لدّاخ سے دریافت ہونے والی تبتی انجیل

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ جنوری اور مارچ 2009ء کے شماروں میں مکرم عبدالرحمن صاحب کے قلم سے ایک معلوماتی تاریخی مضمون شامل ہے جس میں لدّاخ کے علاقہ سے دریافت ہونے والی تبّتی انجیل پر مزید تحقیق کی ضرورت بیان کی گئی ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتب میں حضرت عیسیٰؑ کے ہندوستان کی طرف آنے کے متعلق ایک روسی سیاح کے ذریعے لداخ (جو موجودہ انڈین کنٹرول والے کشمیر کا بدھ اکثریتی صوبہ ہے اور مذہبی طور پرتبت کے ماتحت ہے اور اسے تبت خورد یعنی چھوٹا تبت بھی کہا جا تا ہے) سے دریافت ہونے والی ایک انجیل کا ذکر فرمایا ہے۔
اس انجیل کا ذکر سب سے پہلے حضورؑ نے اپنی کتاب ’’ست بچن‘‘ میں فرمایا (جو 1895ء کی تصنیف ہے۔) پھر ’’راز حقیقت‘‘ (جو 1897ء کی تصنیف ہے) میں حضرت مسیحؑ کی ہجرت از طرف ہندوستا ن کا ذکر فرمایا ۔ پھر ’’کشف الغطاء‘‘ (جو 1898ء کی تصنیف ہے) میں اس انجیل کا ذکر فرمایا اور پھر اپنی کتاب’’ ایام الصلح‘‘ (جو 1898ء کی ہی تصنیف ہے) میں اس انجیل کے متعلق فرماتے ہیں :
’’حال میں جو تبت سے ایک انجیل کسی غار میں سے برآمد ہوئی ہے جس کو ایک روسی سیاح نے کمال جدوجہد سے چھپواکر شائع کردیا ہے جس کے شائع کرنے سے پادری صاحبان بہت ناراض پائے جاتے ہیں۔ یہ واقعہ بھی کشمیر کی قبر کے واقعہ پر ایک گواہ ہے۔ یہ انجیل پادریوں کی انجیلوں سے مضامین میں بہت مختلف اور موجودہ عقیدہ کے بہت برخلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں اس کو شائع ہونے سے روکا گیا ہے۔ مگر ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ترجمہ کر کے اس کو شائع کردیں‘‘۔ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 356 حاشیہ)
یہ انجیل جس کا حضور علیہ السلام نے اپنی کتب میں ذکر فرمایا ہے یہ ایک روسی سیاح نکولس ناٹووچ (Nicolas Notovitch) کی کتاب ہے ۔جس کا انگریزی میں ترجمہ The life of Saint Issa اور The Unknown Life of Jesus Christ کے نام سے چھپا۔
نکولس ناٹوچ لکھتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہندوستان کی طرف آئے لیکن واقعہ صلیب سے پہلے تیرہ چودہ سال کی عمر میں آئے اور پھر انتیس سال کی عمر میں واپس فلسطین چلے گئے وہاں تین سال تبلیغ کی اور صلیب پر فوت ہوگئے۔
نکولس ناٹووچ ایک امیر بااثر روسی ’’یہودی‘‘ تھا جو 1858ء میں Crimeaمیں پیدا ہوا۔ اگرچہ اس کے والدین یہودی تھے لیکن اس نے اور اس کے بھائیOsip Notovitch نے نوجوانی میں یونانی آرتھوڈوکس عیسائیت قبول کرلی تھی۔ ناٹووچ نے ایک صحافی کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ بعد میں اس نے بارہ کتابیں لکھیں جن کا مرکزی نقطہ روس کی سیاست تھا۔ اس کی سیاسی کتابیں یورپ کے اعلیٰ سیاسی طبقے میں پڑھی جاتی تھیں کیونکہ وہ فرانسیسی اور روسی دونوں زبانوں پر دسترس رکھتا تھا اور دونوں زبانوں میں لکھتا تھا۔ اس کی کتاب Pravda Obevrejah نے اسے پوری دنیا کے یہودیوں میں تنقید کا نشانہ بنوایا (کتاب کو یہود مخالف کہا گیا) لیکن ابتداء ً وہ عیسائیوں کی طرف سے تعریف کیا گیا جو زیادہ دیر تک نہ رہی۔
(Abubakr ben Ismael salahuddin, Saving the Savior, United States. 2001. Page.120-121 )
نکولس اور اس کے بھائی کے یہودیت سے عیسائیت میں آنے کے متعلقHolger Kersten لکھتا ہے: ’’ناٹووچ برادران ان لوگوں میں سے تھے جو زارالیگزینڈرسوئم کی یہود مخالف پالیسی کے ہاتھوں مجبور تھے۔اور اس بات نے (نکولس کے بھائی)Osip کونوجوانی میں روسی آرتھوڈوکس چرچ کی طرف مائل کیا۔ نکولس نے بھی لازماً یہی قدم اٹھایا ہوگا کیونکہ وہ علی الاعلان روسی آرتھو ڈوکس چرچ کے ساتھ اپنی وابستگی ایک فرنچ اخبار’’La Paix‘‘میں تسلیم کر چکا تھا۔‘‘
(Jesus lived in India. published by Penguin Books New Delhi India,2001, Page 13)
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ نکولس اور اس کے بھائی نے خاص سیاسی حالات کے تحت یہودیت چھوڑ کر عیسائیت قبول کی تھی۔
ناٹووچ 1887ء میں ہندوستان کی طرف آیا۔ کشمیر کی سیاحت کے دوران لداخ کے علاقہ میں اس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات بعض لاموں نے بتائے۔ اسی سفر کے دوران ہمس (Hemis) کے مقام کے قریب اس کی گھوڑے سے گر کر ٹانگ ٹوٹ گئی۔ ہمس لداخ کے دارالخلافہ لیہ (Leh) کے قریب ایک قصبہ ہے ۔ لوگ اس کو اٹھا کرہمس کے بدھ مندر میں لے آئے۔ وہاں کچھ ماہ تک بدھ لامے اس کا علاج کرتے رہے اور ساتھ وہاں موجود بعض تبتی زبان کے مخطوطات بھی اسے پڑھ کر سناتے رہے جن میں حضرت عیسیٰؑ کے ہندوستان کشمیر اور لداخ کی طرف آنے کا ذکر تھا۔ ناٹووچ نے وہ حالات اپنے مترجم کی مدد سے نوٹ کئے اور ان کو ساتھ لے کر روس چلاگیا اور وہاں ان کو چھپوانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا پھر ان کو روم لے جا کر چھپوانے کی کوشش بھی ناکام ہوئی۔ بالآخر 1890ء میں پیرس سے فرانسیسی زبان میں یہ حالات پہلی بار La Vie Inconue de Saint Issa کے نام سے چھپ گئے۔ 1895ء میں لنڈن سے The Unknown life of Christ کے نام سے چھپے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت اقدس میں لنڈن سے جو نسخہ آیا تھا وہ شاید یہ 1895ء والا ایڈیشن ہی تھا ۔ اس کے بعد اس کتاب کے جرمن، سپینش اور اٹالین میں بھی تراجم ہوئے۔ 1899ء میں ’’یسوع مسیح کی نامعلوم زندگی‘‘ کے نام سے اس کا اردو ترجمہ بھی مطبع ست دھرم پرچارک جالندھر انڈیا سے چھپا ۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد نکولس پر یہ تنقید کی جا نے لگی کہ لداخ کی کسی بدھ لائبریری میں اس قسم کے مخطوطات موجود نہیں ہیں۔ اس پر نکولس نے ان لوگوں کو لدّاخ لے جاکر یہ مخطوطات دکھانے کی پیشکش بھی کی۔
لدّاخ میں حضرت عیسیٰ کے حالات زندگی بدھوں کی کتابوں میں موجود ہونے کاایک اور ثبوت بھی ہے کہ نکولس سے بہت عرصہ پہلے 1812ء میں میر عزت اللہ کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے وسطی ایشیا میں سیاسی اور فوجی معلومات حاصل کرنے کے لئے بھیجا ۔اس سفر کے دوران وہ لداخ بھی گیا ۔واپس آنے کے بعد اس نے اپنے سفر کے حالات فارسی میں شائع کروائے جنہیں بعد میں ایک انگریز Henderson نے انگریزی میں ترجمہ کر کے شائع کروایا ۔اپنے سفرنامہ میں وہ بدھ مندروں میں حضرت عیسیٰ کے بت یا تصویروں کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’وہ اپنے مندروں میں مراقبے کے لئے گزرے ہوئے بزرگوں، انبیاء اور لاموں کے مجسمے رکھتے ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض تصویریں یا مجسمے ایک خاص نبی کے ہیں جو آسمانوں میں رہتا ہے۔ جو کہ لگتا ہے کہ یسوع مسیح کی طرف ہی اشارہ ہے ۔مجھے ایک عمر رسیدہ شخص نے بتایا کہ اسے کامل یقین ہے کہ بائبل کے بعض حصے تبتیوں پر نازل ہوئے تھے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان کے اصل مسودات اس زبان میں تھے جو اب سمجھی نہیں جاتی ۔‘‘
(Travels in centeral Asia, Foreign Dept. Press ,Calcutta ,1872.p.13-14)
نکولس ناٹووچ سے قریباًتینتیس سال قبل ایک انگریز سیاح عورت Mrs. Harvey نے بھی اپنی کتاب The Adventures of A lady in Tartary, Thibet, China and Kashmir (مطبوعہ 1854ئ) میں اس علاقہ میں ایسے مخطوطات کا ذکر کیا ہے جن میں حضرت عیسیٰ ؑ کے حالات ملتے ہیں۔ اسی طرح نکولس کے بعد ایک اور انگریز سیاح عورت Henrietta Merrick نے 1921ء میں ہمس جاکر ان مخطوطات کو دیکھااور اپنے سفرنامہ میں اس کا ذکر کیا ہے۔
1922ء میں سوامی ابی دانندا (Swami Abhedananda) نے ہمس جا کر ان مخطوطات کو دیکھا اور ان پر ایک کتاب بنگالی زبان میں لکھی۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے اپنی کتاب ’’تحقیق جدید متعلق قبر مسیح ‘‘میں خان بہادر غلام محمد صاحب گلگتی کے نام ان کے ایک دوست کا خط شامل کیا ہے جنہوں نے ان تبتی سکرولز پر تحقیق کی تھی اور ان سکرولز کو ہمس میں جاکر نہ صرف دیکھا بلکہ ان کی ایک نقل بھی ہمراہ لائے جو کہیں گم ہوگئی ۔یہ خط انہوں نے 1926 ء میں لکھا ہے۔
1928ء میں پروفیسر Nicolai Roerich اپنی کتا ب The Heart of the Asiaمیں وسطی ایشیا کے مختلف ممالک میں مخطوطات اور حضرت عیسیٰؑ کے متعلق پھیلی روایات کا ذکر کرتا ہے۔ اپنی کتاب میں وہ ہمس کے بدھ مندرمیں جانے اور وہاں حضرت عیسیٰؑ کی زندگی کے متعلق بدھ مخطوطات دیکھنے کا بھی ذکر کرتا ہے ۔ اس کے بعد بھی مختلف سیاحوں کا ان مخطوطات کو دیکھنے کا ریکارڈ ملتا ہے جن کا مختصر تذکرہ ویب سائٹ www.tombofjesus.com پر موجود ہے۔ بلکہ 1974ء تک سیاحوں کے ان مخطوطات کو دیکھنے کا ریکارڈ ملتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اب یہ مخطوطات ہمس کے بدھ مندر سے غائب کر د یئے گئے ہیں یا چھپا دیئے گئے ہیں۔ کشمیر کے آثار قدیمہ کے محکمہ سے متعلقہ فداحسنین صاحب نے متعدد بار ان مخطوطات کی تلاش میں لداخ کا سفر کیا مگر وہ ناکام رہے۔ البتہ اُنہیں نکولس کے اس علاقہ میں آنے کے بارہ میں مزید معلومات ملیں جن میں Leh میں قائم Morvian Misson سے ان کو ایک ڈاکٹر کی ڈائری میں سے نکولس کے آنے کے بارہ میں اور ہمس جانے کے بارہ میں مختصر حالات معلوم ہوئے۔ اس ڈائری کے متعلقہ صفحوں کا فوٹو اور اس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب A Search for Historical Jesus میں تفصیل سے کیا ہے۔ لیکن اب Morvian Mission کے ریکارڈ سے یہ ڈائری بھی گم کر دی گئی ہے تاہم اس کے متعلقہ صفحات کا فوٹو فدا حسنین صاحب کی کتاب اوربعض دیگر یورپی محققوں کی کتب میں محفوظ ہے۔
حالیہ برسوں میں کیلیفورنیا امریکہ کے معاشرتی علوم کے ایک ماہر Dr.Jeff Salz نے ہمس کے ان مخطوطات کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور ایک دستاویزی فلم Jesus in Himalaya کے نام سے تیار کی جو Discovery Channel پر دکھائی جا چکی ہے۔ اس تلاش میں Dr.Jeff کو ہمس کے یہ تبتی مخطوطات تو نہ مل سکے کیونکہ ہمس کے گونپے کے لاموں نے ان کے بارہ میں اپنی لاعلمی کا اظہارکیا اور بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ سکرولز اس گونپے کے Dark store room میں ہوں جسے کھولنے کا اختیار صرف دلائی لاما کو ہے تاہم لاموں نے اسے یہ ضرور بتایا کہ انہوں نے بھی حضرت عیسیٰؑ کے اس علاقہ میں آنے کے بارہ میں سن رکھا ہے۔ Dr. Jeff کو لداخ کے دیگر علاقوں سے بھی لوگوں کی زبانی روایات سے حضرت عیسیٰؑ کے اس علاقہ میں آنے کا پتہ چلا ۔
جواہر لال نہرو اپنی کتاب Glimpses of the World History (تاریخِ عالم پر ایک نظر) میں لکھتے ہیں:
’’تمام وسطی ایشیا میں یعنی کشمیر، لداخ، تبت بلکہ اس سے بھی آگے تک لوگوں کا یہ کامل یقین ہے کہ حضرت عیسیٰ یہاں آئے تھے‘‘ ۔
(جلد اول ۔ مترجم طاہر منصور فاروقی۔ اشاعت 1995ء۔ صفحہ138)
نکولس کی کتاب The Unknown Life of Jesus Christ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ایک حصے میں نکولس کے اپنے سفر کا احوال ہے اور دوسرے حصہ میں بدھ دستاویزات سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی والے حصہ کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ اس حصہ کے چودہ ابواب میں تفصیل سے حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش اور زندگی کے ہر پہلو کا ذکر ہے۔ ہجرت کے واقعات میں سندھ، ہندوستان، ایران اور شام کے علاقوں میں آمد اور مذہبی مباحث کا ذکر ہے۔ یہودیوں کی ایذاء رسانیوں اور سازشوں کے ذکر کے بعد 33 سال کی عمر میں صلیب دئے جانے کا ذکر ہے۔ اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ تیسرے دن یہودیہ کے حاکم نے مسیح کی لاش کو نکلوا کر کسی خفیہ جگہ دفن کروا دیا ۔اس طرح اس انجیل کے مطابق مسیح کے آسمان پر جانے کا عقیدہ بے بنیاد ہے۔
نکولس نے جو ترجمہ ان تبتی سکرولز کا پیش کیا ہے، اُس پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ اُس کے مطابق مسیحؑ بچپن میں ہندوستان آئے یہاں تعلیم پائی اور پھر 29 سال کی عمر میں واپس جا کر فلسطین میں تین سال تبلیغ کی اور صلیب پر وفات پاگئے۔ لیکن وہ خود اپنی کتاب میں تسلیم کرتا ہے کہ بعض واقعات مسیحؑ کے صلیب کے بعد بت پرست اور آتش پرست اقوام میں تبلیغ کے بھی ملے ہیں۔ تاہم یہ واقعات نکولس کے بقول بے ربط تھے کیونکہ عیسائی عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح صلیب پر فوت ہو گئے تھے۔ تاہم پھر بھی حقائق سے مجبور ہو کر اس نے یہ اقرار کر لیا کہ حضرت مسیحؑ کے واقعہ صلیب کے بعد بھی اُن کی وہاں موجودگی کے شواہد ملتے ہیں ۔ وہ لکھتا ہے:
’’یسوع کے متعلق تفصیلات جو وہاں مسودات میں ہیں وہ بے ربط اور بایں ہمہ دوسرے ایسے واقعات کے ساتھ تضاد رکھتی ہیں جن کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں بنتا۔ مسودات ہمیں بتاتے ہیں ،سب سے پہلے جس سال یسوع کی وفات ہوئی اسی سال یہودیہ سے آئے ہوئے تاجروں کی زبانی کہ ایک نیک آدمی جس کا نام عیسیٰ تھا جو ایک اسرائیلی تھا خدا کا برگزیدہ بندہ ہونے کی وجہ سے قاضیوں کے دو دفعہ بری قرار دیئے جانے کے باوجود بالآخر ایک مشرک گورنر پیلاطوس کے حکم سے تختہ دار پر لٹکایا گیا، جو خوفزدہ تھا کہ عیسیٰ اپنی اچھی شہرت کی وجہ سے اسرائیل کی بادشاہت دوبارہ قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے اور پھر اس ملک کے حکمرانوں کو ملک سے باہر نہ نکال دے۔
بعد ازاں (یعنی اس وفات کے واقعہ کے بعد) آتش پرستوں اور بت پرستوں کے درمیان یسوع کی تبلیغ کے بے ربط واقعات کا بیان ملتا ہے۔(نکولس کے بقول) یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے یہ واقعات عیسیٰ کی وفات کے بعد پہلے سال میں لکھے گئے ہوں جس کی زندگی کے بارہ میں ایک زندہ اور بڑھتا ہوا جوش دکھایا گیا ہے۔‘‘
(The Unknown Life of Jesus Christ, copyrite by, G. W. Dillaingham, 1890. P.227-228)
کیونکہ نکولس عیسائی تھا اور صلیب کے بعد والے واقعات کو اس نے بڑی مہارت سے اپنے عقیدہ کے مطابق کرنے کے لئے صلیب سے پہلے کا لکھ دیا۔ نکولس نہ صرف عیسائی تھا بلکہ اس سے قبل وہ یہودی تھااور بعض سیاسی حالات کی وجہ سے عیسائیت میں آیا تھا اور اس کے اس ترجمے میں یہودی جھلک زیادہ نظر آتی ہے کہ وہ بیان کرتا ہے کہ یہودی قاضیوں نے تو مسیح کو بری کر دیا تھا لیکن پیلاطوس نے زبردستی مسیح کو صلیب دیدی اورمسیح کی لاش کو نکال کر کسی اور جگہ دفن کروا دیا ۔اس کے ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ یہود کو مسیح کے صلیب دلوانے کے الزام سے بچانا چاہتا ہے اور عام عیسائی عقیدہ کے برخلاف یہ عقیدہ پیش کرتا ہے کہ مسیح آسمان پر جانے کی بجائے زمین میں دفن ہیں۔ نیز اناجیل میں کیونکہ مسیح کے بچپن کا زیادہ تذکرہ نہیں ہے اور تیرہ چودہ سال کے بعد دوبارہ تیس سال کی عمر میں مسیح اناجیل میں ظاہر ہوتے ہیں اور نکولس کے پاس یہ اچھا موقع آگیا کہ ثابت کر دے کہ یہ بچپن کا عرصہ مسیح نے ہندوستان میں گزارا۔ اپنی خودساختہ ترتیب کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے: ’’میں نے عیسیٰ کی زندگی کے متعلق ملنے والے بے ربط دستاویزات کو بلحاظِ زمانہ ترتیب دیا ہے اور ان کے باہمی ربط کے لیے جو اس سے پہلے مفقود تھا، سخت محنت کی ہے۔‘‘
نکولس کی بیان کردہ معلومات کے حوالہ سے جناب پیام شاہجہانپوری صاحب لکھتے ہیں:
’’ایک سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ حضرت مسیحؑ نے واقعہ صلیب سے بعد جن دو اقوام میں تبلیغ کی وہ کہاں آباد تھیں ؟مسٹر نوٹو وچ کی کتاب میں ان اقوام کے لیے دو لفظ استعمال کئے گئے ہیں ایک “Guebers” یعنی آتش پرست جو دراصل فارسی لفظ ’’گبر‘‘ کی انگریزی شکل ہے۔ دوسرا لفظ “Pagans” ہے جس کے معنی ہیں’’غیر اہلِ کتاب‘‘یعنی ایسے لوگ جو اہلِ کتاب نہ ہوں بلکہ مظاہر پرست، مشرک اوربت پرست ہوں۔ سب جانتے ہیں کہ آتش پرست جنہیں پارسی بھی کہتے ہیں ایران میں آباد تھے۔گویا حضرت مسیحؑ ؑواقعہ صلیب کے بعد ابتدائی برسوں میں ایران تشریف لے گئے تھے۔اور وہاں آباد آتش پرستوں کو تبلیغ کی تھی۔ دوسری قوم جسے حضرت مسیحؑ نے صلیب کے بعد تبلیغ کی وہ مظاہر پرست،مشرک اوربت پرست تھی۔ یہ لوگ ایران سے متصل ملک ہندوستان میں آباد تھے جن کے بتوں کی تعداد لاکھوں بلکہ کروڑوں تک بیان کی جاتی ہے۔ گویا دنیا کی سب سے بڑی بت پرست قوم ہندوستان میں آباد تھی۔ بدھ لاماؤں کی دستاویز اورخود مسٹر نوٹووچ کی کتاب کی رو سے حضرت مسیحؑ ایران سے ہندوستان تشریف لائے اور یہاں آباد بت پرستوں میں تبلیغ کی جو دراصل ایران کے آتش پرستوں کی طرح بنی اسرائیل تھے مگر ہندوستان میں آباد بت پرستوں کے زیر اثربت پرست بن گئے تھے۔یہ وہی لوگ تھے جنہیں حضرت مسیحؑ نے اڑیسہ، بنارس اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں دین کی دعوت دی تھی۔ پس ان شواہد سے ثابت ہوجاتا ہے کہ حضرت مسیح ؑ ابتدائی عمر میں ایران ،ہندوستان اور چین تشریف نہیں لائے بلکہ واقعہ صلیب کے بعد آپ ؑ نے یہ سفر اختیار کیا اور ان اطراف میں یہی ان کا پہلا اور آخری سفر تھا‘‘۔
(مسیح کی گمشدہ زندگی۔ادارہ تاریخ و تحقیق۔ این ۳۲ عوامی فلیٹس۔ ریواز گارڈن۔ لاہور۔ سنِ اشاعت1992۔صفحہ 130۔131)
محترم شیخ عبدالقادر صاحب محقق عیسائیت اس کے متعلق بیان کرتے ہیں:
’’ہندوستان اور تبت میں دو قسم کی روایات مشہور تھیں۔ ایک تو یہ کہ حضرت مسیحؑ بچپن میں یہاں آئے اور دوسری یہ کہ واقعہ صلیب کے بعد یہاں آئے۔ بھوشیہ پران (جو ہندوؤں کی ایک مقدس کتاب ہے) میں حضرت مسیحؑ کا مکالمہ راجہ شالباہن سے درج ہے ۔اس میں بچپن میں آمد کا مطلقاً ذکر نہیں بلکہ یہ لکھا ہے کہ نبوت کے بعد جب دشمنوں نے عرصہ حیات تنگ کردیاتو عیسیٰ مسیح اپنے وطن سے ہجرت کرکے ہمالیہ دیش میں آگئے۔
بھوشیہ پران میں چونکہ حضرت مسیحؑ کا اپنا مکالمہ درج ہے جو کہ (کشمیر کے ایک راجہ) راجہ شالباہن سے ہوا۔ آپ نے اس میں یہ ذکر نہیں کیا کہ میں یہاں بچپن میں آیا تھا بلکہ بعثت کے بعد ہجرت کا ذکر کیا ہے اس لیے بچپن میں آمد والی روایت صحیح نہیں ہو سکتی‘‘۔
(تبت کی خانقاہوں میں حضرت مسیحؑ کی نامعلوم زندگی کے حالات۔ ماہنامہ ’’الفرقان ‘‘ ربوہ مارچ 1963ئ)
بہرحال ناٹووچ نے ان تبتی مخطوطات کا ترجمہ خالصۃً محققانہ ذہن سے نہیں کیا بلکہ اپنے عقیدہ کے مطابق کیا ہے۔ یہ دعویٰ کہ مخطوطات میں صلیب سے پہلے کے واقعات بھی ملتے ہیں، دراصل یہ بدھ لوگوں کا افتراء ہے کہ جب اُن کے ہاں حضرت مسیحؑ کے ہندوستان، کشمیر اور تبت آنے کے واقعات مشہور تھے تو انہوں نے ان کو بچپن کے واقعات بنا دیا تا کہ یہ ثابت کیا جائے کہ حضرت مسیحؑ ان سے تعلیم حاصل کرنے آئے تھے کیونکہ بدھ علماء یہ تسلیم نہیں کر سکتے تھے کہ حضرت بدھ کے بعد کوئی مصلح باہر سے اس خطے میں آئے اور اُن کو تعلیم دے ۔ احساسِ برتری کے باعث بدھ لاماؤں نے مسیحؑ کو بدھ مذہب کا ایک شاگرد ظاہر کیا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان مخطوطات کا جب تبتی میں ترجمہ ہوا تو اس وقت کے بدھ علماء نے حضرت مسیحؑ کے واقعات میں ردّوبدل کر دیا ہو ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی کتب میں حضرت مسیحؑ کے صلیب سے پہلے آنے کے نظرئیے کی تردید کی ہے۔ چنانچہ فرمایا:
’’اور بدھ مذہب کی کتابوں میں جو اُن کے (حضرت مسیح) ان ملکوں میں آنے کا ذکر لکھا گیا ہے اس کا وہ سبب نہیں جو لانبے بیان کرتے ہیں یعنی یہ کہ انہوں نے گوتم بدھ کی تعلیم استفادہ کے طور پر پائی تھی۔ ایسا کہنا ایک شرارت ہے۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کوواقعہ صلیب سے نجات بخشی تو انہوں نے بعد اس کے اُس ملک میںرہنا قرین مصلحت نہ سمجھا اور جس طرح قریش کے انتہائی درجہ ظلم کے وقت یعنی جبکہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے قتل کا ارادہ کیا تھا آنحضرت ﷺنے اپنے ملک سے ہجرت فرمائی تھی اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہودیوں کے انتہائی ظلم کے وقت یعنی قتل کے ارادہ کے وقت ہجرت فرمائی اور چونکہ بنی اسرائیل بخت النصر کے حادثہ میں متفرق ہو کر بلاد ہند، کشمیر، تبت، ہزارااور چین کی طرف چلے آئے تھے اس لئے حضرت مسیح علیہ السلام نے ان ہی ملکوں کی طرف ہجرت کرنا ضروری سمجھا۔ ‘‘
(راز حقیقت ۔روحانی خزائن جلد 14۔صفحہ162بقیہ حاشیہ)
اپنی کتاب’’ مسیح ہندستان میں‘‘ بھی حضورؑ نے اس مضمون کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے اور ایسے محققین کی جو پہلی صدی عیسوی میں بدھ ازم کو مسیح کے ذریعے ہندوستان سے فلسطین لے کر جاتے ہیں یا اس بارہ میں پریشان ہیں کہ بدھ کی تعلیم مسیحیت کی تعلیم میں کیسے شامل ہو گئی ،راہنمائی فرمائی ہے کہ بدھ علیہ السلام کی تعلیم میں ان کے بعد اس خطے یعنی ہندوستان میں متیا نامی ایک ریفارمر کے آنے کی پیشگوئی تھی۔ چنانچہ جب مسیح علیہ السلام واقعہ صلیب کے بعد اس خطے میں آئے تو بدھ لوگوں نے ان کو ایک بدھ کے روپ میں قبول کرلیا اور اس وقت تک بدھ مت کی تعلیم تحریری شکل میں نہیں آئی تھی۔ بدھ مت کی تعلیم تحریری شکل میں مسیح کے بعد آئی اور اس طرح مسیح کے واقعات اور تعلیم میں سے بعض حصوں کو بدھ کے واقعات اور تعلیم میں شامل کر دیا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطابق بدھ مت کو ہندوستان سے فلسطین لے کر جانے کی بجائے مسیح کے قدموں کو کشمیر، تبت اور لداخ میں تلاش کروتو واضح ہو جائے گا کہ مسیح ان ملکوں میں آکر ان علاقوں کے مذاہب پر اثرانداز ہوئے، نہ کہ ان مذاہب نے مسیحیت کو متاثر کیا۔
بہرحال ان سکرولز کی تلاش کرنی چاہیے تاکہ مزید حقائق سامنے آسکیں کیونکہ نکولس کا ترجمہ قابلِ اعتبار نہیں۔ جب تک یہ مخطوطات اپنی اصل شکل میں سامنے نہیں آتے اس وقت تک حتمی طور پر ان کے بارہ میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ بدھ مخطوطات صرف ہمس کے گونپے میں ہی نہ تھے بلکہ اصل مخطوطات پالی زبان میں تھے جولاسہ(تبت )میں تھے جن کی نقول کرکے مختلف بدھ مندروںمیں رکھوائی گئی تھیںجس کا ذکر خود نکولس اپنی کتاب میں اس علاقہ کے لاموں کے حوالہ سے کرتا ہے ۔ اس لئے لداخ ،تبت اور نیپال کے قدیم اور بڑے بدھ مندروں کی لائبریریوں میں ان کوتلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز بعض قدیم گونپوں میں کتابیں دفن کرنے کا بھی رواج تھا۔ ان گونپوں کا پتہ چلا کر پرانی کتابوں کو نکالنے کی کوشش کی جائے تو عین ممکن ہے کہ کہیں سے یہ سکرولز یا ان سے ملتے جلتے دوسرے کچھ شواہد مل جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی زندگی میں یہ کام کروانا چاہتے تھے اور حضور ؑ نے ایک وفداس تحقیق کے لئے تیار کرکے اُن کو پالی زبان کی بدھ کتب دیکھنے کا ارشاد فرمایا اور دیگر نصائح بھی فرمائیں۔ اس کا ذکر کتاب ’’رازحقیقت‘‘ میں موجود ہے۔ لیکن یہ قافلہ بعض وجوہات کی بنا پر نہ جاسکا اور ابھی تحقیق کا یہ میدان خالی ہے۔ یعنی کشمیر، سوات، لداخ، تبت، بنارس اور نیپال میں جاکر پرانے بدھ گونپے دیکھے جائیں اور پالی زبان کی قدیم کتب کو دیکھا جائے نیز قدیم تبتی کتب کو بھی دیکھا جائے ۔ اس کام کے لیے پالی اور تبتی زبان کے ماہرین کی بھی ضرورت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں