تھے وہ ختم ہو جائیں اور آج کی کھیلوں میں آپ نے اندازہ لگا لیا کہ ان نوجوانوں کے نوجوانوں نے خدام الاحمدیہ کو بھی رسّہ کشی میں ہرا دیا۔ تو الحمدللہ یہ انصار اللہ کے لئے جہاں ایک خوشی ہے وہاں خدام الاحمدیہ کے لئے فکر کا مقام بھی ہے کہ یہ بوڑھے تو ان سے آگے نکل گئے ہیں۔ ان کاموں میں تو کم از کم ان کو آگے نکلنا چاہئے۔ بس یہی چند گزارشات تھیں۔ اب اسی بات پر مَیں ختم کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہمت سے اور اپنی ذمہ واریوں کو سمجھتے ہوئے تبلیغ کے کام کو بھی، تربیت کے کام کو بھی اور عبادت کو بھی حقیقی رنگ میں بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔ (دعا)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں