قبول احمدیت کی داستانیں

٭ مکرمہ نینسی حبیبہ جیلانی صاحبہ
رسالہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا اکتوبر2007ء میں مکرمہ نینسی حبیبہ جیلانی صاحبہ کی قبول احمدیت کی داستان شامل اشاعت ہے۔ آپ بیان کرتی ہیں کہ میں ایک مسلم گھرانے میں پلی بڑھی جہاں نماز اور قرآن کریم پڑھنا لازم تھا۔میرا مذہب کی طرف رجحان اُس وقت سے ہے جب میں پشاور میں رہا کرتی تھی۔ میری والدہ مجھے نماز کی تلقین کرتی تھیں لیکن والد جو برطانیہ سے زرعی اکنامکس میں ماسٹر ڈگری کرکے آئے تھے، نماز نہیں پڑھتے تھے۔ چنانچہ مَیں بھی نمازوں میں سست ہوتی چلی گئی۔ تیرہ سال کی عمر میں میری والدہ جب مجھے نماز کی ادائیگی کے لئے سختی سے پیش آتیں تو ایک دن مَیں نے اپنے والد سے پوچھا کہ وہ نماز کیوں نہیں پڑھتے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں دہریہ ہوں اور مذہب کو نہیں مانتا۔ میں یہ سن کر حیران رہ گئی کہ اسی اثناء میں انہوں نے مجھے کہا کہ تم خودمذاہب کا مطالعہ کرو اور درست راستہ اپنالو۔ پھر انہوں نے مجھے یہودیت، عیسائیت، ہندومت، بدھ ازم اور اسلام کی کتب لا کر دیں۔ میں نے وہ کتابیں تقریباً ایک سال میں پڑھیں۔ اس دوران مجھے خواب بھی آئی جس سے میں نے سمجھا کہ اسلام ہی تمام مذاہب سے بہتر اور سادہ مذہب ہے۔ میں نے خواب میں آنحضرتﷺ اور حضرت علیؓ کو دیکھا۔ چنانچہ مَیں نے سچے دل سے اسلام کو اختیار کرلیا۔
1942ء میں جب میں راولپنڈی میں سکول کی طالبہ تھی تومیں نے خواب میں بازار میں ایک دروازہ کے بورڈ پر صدر انجمن احمدیہ لکھا دیکھا۔ میں اندر چلی گئی اور وہاں قرآن کریم کی تلاوت کی، اسی اثناء میں کسی نے میرے ہاتھ پر چاندی کا روپیہ رکھ دیا۔ یہ خواب میں بھول گئی کیونکہ مَیں نے کبھی سلسلہ احمدیہ کے بارہ میں نہیں سنا تھا۔ لیکن کچھ دنوں بعد میں بازار گئی تو وہ بورڈ دیکھ کر حیران رہ گئی جو کہ مری روڈ پر واقع تھا۔ چونکہ رات کا وقت تھا اس لئے میں نے سوچا کہ میں کسی اور وقت تحقیق کروں گی اور یہ سوچ کر واپس ہاسٹل آگئی لیکن یہ بات بھی میرے ذہن سے نکل گئی۔
دسمبر1945ء میں مَیں نے ایک خواب میں قادیان کے سفر کا تفصیلی منظر دیکھا۔ اگلے روز میں نے یہ خواب اپنے اس وقت کے خاوند یونس جان کو بتائی تو انہوں نے کہا کہ اس خواب سے اُنہیں قادیان کا خیال آتا ہے۔ اس پر مجھے پرانی خواب بھی یاد آگئی تو میں نے سوچا مجھے قادیان جانا چاہئے۔ یونس میرے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوگئے اور ان کے سوتیلے بھائی عیسیٰ جان نے وہاںرہنے کے لئے ہمارا بندوبست اپنے خسر جناب مولوی عطاء اللہ صاحب کے ہاں کیا۔ راستہ بھر اور قادیان پہنچ کر جو واقعات پیش آئے وہ کافی غیر متوقع تھے کیونکہ میری خواب لفظ بہ لفظ درست ثابت ہورہی تھی۔ اب اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے روحانی سفر کو کمال عروج پر پہنچانے کے لئے مجھے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل کرنا چاہتا تھا۔
اگلے روز میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ملاقات کے لئے گئی تو آپؓ نے مجھے نصیحت فرمائی کہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب کا مزید مطالعہ کروں۔ پھر دو ماہ بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بیعت کرنے کی غرض سے حاضر ہوگئی تو آپؓ نے مجھ پر یہ انکشاف کیا کہ میرے نانا میاں فضل الٰہی حق صاحب کاکاخیل بہت مخلص احمدی تھے اور جماعت احمدیہ سرحد کے امیر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے قرآن کریم سے جدید سائنس کے بارہ میں تحقیقی کام بھی کیا تھا۔ افسوس کہ وہ کافی عرصہ پہلے وفات پاگئے لیکن نہ ہی میرے ماموں نے اور نہ ہی میرے بھائی نے مجھے ان کی احمدیت کے بارہ میں کچھ بتایا تھا۔
٭ محترمہ کوکب زیروی صاحبہ
محترمہ کوکب زیروی صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میں ایک چینی بدھ مت گھرانہ میں پلی بڑھی جہاں بدھا کے بت اور اپنے آباؤاجداد کی عبادت کی جاتی تھی۔ انہی بتوں سے دعائیں مانگی جاتیں اور بہترین اشیاء کے چڑھاوے چڑھائے جاتے۔ یہ مذہب میرے لئے ایک احترام کا مقام تو رکھتا تھا مگر اس میں ایک خدا اور اس دنیا کے بعد زندگی کے وجود کے کوئی معنی تھے۔ میں نظریۂ وجودیت پہ یقین رکھتی تھی جوانسان کی آزادانہ فطرت کے متعلق ہے۔ مجھے نیک اور مذہبی انسان عجیب لگتے تھے۔ قریباً ہر مذہب کے عقائد سے مجھے اختلاف تھا۔ اسلام کے متعلق علم حاصل کرنے سے پہلے میں اسلام کو ایک سخت مذہب سمجھتی تھی۔ یہ نہ صرف لاعلمی کا نتیجہ تھا بلکہ مغرب کے انتہا پسند مسلمانوں کی غلط بیانیوں کا بھی ۔ مجھے سمجھ نہ آتی کہ اس قدر سختیوں میں رہتے ہوئے خدا کی یاد میں کوئی زندگی کیسے گزار سکتا ہے۔ میرے کئی جاننے والے مسلمان تھے البتہ اُن میں سے کوئی بھی پختہ ایمان نہ رکھتاتھا۔
کالج میں مجھے احمدی مسلمانوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ اپنے ایمان و مذہب کے ساتھ حقیقی لگاؤ دکھاتے۔ مجھے اُن کی انکساری صاف نظر آتی۔ ان کی سچائی، تصنّع سے پاک شخصیت اور ایمان پر پختگی مجھے متأثر کرتی۔ جیسے جیسے میں اسلام کے متعلق سیکھتی گئی مجھے یہی امن و ایمان کی جانب سیدھا راستہ نظر آیا۔ جب میں نے پہلی مرتبہ نماز ادا کی تو مجھے مکمل امن اور خدا تعالیٰ کی طرف مکمل توجہ محسوس ہوئی۔ آہستہ آہستہ میری اپنے معاشرہ سے دلچسپی ختم ہوتی گئی اور میرے اندر یہ احساس بڑھنے لگا کہ دنیا کی چھوٹی چیزیں ترک کرنے سے اللہ تعالیٰ کی حاصل ہونے والی نعمتیں زیادہ قدر رکھتی ہیں۔ لیکن پھر بھی مَیں خود کو مکمل طور پر بدلنے کو ذہنی طور پر تیار نہ تھی۔ مجھے ڈر لگتا کہ میرے ضمیر کا ایک حصہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا۔ البتہ جب میں نے “اسلامی اصول کی فلاسفی” کا مطالعہ کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی اپنی زندگی میں شمولیت کا احساس ہونے لگا۔ اسلامی اصول میری سمجھ میں آنے لگے، نماز میں اللہ تعالیٰ کی قربت محسوس ہونے لگی۔ جب میں پہلی مرتبہ مشن ہاؤس گئی تو خاصی گھبرا رہی تھی لیکن جلد ہی ٹھیک ہو گئی کیونکہ وہاں بہنوں نے بہت پیار سے میرا خیر مقدم کیا۔ اُن کا پختہ ایمان مجھے متأثر کرنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ پردہ محدود کرنے کے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کی اطاعت اور اپنے اندر انکساری قائم کرنے کے لئے کیا جاتا تھا۔ قرآن کریم کی تلاوت سے مجھے بے حد سرور حاصل ہوتا۔
اگرچہ میرا خاندان میرا مخالف ہے لیکن مجھے ایک نئی برادری نے کھلے بازوؤں کے ساتھ قبول کیا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ میں ابھی اس سفر کے آغاز پہ ہوں لیکن دعا کرتی ہوں کہ احمدیت پہ میرے قدم ثابت رہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں