قبولیتِ دعا کے دو ایمان افروز واقعات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍دسمبر 1997ء میں محترمہ بی بی سکینہ صاحبہ کا ذکرخیر کرتے ہوئے ان کے بیٹے مکرم نصیر احمد صاحب رقمطراز ہیں کہ جب بھی بی بی سکینہ سے کوئی اپنا دکھ بیان کرتا وہ دکھ پھر بی بی سکینہ کا دکھ بن جاتا اور وہ خدا تعالیٰ کے حضور سربسجدہ ہو جاتیں اور جلد ہی اس دکھی کو دعا کے نتیجہ میں پیغام مل جاتا۔
میرے چچا زاد بھائی میجر لطیف احمد خان جنگ پاک وہند 1971ء کے وقت ڈھاکہ میں تھے۔ ان کی والدہ گھبرائی ہوئی میری والدہ کے پاس آئیں اور دعا کی درخواست کی۔ میری والدہ نے دعا کرکے بتایا کہ انشاء اللہ وہ زندہ سلامت واپس آئے گا۔ پھر جنگ بندی ہوئی تو 90 ہزار فوجی جنگی قیدی بنالئے گئے اور میجر صاحب کی والدہ دوبارہ دعا کے لئے حاضر ہوئیں تو میری والدہ نے پہلے والا جواب دہرادیا… چند ہی دنوں بعد میجر صاحب زندہ سلامت پہنچ گئے اور بتایا کہ وہ اپنے افسر کے ہمراہ ڈھاکہ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے برما پہنچ گئے تھے اور وہاں کچھ روز قیام کرکے پاکستان آگئے۔
مضمون نگار قبولیت دعا کا ایک اور واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ میرے چہرے کے دائیں طرف شدید درد رہتا تھا اور کسی طور آرام نہیں آتا تھا۔ میری والدہ نے مجھے خط لکھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ آج کل کراچی میں ہیں، ان سے ملاقات کرکے میرا پیغام دو کہ تمہارے چہرے کے دائیں طرف دم کردیں۔ میں نے ملاقات کرکے پیغام پہنچایا تو حضورؒ نے اسی وقت اپنے دونوں گداز ہاتھوں سے میرے چہرے کو تھام لیا۔ کچھ دیر زیر لب دعا کی اور زور سے میرے چہرے پر پھونک ماری۔ وہ لمحہ میرے لئے ایسا یادگار تھا جسے میں تاحیات نہیں بھول سکتا۔ ساتھ ہی حضورؒ نے مجھے ہومیوپیتھک کا نسخہ لکھ کر دیا۔ چنانچہ جلد ہی مجھے چہرے کی درد سے چھٹکارا مل گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں