ماریشس میں احمدیت

جامعۃ المبشرین ربوہ میں 2 دسمبر 1955ء کو ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس کی رپورٹ ایک پرانی اشاعت سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3 مارچ 1997ء میں منقول ہے۔ اس تقریب میں ماریشس کے جن مہمانوں نے شرکت کی ان میں محترم محمد عظیم سلطان غوث صاحب بھی شامل تھے جو ان تین خوش قسمت احباب میں سے ایک ہیں جن کے ذریعہ ماریشس میں جماعت احمدیہ کی بنیاد پڑی۔
محترم محمد عظیم سلطان غوث صاحب نے اپنے بارے میں بتایا کہ میں 1913ء میں ایک سکول ٹیچر کے طور پر ملازم ہوا تھا۔ سکول کے ہیڈماسٹر نور محمد نوریا صاحب ایک رسالہ نکالتے تھے اور اس رسالے کے ساتھ تبادلہ میں ایک رسالہ ’’کریسنٹ‘‘ آتا تھا جس میں ایک دفعہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کا اشتہار شائع ہوا۔ میں نے قادیان خط لکھا تو مجھے ریویو کے چند پرچوں کے علاوہ ’’ازالہ اوہام ‘‘اور دو دیگر کتب موصول ہوئیں۔ جو میں نے نور محمد صاحب اور اپنے ماموں سبحان محمد رجب علی صاحب کو پڑھائیں اور ہم تینوں نے مل کر قادیان میں بیعت قبول کئے جانے کی درخواست ارسال کی جسے حضرت خلیفہ ثانیؓ نے قبول فرمایا۔ 1915ء میں ہم نے ماریشس میں مربی بھجوانے کی درخواست کی تو جولائی 1915ء میں حضرت صوفی غلام محمد صاحب کو وہاں بھجوادیا گیا۔
ماریشس کے احمد یداللہ صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے الہام’’ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ کے حوالے سے بتایا کہ حسن اتفاق ہے کہ ماریشس نہ صرف زمین کا کنارا سمجھا جاتا ہے بلکہ ماریشس کا ایک علاقہ جس کا فرانسیسی نام Le Bout du Mondeہے، اس کا مطلب ہی ’’دنیا کا کنارا‘‘ ہے۔
ایک اور مہمان مکرم عبدالرحیم صاحب سوکیا نے بیان کیا کہ میرے بڑے بھائی احمد حسین سوکیا 1927ء میں قادیان گئے تھے تو ان سے امرتسر کے ایک غیراحمدی عالم نے سوال کیا کہ’’تم کیوں احمدی ہوئے ہو؟ کیا معجزہ دیکھا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’میں خود احمدیت کا زندہ معجزہ ہوں‘‘ اوراس عالم سے پوچھا ’’ کیا آپ جانتے ہیں کہ ماریشس کہاں ہے‘‘ اُس نے کہا ’’نہیں‘‘۔ احمد حسین صاحب نے کہا ’’یہی احمدیت کا معجزہ ہے کہ ایسے ایسے ملکوں سے لوگ یہاں کھنچے چلے آ رہے ہیں جن کے محل وقوع کا بھی آپ کو علم نہیں‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں