فلسفۂ تاریخ کا بانی… ابن خلدون

پندرہ روزہ ’’المصلح‘‘ کراچی جولائی 2009ء میں علامہ عبدالرحمن ابن خلدون اور اُس کے فلسفۂ تاریخ (علمِ عمرانیات) کے بارہ میں ایک مضمون مکرم طارق احمد بٹ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
فلسفۂ تاریخ کے بانی ابن خلدون 27؍مئی 1332ء کو تیونس میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق اندلس کے ایک خاندان سے تھا جو ساتویں صدی ہجری میں سپین سے تیونس منتقل ہوا تھا۔ بنوخلدون کے لوگ وہاں کئی اہم عہدوں پر فائر ہوتے رہے۔ ابن خلدون کے والد محمد کو سیاست سے دلچسپی نہیں تھی اور وہ صرف علمی و ادبی مشاغل میں مصروف رہا کرتے تھے۔ انہوں نے ہی ابن خلدون کو ابتدائی تعلیم دی۔ قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد ابن خلدون نے فن قراء ت کے مختلف اسلوب سیکھے، حدیث اور مالکی فقہ کا مطالعہ کیا، قواعد اور صرف و نحو کی تعلیم حاصل کی۔ 1349ء میں طاعون کی وبا نے سمرقند سے ماریطانیہ تک تمام اسلامی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ابن خلدون کے والدین اور بہت سے عزیز بھی لقمۂ اجل بن گئے۔ اس سانحہ کے بعد ابن خلدون تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔ ابھی وہ بیس سال کا نہیں ہوا تھا کہ اُسے نوجوان سلطان ابواسحق کا سیکرٹری بنادیا گیا۔ سلطان ابواسحق اُس وقت محمد ابن تفرقین کے زیرحراست تھا جو تیونس پر قابض تھا۔ کچھ عرصہ بعد ابن خلدون سلطان ابوعننؔ کا سیکرٹری بن گیا جو اُس وقت شمالی افریقہ کی سب سے بڑی امارت کا سربراہ تھا۔ یہاں ابن خلدون سلطان کے خلاف ایک سازش میں شریک ہوا اور دو سال قید کی سزا پائی۔ بعد ازاں ابن خلدون افریقہ کی مختلف ریاستوں میں اہم فرائض سرانجام دیتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ سیاسی سرگرمیوں سے تنگ آگیا اور پھر سلطان سے درخواست کرکے ’’سلامہ‘‘ نامی ایک پُرسکون محل میں اُس نے چار سال گزارے۔ یہیں اُس نے ایسی تاریخی تحقیق کی جو اُس کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھنے کا باعث بن گئی۔ یہ تحقیق اُس نے ’’مقدمہ ابن خلدون‘‘ کے نام سے رقم کی۔ پھر اُس نے تاریخ پر قلم اٹھایا تو اُسے محسوس ہوا کہ اس کام کے لئے تیونس جانا ضروری ہے جہاں عظیم کتب خانے اور علمی مراکز موجود تھے۔ پہلے ابن خلدون نے تیونس کے حکمران سلطان ابوالعباس سے تحریری معافی مانگی اور پھر ستائیس سال کے بعد واپس تیونس چلا گیا۔ سلطان نے اُس کو دوبارہ گلے سے لگالیا اور ہمت افزائی کی۔ لیکن یہاں تیونس کے فقیہہ ابن عرفہ نے ابن خلدون کے خلاف سازشوں کا جال بُن دیا۔ اگرچہ یہ سازشیں ابن خلدون کی شخصیت کی وجہ سے بے اثر ثابت ہوئیں لیکن جب اُس نے 1382ء میں اپنی تاریخ کا ایک حصہ مکمل کرکے سلطان ابوالعباس کو پیش کردیا اور سو اشعار پر مشتمل سلطان کی شان میں ایک قصیدہ بھی پڑھا۔ تو اس کے بعد ابن عرفہ کی سازشیں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ چنانچہ ابن خلدون نے حالات سے تنگ آکر سلطان سے حج پر جانے کی اجازت لی اور 52 سال کی عمر میں اسکندریہ چلاگیا۔
1382ء میں وہ مصر پہنچا اور یہاں کی جدّت اور ترقی دیکھ کر بہت متأثر ہوا۔ اُس کا نام یہاں کے علمی حلقوں میں پہلے ہی پہنچ چکا تھا۔ چنانچہ اُس نے یہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ الازھر میں کئی لیکچر بھی دیئے جو بہت مقبول ہوئے۔ جلد ہی اُس نے سلطان الظاہر برقوق تک رسائی حاصل کرلی اور اُس کا معقول مشاہرہ مقرر کردیا گیا۔ پھر وہ ایک مدرسہ میں پروفیسر مقرر ہوا۔ 1384ء میں اسے قاضی القضاۃ مقرر کیا گیا۔ اس دوران اُس کی مخالفت بھی شروع ہوگئی۔ پھر اُس نے اپنے خاندان کو بھی تیونس سے مصر بلانا چاہا تو تیونس کے بادشاہ نے اجازت نہ دی اور سوچا کہ اس طرح ابن ِخلدون واپس تیونس آجائے گا۔ لیکن جب ابن خلدون نے مصری سلطان سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی درخواست کی تو اُس کے خاندان کو مصر روانہ کردیا گیا۔ تاہم سفر کے دوران طوفان کے نتیجہ میں جہاز غرق ہوگیا اور ابن خلدون کا سارا خاندان بھی موت کی نذر ہوگیا۔ اس سانحہ سے وہ زندگی سے اکتاگیا۔ اسی دوران اُسے قاضی القضاۃ کے عہدہ سے ہٹادیا گیا۔ بعد میں سیاسی حالات تبدیل ہوتے رہے اور مجموعی طور پر اُسے چھ مرتبہ قاضی القضاۃ کے عہدہ سے معزول کیا گیا لیکن ہر بار کچھ عرصہ بعد اُسے مقرر بھی کردیا جاتا۔ آخر 16 مارچ 1406ء کو یہ عظیم مؤرخ و مفکر 78 سال کی عمر میں انتقال کرگیا اور ’’باب النصر‘‘ نامی قبرستان میں دفن ہوا جو صرف علماء اور ممتاز شخصیات کے لئے ہی مخصوص تھا۔
ابن خلدون کو فلسفۂ تاریخ یعنی علم عمرانیات کا بانی کہا جاتا ہے۔ یہ علم انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ تاریخ پڑھ کر سمجھ سکے، تنقید کرسکے اور منطقی نقطۂ نظر سے معاشرتی مسائل اور اس کی جزئیات کا مطالعہ کرسکے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں