عمر خیام اور اس کی رباعیات

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ قادیان کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے احباب جماعت کو دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی تیاری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا:-
’’عمر خیام کی رباعیات اس مضمون میں بے مثل ہیں۔ عجیب نئے نئے انداز سے باتیں کی ہیں۔ دنیا کی بے ثباتی کا جو نقشہ عمرخیام نے کھینچا ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے۔ اگر دوستوں کو توفیق ملے تو عمرخیام کی رباعیات پڑھیں۔‘‘
———————
عمر خیام
ایران کے صوبہ خراسان میں نیشاپور کے قریبی گاؤں میں عظیم ریاضی دان اور شاعر عمر خیام پیدا ہوا جس کا اصل نام غیاث الدین ابو الفتح عمرو بن ابراہیم تھا۔ آپ کے والد خیمہ سازی کا کام کرتے تھے۔ ابتدا میں آپ نے بھی یہی پیشہ اختیار کیا لیکن بعد میں یہ کام چھوڑ دیا اور 430ھ میں نیشاپور جاکر ایک مشہور مدرسہ میں داخل ہوگئے۔ آپ کے استادامام موفق تھے اور ہم مکتبوں میں نظام الملک طوسی اور حسن بن صباح شامل تھے۔ تینوں ہم مکتب بعد میں مشہور علماء میں شمار ہوئے اور تینوں بہترین دوست تھے۔ سب سے زیادہ خوش قسمت نظام الملک نکلے جو سلطان الپ ارسلان سلجوقی کے پایہ تخت اصفہان جاکر شاہی منشیوں میں شامل ہوئے اور جلد ہی ترقی کرکے دبیرالملک کے عہدہ پر سرفراز ہوئے۔ پھر وزیر اعظم بنائے گئے اور نظام الملک کا لقب عطا ہوا۔ 465ھ میں ارسلان کی وفات کے بعد ملک شاہ سلجوقی بادشاہ بنا تو نظام الملک کی عزت و توقیر میں مزید اضافہ ہوگیا۔ تاہم دوسرے دونوں دوستوں (عمر خیام اور حسن بن صباح) کی حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہ ہوئی چنانچہ یہ دونوں اصفہان پہنچے اور نظام الملک سے اپنی حالت بیان کی۔ نظام نے دونوں کی بہت خاطر مدارات کی اور اُن کے حسبِ فرمائش مدد کی۔
صباح کو شاہی دربار میں جگہ مل گئی لیکن جلد ہی اُس نے نظام الملک کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کردیں چنانچہ وہ اپنے عہدہ جلیلہ سے ہٹا دیا گیا۔ پھر وہ اپنی سازشی افتاد طبع کے باعث اسماعیلیہ فرقہ میں داخل ہوکر فرقہ باطنیہ کا امام بن گیا۔
عمر خیام نے کسی عہدہ کی خواہش نہیں کی۔ بس یہی چاہا کہ زندگی اپنے آبائی گاؤں میں شعرو شاعری میں بسر کردے۔ نظام نے انہیں قریباً بارہ سو اشرفی سالانہ کی جاگیر عطا کردی اور وہ واپس اپنے وطن آکر آرام کی زندگی گزارنے لگے۔ عمر خیام کی رباعیات بہت مشہور ہوئیں۔ آئرلینڈ کے مشہور ادیب Filz Gerald نے ان رباعیات کا انگریزی میں اور آغا شاعرقزلباش دہلوی نے اردو میں منظوم ترجمہ کیا۔ فرانسیسی، جرمن اور ہالینڈ کی ڈچ زبان میں بھی یہ تراجم ہوچکے ہیں۔
عمر خیام عظیم شاعر ہونے کے علاوہ اپنے زمانہ کے مانے ہوئے ریاضی دان تھے اور مذہبی علوم اور ادب و تاریخ میں بھی امام مانے جاتے تھے۔ فن قراء ت میں کمال حاصل تھا اور علم نجوم و فلکیات میں بلند مقام رکھتے تھے۔ فلسفہ میں بو علی سینا کے پیرو تھے۔ 467ھ میں ملک شاہ نے لاکھوں روپیہ صرف کرکے ایک عظیم الشان رصدگاہ بنوائی جس میں کام کیلئے خاص طور پر عمر خیام کو مقرر کیا گیا۔
خیام زیادہ تر فلسفہ یونان کا درس دیتے تھے۔ اس پر علماء اُن کے سخت خلاف ہوگئے اور اُن کے قتل کے منصوبے بنائے جانے لگے۔ چنانچہ وہ حج کے لئے چلے گئے اور واپس آکر سلسلہ درس بند کردیا۔
عمر خیام کا اُن کے علم و فضل کی وجہ سے شاہی دربار میں بیحد احترام کیا جاتا تھا لیکن آج اُن کی شہرت کی اصل وجہ اُن کی شاعری ہے۔ اگرچہ ان کی تصانیف بہت کم ہیں۔ رباعیات کی تعداد ایک ہزار کے قریب خیال کی جاتی ہے جو سادہ، نیم رنگ اور رنگین (ہر قسم کی) ہیں۔ انداز بیان صاف، شستہ اور پاکیزہ ہے۔ الفاظ متین اور ملائم ہیں جبکہ پیچیدہ اور مشکل طریقۂ کار کی بجائے سادگی کو اپنایا گیا ہے۔
عمر خیام نے 1123ء میں وفات پائی۔ آپ کے مختصر حالات و خصوصیات روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍دسمبر 1998ء میں مکرم سید ظہور احمد شاہ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
———————————–
روزنامہ ’’الفضل‘‘ 16؍جنوری 1999ء میں مکرم یعقوب امجد صاحب کے قلم سے اس بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
عمرخیام کا مقام مختلف علوم کے اعتبار سے نہایت بلند ہے لیکن فارسی ادب میں انہیں ایک رباعی گو کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی۔ یورپ کی متعدد علمی زبانوں میں اس کی رباعیات کے ترجمے ہوچکے ہیں۔ اردو زبان میں نثری ترجمہ کے علاوہ ایک منظوم ترجمہ بھی ملتا ہے جو آغا شاعر قزلباش دہلوی کی کاوش ہے۔
عمر خیام نے اپنے حالات کو ہی رباعیات کا موضوع بنایا تھا۔ آپ کی رباعیات سادہ انداز کی ہیں مگر اپنے اندر بلا کی تاثیر رکھتی ہیں۔ شاعر کا پہلا تاثر تو یہی ہے کہ انسان نادانی و بے خبری میں عمر گنوا دیتا ہے اور یہ نہیں معلوم کرتا کہ اسے کس لئے پیدا کیا گیا ہے۔
شاعر کا دوسرا تاثر اُس کا غم ہے جس کے بوجھ تلے اُس کا دل خون ہوا جاتا ہے۔ یہ غم وہ اس لئے کھاتا ہے کہ وہ سوچتا ہے کہ انسانی زندگی کا درخت سدابہار کیوں نہیں رہتا اور خشک ہوکر پیوندِ خاک کیوں ہو جاتا ہے؟ ۔
شاعر کا تیسرا تاثر یہ ہے کہ ظاہر داری، فریب کاری، دورُوئی اور دروغ گوئی عام ہے۔ خصوصاً مذہب کے واعظین سے اسے شکایت ہے کہ وہ ظاہر میں تقویٰ و تقدس کا نمونہ پیش کرتے ہیں، مگر باطن میں وہ اپنے اغراض و مقاصد پورا کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔
عمر خیام کی چند رباعیوں کے تراجم ذیل میں پیش ہیں:-
٭ کہتا ہے کہ وہ دن کہ جو گزر چکا ہے، تُو اسے یاد نہ کر۔ آنے والا دن، جو ابھی آیا نہیں ہے، اس کے لئے (قبل از وقت) فریاد نہ کر، پس ہر وہ دن، جو ابھی آیا نہیں اور جو گزر چکا ہے، تُو اسے بنیاد نہ بنا، بلکہ اپنے حال میں خوش رہ (کر زندگی بسر کر) اور عمر کو برباد نہ کر۔
٭ ہر وہ انسان جسے اس دنیا میں آدھی روٹی میسر آتی ہے اور وہ سر چھپانے کے لئے آستانہ رکھتا ہے، وہ نہ کسی کا خادم اور نہ کسی کا مخدوم ہے۔ اُسے کہہ دے کہ تُو ہنسی خوشی زندگی بسر کر، کہ وہ اپنے لئے ایک خوشیوں بھرا جہاں رکھتا ہے۔
٭ اگر دو دن میں ایک روٹی اور ایک ٹوٹی ہوئی صراحی میں کچھ ٹھنڈا پانی مل جایا کرے تو کسی غیر کے محکوم ہونے یا اپنے ہی جیسے کسی شخص کی خدمت کرنے کے کیا معنی ہیں؟
٭ یہ دنیا ایک ایسا معبد ہے کہ جس نے لاکھوں عیسیٰ دیکھے۔ یہ ایک ایسا طور ہے جس نے لاکھوں موسیٰ دیکھے۔ یہ ایک ایسا محل ہے جس میں لاکھوں قیصر رہ چکے ہیں اور یہ محل کی ایسی محراب ہے جس نے لاکھوں کسریٰ دیکھے ہیں۔
٭ یہ پرانی سرائے کہ جس کا نام دنیا ہے اور صبح و شام کے چتکبرے گھوڑے کی آرامگاہ ہے۔ یہ ایسی بزم ہے جو جمشید جیسے سینکڑوں بادشاہوں کی چھوڑی ہوئی ہے (اور) یہ ایسا محل ہے جو بہرام جیسے سینکڑوں بادشاہوں کا تکیہ گاہ رہا ہے۔
٭ اے دوست اس دنیا کا بے فائدہ غم نہ کھا (اور) تو فضول اس فرسودہ دنیا کا غم نہ کھا۔ جب ماضی گزر گیا اور جو موجود نہیں یعنی مستقبل ابھی ظاہر نہیں ہوا تو تجھے خوش خوش رہنا چاہئے اور گزشتہ اور آئندہ کا غم نہیں چاہئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں