لائبیریا میں اشاعت اسلام کے دوران تائید الٰہی کے نظارے

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28اکتوبر 2011ء میں مکرم محمد اکرم باجوہ صاحب سابق امیر و مشنری انچارج لائبیریا کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں لائبیریا میں اشاعت اسلام کے دوران تائیداتِ الٰہی کے بعض واقعات بیان کئے گئے ہیں ۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار نے بطور مبلغ 27؍مئی 1988ء کو سرزمین لائبیریا پر قدم رکھاتو خاکسار کی تقرری Voin Jama میں ہوئی جو منروویا سے 250 میل دُور تھا۔ یہ فاصلہ عموماً 7گھنٹے میں طے ہوتا ہے لیکن برسات اور بارشوں سے اُس وقت راستے بہت خراب تھے۔ لہٰذا یہ سفر 60 گھنٹے میں طے کیا۔ غیرآباد جنگل سے گزر کر تیسرے دن ایک شہر پہنچنے پر کھانا میسر ہوا۔ اجنبی ماحول میں خداتعالیٰ کا ہی آسرا تھا۔چنانچہ کرائے پر ایک گھر لے کر مرکز قائم کیا۔ ایک دن ایک جرنلسٹ وہاں آیا تو اُس کے ذریعے مقامی ریڈیو سٹیشن پر یہ اعلان کروادیا کہ جو مسلمان قرآن پڑھنا چاہتا ہو احمدی مبلغ اسے چھ ماہ میں مکمل قرآن پڑھا سکتاہے۔
یہ اعلان سن کر ایک صاحب موسیٰ ابراہیم صاحب مشن ہاؤس آئے۔ تبلیغی گفتگو ہونے لگی اور تین ماہ بعد انہوں نے احمدیت قبول کرلی اور پھر اپنی ایک رؤیا کا ذکر کیا جو میرے Voin Jama آنے سے قبل انہوں نے دیکھی تھی۔ اس کے بعد مزید بیعتیں ہونے لگیں ۔
کچھ عرصہ بعد مجھے ملیریا اور ٹائیفائیڈ ہو گیا۔ اُن دنوں خواب میں دیکھا کہ ’میرے جسم کا ایک حصہ کاٹ دیا گیا‘۔ مَیں نے اس کی تعبیر یہ سمجھی کہ میرا بیٹا بعمر 5 سال شاید وفات پاگیا ہے۔ اس خیال سے مرغ بسمل کی سی تڑپ پیدا ہوئی۔ بے وطنی کی حالت اور اکیلے پن میں اضطراری کیفیت پیدا ہوئی تو وضو کرکے نفل ادا کرنے لگ گیا۔ ابھی سورۃ فاتحہ پڑھ رہا تھا کہ دل میں یہ خیال ڈالا گیا کہ جو تُو سمجھتا ہے وہ نہیں ۔ خواب کی تعبیر بعد میں سمجھ آئی جب بیماری کی وجہ سے 26 پونڈ وزن کم ہوگیا۔
تندرست ہونے کے بعد دو سیمینارز کا انعقاد کیا جن میں عیسائی اور مسلمان مدعو تھے۔ ان سے احمدیت کا مؤثر تعارف ہوا۔ چنانچہ قریبی گاؤں کے ایک دوست مکرم محمد کائتو (Kaito) صاحب نے تسلّی کرنے کے بعد بیعت کرلی۔ جب وہ واپس اپنے گاؤں گئے تو اُن کے گاؤں میں مخالفت کا طوفان اٹھا۔ لیکن اسی رات اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ اُن کو انجام بخیر ہونے کی بشارت دی۔ چنانچہ یہ خواب سُن کر اُن کی بیوی نے کہا کہ ہم گاؤں کے لوگوں کو چھوڑ دیں گے لیکن احمدیت کو نہیں چھوڑیں گے۔ وہ اخلاص اور احمدیت کی محبت میں مخمور تھے اور تبلیغ کے میدان میں بہت مددگار ثابت ہوئے۔
1989ء میں ایک گاؤں میں تبلیغ کے لئے مَیں نے ایک زیرتبلیغ نوجوان Dr. Momdu Kroma کو ترجمانی کے لئے ساتھ چلنے کو کہا۔ جس صبح روانہ ہونا تھا، اس سے پہلی رات انہوں نے خواب دیکھا کہ تقریباً 2 ہزار کے مجمع میں وہ تقریر کررہے ہیں اور احمدیت کی روحانی غذا کے حق میں دلائل دے رہے ہیں ۔ اس خواب کے پورا ہونے پر اُن کا سارا خاندان احمدی ہوگیا۔
1989ء میں اپنے علاقہ کے پہلے احمدی مکرم موسیٰ ابراہیم صاحب کے ساتھ اُن کے گاؤں گیا۔ مسجد میں تبلیغی پروگرام ہوا۔ رات ان کے گھر قیام تھا تو ان کی والدہ نے نہایت فکرمندی اور گھبراہٹ کا اظہار کیا کہ لوگ اب ہمارے مخالف ہو جائیں گے۔ مکرم موسیٰ ابراہیم نے غیرت دینی کے جوش میں کہا کہ میں نے احمدیت کو سچ مان کر ہی قبول کیا ہے۔ مجھے ان کی مخالفت کی کوئی پرواہ نہیں ۔ اُسی رات اُن کی والدہ نے ایک خواب کے ذریعہ احمدیت کی صداقت کو پہچان لیا اور اگلی صبح بیعت کرلی۔
1990ء میں لائبیریا میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو مجھے عارضی طور پر سیرالیون بھجوادیا گیا۔ وہاں Makani شہر میں قیام تھا۔ ایک گاؤں Bandabu میں جماعت قائم ہوچکی تھی۔ لہٰذا نومبایعین کی تربیت کے سلسلہ میں وہاں گیا۔ نماز جمعہ کے بعد چند اگلے گاؤں دورہ پر چلا گیا اور آئندہ جمعہ کو پھر اُسی مسجد میں آگیا۔ جب منبر پر آکر مَیں نے اذان کے لئے کہا تو کوئی نہ اٹھا۔ چند لمحے بعد وہاں کا امام مسجد منبر کی طرف آیا تو مَیں خاموشی سے اتر آیا۔ اُس نے خطبہ دیا اور نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد وہ امام اور لوگ کہنے لگے کہ ہم تو احمدی نہیں ۔ ہم احمدی مبلغ کے پیچھے کیوں نماز پڑھیں ۔ اس واقعہ کے نتیجہ میں احمدی الگ ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ پھر خدا کے فضل سے احمدیوں کو وہاں ایک خوبصورت دو منزلہ مسجد بنانے کی توفیق ملی لیکن وہ 80 سالہ امام جس نے احمدیوں کو اپنی مسجد سے نکالا تھا خدا نے اسے یہ سزا دی کہ وہ ایک لڑکی سے بدکاری کرتا ہوا پکڑا گیا۔
ہر لمحہ خدا کی تجلّیات کے نظارے دیکھنے کو ملتے رہے اور دل جذبۂ شکر سے بھرتا رہا۔ ایک دفعہ کھلے آسمان تلے تبلیغی پروگرام سے قبل اچانک گھنے بادل آگئے جس سے گھبراہٹ کا ہونا یقینی تھا۔ نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو خاص دعا کی توفیق ملی۔نماز ختم کرنے کے بعد دیکھا تو آسمان صاف تھا۔ پروگرام بھی بہت کامیاب رہا۔
پھر مَیں براستہ لندن پاکستان آیا تو لندن کے قیام کے دوران حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے مجھے دوبارہ لائبیریا جانے کا ارشاد فرمایا۔ لائبیریا میں حالات خانہ جنگی کی وجہ سے خاصے دگرگوں تھے۔ نومبر 1992ء میں سیرالیون پہنچا اور آٹھ ماہ تک حالات ٹھیک ہونے کا انتظار کیا۔ پھر جون 1993ء میں حضورؒ نے ان دعاؤں کے ساتھ لائبیریا جانے کا ارشاد فرمایا کہ ’’اللہ تیرے سارے کام ٹھیک کر دے اور لائبیریا میں تاریخ ساز کام کرنے کی توفیق ملے‘‘۔
جب میں منروویا ایئرپورٹ پر اترا تو Ecomog فورسز کے فوجی ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے اور خوفناک منظر پیش کررہے تھے۔ امیگریشن کے مراحل سے گزر کر باہر نکلا تو سوچا کہاں جاؤں ؟ ایک غیراحمدی دوست کا خیال آیا لیکن پھر دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ پہلے مشن ہاؤس جاتا ہوں اور صورتحال دیکھتا ہوں ۔ لہٰذا مشن ہاؤس پہنچا تو باہر ایک احمدی دوست ملے جو ایک گاؤں سے تھے اور مشن ہاؤس میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ جو مجھے دیکھ کر خوشی سے ملے اور تسلی ہوگئی کہ اب کسی اَور جگہ جانے کی ضرورت نہیں ۔ ملکی خانہ جنگی کے دوران مشن ہاؤس میں ویرانی کا عالم تھا۔ سب کچھ لُوٹ لیا گیا تھا۔ کلینک اور کتب کا سٹور بھی ختم ہو چکے تھے۔ نئے سرے سے جماعت کو منظم کرنا تھا۔ آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے سب کچھ بحال ہونے لگا۔ نئی جگہ ایک وسیع عمارت میں احمدیہ کلینک قائم کیا۔ لائبیریا کے صدر مملکت نے کلینک کی بحالی کا افتتاح کیا۔ اخبارات و رسائل میں تشہیر ہوئی۔ پہلے ڈاکٹر مکرم سید مشہود احمد صاحب تھے۔
نومبر 1993ء میں حضورؒ نے مجھے لائبیریا کا امیر و مبلغ انچارج مقرر فرمایا۔ یہ اعزاز دسمبر 2010ء تک قائم رہا۔ خیال تھا کہ نارمل حالات ہوگئے ہیں مگر اکثر خوفناک نظاروں اور مشکلات کے پہاڑوں سے گزرنا پڑا۔ قتل و غارت اور تباہی کے مناظر نے دل دہلا دیئے۔ ان حالات میں ہر طرح سے محفوظ رہنا ایک معجزہ سے کم نہیں تھا۔
1996ء میں باغیوں نے دارالحکومت پر حملہ کردیا۔ پورا شہر اُن کے نرغہ میں تھا۔ ہر طرف آگ اور دھوئیں کے بادل تھے۔ عمارتیں اور گھر جل رہے تھے۔ اس خوفناک صورتحال میں ڈاکٹر سید مشہود احمد صاحب بھی کلینک سے اپنی فیملی لے کر مشن ہاؤس آگئے۔ مشن کے اردگرد دھماکوں اور گولیوں کی خوفناک آوازیں تھیں ۔ ایسے میں سوائے اللہ کی ذات کے کچھ نظر نہ آتا تھا۔چار دن اسی حالت میں گزرے تو ہمیں یرغمال بناکر ایک آرمی بیرک میں لے جایا گیا۔ بعد ازاں باغیوں نے گھر اور مشن ہاؤس کو آگ لگادی۔ نو دن ہم بیرک میں ٹھہرے۔ دونوں اطراف سے متحارب گروپ حملہ آور ہوتے تو ہم اپنے سامنے گولے گرتے اور لوگ مرتے دیکھا کرتے۔ ایک شام ایک گولہ زوردار دھماکہ سے دیوار پھاڑ کر کمرہ میں (جہاں ہم تھے) گرا۔ خدا کی قدرت کہ وہ ہماری طرف آنے کی بجائے الماری سے ٹکرا کر دوسری طرف پلٹ گیا اور ہم سب بچ گئے۔ اسی طرح ایک رات ایک گولہ چھت کا ایک حصہ اڑا کر اندر گرا مگر وسط میں گرنے کی بجائے دیوار کے قریب ہی پھٹ گیا۔ خداتعالیٰ کی ذات لمحہ لمحہ موت سے بچارہی تھی۔
آرمی بیرک میں باغیوں کے ایک جرنیل کو قتل کردیا گیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ باغی گروپ بیرک کے قریب گیا۔ اگر وہ بیرک میں داخل ہو جاتے تو قتل عام شروع ہوجاتا۔ مگر خدا تعالیٰ نے اس جرنیل کی موت سے ہمیں زندگی کا موقع دیا۔ پھر ایک دن مخالف گروپ والے ٹینک میں بیٹھ کر سفید رومال لہراتے ہوئے بیرک کے گیٹ تک پہنچ گئے۔ بیرک میں انڈین، لبنانی اور غیرملکی بھی تھے۔ ہم سب ایک بلند جگہ پر کھڑے اُنہیں دیکھ رہے تھے کہ شاید UNO والے صلح کرانے آئے ہیں ۔ یکدم وہ آگے بڑھنے کی بجائے واپس چلے گئے۔ امید کی کرن حیرت میں ڈوب گئی۔ مگر جب علم ہوا کہ یہ تو باغی گروپ کے لوگ تھے اور اگر بیرک میں داخل ہو جاتے تو ہیبت ناک واقعہ کا امکان ہوتا۔ مگر خداتعالیٰ نے ہمیں محفوظ رکھا۔
حضورؒ کو تمام صورتحال کا بخوبی علم تھا کہ ہم کہاں ہیں اور کیسے پھنسے ہوئے ہیں ۔ اُن کی دعائیں اور خدا کا فضل تھا جو زندہ رکھے ہوئے تھا۔ ڈاکٹر مشہود صاحب کی اہلیہ کی ڈیلیوری کا وقت قریب تھا۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو فون پر بتایا کہ 10 ؍اپریل 1996ء ڈلیوری کی تاریخ ہے۔ حضورؒ نے فرمایا گھبرائیں نہیں خداتعالیٰ فضل فرمائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے 10 دن میں UNO فورسز کے توسط سے بذریعہ ہیلی کاپٹر ہمیں وہاں سے نکالا اور 22؍اپریل کو ڈکار سینیگال کے ایک ہسپتال میں ڈلیوری ہو گئی۔
کچھ دن سینیگال میں ٹھہرنے کے بعد ہم گیمبیا چلے گئے جہاں 3 ماہ قیام کیا۔ جب معلوم ہوا کہ UNO فورسز نے لائبیریا کے دارالحکومت کا کنٹرول سنبھال لیا ہے تو حضورؒ کی خدمت میں اطلاع بھجوائی۔ اس پر حضورؒ نے لائبیریا جانے کا ارشاد فرمایا۔ واپسی کے سفر میں اور لائبیریا پہنچ کر بھی خداتعالیٰ کے فضلوں کے بے شمار نظارے دیکھے۔ 25؍اگست کو گیمبیا سے سیرالیون اور پھر لائبیریا کے لئے روانہ ہوا۔ ہمارا جہاز منروویا ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے والا تھا کہ موسم کی خرابی کے باعث رَن وے نظر نہ آیا اور جہاز دوبارہ فضا میں بلند ہو گیا۔ دوسری مرتبہ بھی یہی ہوا اور پریشانی میں دعاؤں کا ورد اَور تیز ہو گیا۔ خیال بھی نہ تھا کہ جہاز Land کرتے ہی Crash ہو جائے گا۔ دراصل جہاز کا ایک پَر اُتر کر پہلے ہی گر چکا تھا اور باڈی ٹوٹ گئی تھی۔ کریش ہونے پر معلوم ہوا کہ دروازے کھل نہیں سکتے۔ ایک کھڑکی کا کچھ حصہ ٹوٹا ہوا تھا ۔ اس کو کھینچ کر راستہ بڑا کیا اور وہاں سے مسافر ایک ایک کرکے جہاز کے پَر پر جمپ لگا کر نیچے اترے۔ جب حضورؒ کو اس واقعہ کی خبر دی تو حضورؒ نے فرمایا ’’الحمدللہ۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا… خداتعالیٰ تو خود آپ کی حفاظت فرماتا ہے‘‘۔
جب مَیں مشن ہاؤس پہنچا تو دیکھا کہ عمارت جل چکی تھی، چھتیں گری ہوئیں اور دھوئیں سے سیاہ تھیں ۔ عجب ویرانی کا منظر تھا۔ میرے آنسو نکلنا فطری امر تھا۔ اُس وقت بونداباندی ہورہی تھی۔ یوں لگا کہ آسمان بھی آنسو بہا رہا ہے۔ مشن ہاؤس اور مسجد کی ازسرِنَو تعمیر نیز جماعت کو منظم کرنا انتہائی مشکل نظر آرہا تھا۔ لیکن خدا کے فضل اور احباب کے جذبۂ دینی سے جلد ہی دو منزلہ مسجد تعمیر کرلی گئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں