عاشقانِ محمد مصطفیٰ ﷺ

حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کو جو قوت جذب ودیعت کی گئی تھی اور جو حسن و جمال آپ کو بخشا گیا تھا وہ ہر سعید فطرت سلیم القلب کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔ ایسے متعدد واقعات کے حوالہ سے ماہنامہ ’’خالد‘‘ ستمبر 1999ء میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے جسے مکرم شبیر احمد ثاقب صاحب نے مرتب کیا ہے۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی پہلی دفعہ آپؐ کو دیکھتا تو آپؐ سے مرعوب ہو جاتا اور جب آپؐ سے قریب ہوتا اور گھل مل جاتا تو آپؐ سے بہت محبت کرنے لگتا۔ ایک بار ھند بنت عتبہ نے آنحضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ ! روئے زمین پر کوئی خیمہ والا نہ تھا جس کی نسبت مَیں آپؐ سے زیادہ ذلّت کی خواہش مند تھی اور اب روئے زمین پر کوئی گھر والا نہیں جس کی نسبت مَیں آپؐ کے گھر والوں سے زیادہ عزت کی خواہش مند ہوں۔
عروہ بن مسعود ثقفی نے ایک بار ان الفاظ میں اپنی قوم کو مخاطب کیا: ’’اے معشر قریش! مَیں نے ہراقلہ روم اور اکاسرہ ایران کے دربار بھی دیکھے ہیں۔ مَیں نے کسی بادشاہ کو اپنے ماتحتوں اور سربراہوں میں اس قدر محبوب و مکرم نہیں پایا جس قدر محمدؐ اپنے احباب میں محبوب و باعزت ہیں۔اصحاب محمدؐ کی یہ حالت ہے کہ وہ محمدؐ کے وضو کا پانی زمین پر گرنے نہیں دیتے۔ جب وہ کلام کرتے ہیں تو سب خاموشی سے سنتے ہیں اور تعظیم کی وجہ سے ان کی طرف نگاہ بھر کر نہیں دیکھتے۔ یہ لوگ کسی طرح محمدؐ کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے اس لئے مناسب یہی ہے کہ تم صلح کرلو‘‘۔
حضرت زیدؓ بن حارثہ کی والدہ اپنے آٹھ سالہ بیٹے کے ہمراہ اپنے قبیلہ میں آئیں تو کسی حادثہ کا شکار ہوگئیں اور لوگوں نے اس بے سہارا بچے کو فروخت کردیا جو بکتے بکتے حضرت خدیجہؓ کے پاس پہنچ گیا اور شادی کے بعد حضرت خدیجہؓ نے حضرت زیدؓ کو آنحضورﷺ کو ھبہ کردیا۔ حضرت زیدؓ کے والد نے ایک طویل نظم میں اپنے غم کا اظہار کیا جس میں کہا کہ مَیں زید کے لئے روتا ہوں اور نہیں جانتا کہ وہ زندہ ہے یا اس پر موت آچکی ہے۔ جب بھی کوئی بچہ میرے قریب ہوتا ہے تو مجھے اس کی یاد آتی ہے۔ وائے حسرت میرا یہ غم کتنا طویل ہے۔
اس گمشدگی کے بعد کلب قبیلہ کے کچھ لوگ حج کرنے آئے جنہوں نے زید کو اور زید نے انہیں پہچان لیا۔ آپؓ نے اپنے والد کو پیغام بھیجا کہ مَیں خیریت سے ہوں۔ یہ خبر ملتے ہی حارثہ اپنے بھائی کعب کے ہمراہ مکہ آئے اور حضورﷺ کا پوچھتے پوچھتے خانہ کعبہ میں چلے گئے اور حضورؐ سے درخواست کرنے لگے کہ احسان فرمائیں اور فدیہ کے حوالہ سے رعایت برتیں اور زید کو ہمارے حوالہ کردیں۔ آپؐ نے حضرت زید کو بلاکر اختیار دیا کہ چاہو تو والد کے ساتھ چلے جاؤ اور چاہو تو مجھے اختیار کرلو۔ زیدؓ کہنے لگے مَیں آپؐ پر کسی کو اختیار نہیں کرسکتا، آپؐ ہی میرے باپ اور چچا ہیں۔ حارثہ اور کعب نے پوچھا کیا غلامی کو آزادی پر ترجیح دے رہے ہو؟۔ زیدؓ نے کہا: ’’ہاں‘‘ اور اپنے والد اور چچا کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ آنحضورﷺ نے زیدؓ کو اٹھایا اور لوگوں کے سامنے اعلان کیا کہ گواہ رہو زید میرا بیٹا ہے اور میرا وارث ہے۔ تب آپؓ کو زید بن محمدؐ پکارا جانے لگا حتی کہ سورہ احزاب کی یہ آیت نازل ہوئی:

اُدۡعُوۡھُمۡ لِاٰبآءِ ھِمۡ

(انہیں اُن کے باپوں کے نام سے پکارو)۔
آنحضورﷺ کی ہجرت مدینہ کے وقت سفر کا ایک ایک لمحہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی آپؐ سے عشق کی گواہی دیتا ہے۔ فدائیت کی ایسی مثال آپؓ نے قائم کی کہ آنحضورﷺ نے فرمایا: ’’مجھ پر لوگوں میں سے ابوبکر کا احسان مال اور رفاقت کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہے اور اگر میں خدا کے سوا کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔‘‘
پھر مدینہ میں عشاق محمد مصطفیٰﷺ آپؐ کے دیدار اور زیارت کے لئے ایسے بے قرار تھے کہ آپؐ کی مکہ سے ہجرت کی اطلاع پانے کے بعد سے روزانہ مدینہ سے باہر آکر محو انتظار ہو جاتے۔
حضرت عمرؓ کو آنحضورﷺ سے ایسی محبت تھی کہ آپؐ کی وفات کے وقت حضرت عمرؓ نے تلوار سونت لی۔ یہ وارفتگی کی وہ حالت ہے جہاں عقل و فہم پر محبت پردہ ڈال دیتی ہے۔ حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آیت

’’وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاّ رَسُوْل قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسل‘‘

پڑھی تو غم سے میری ٹانگیں کانپنے لگیں، مجھ سے پاؤں اٹھائے نہیں جاتے تھے حتی کہ مَیں زمین پر گرگیا کہ واقعی آنحضورؐ وفات پاگئے ہیں۔
حضرت حسان بن ثابتؓ نے آنحضورﷺ کی وفات پر اپنے مرثیہ میں لکھا کہ تُو میری آنکھوں کی پتلی تھا، میری آنکھوں کا نور تھا، آج مَیں اندھا ہوگیا ہوں۔ اب مجھے تیرے بعد کسی کے مرنے کی پرواہ نہیں۔
جب حضورﷺ حضرت فاطمہؓ کے ہاں جاتے تو آپؓ اپنی جگہ سے اٹھتیں، آنحضورؐ کا بوسہ لیتیں، آپؐ کو اپنی جگہ بٹھاتیں۔ جب آنحضورﷺ بیمار ہوئے تو آپؓ آئیں اور آنحضورؐ پر جھک کر آپؐ کو بوسہ دیا۔ جب سر اٹھایا تو رو رہی تھیں۔ پھر دوبارہ حضورؐ پر جھک گئیں اور اب سر اٹھایا تو مسکرا رہی تھیں۔ بعد میں آپؓ نے حضرت عائشہؓ کے پوچھنے پر بتایا کہ پہلے حضورؐ نے مجھے اپنی وفات کی خبر دی تو مَیں رونے لگی اور پھر مجھے بتایا کہ تم مجھ سے جلد ملوگی تو مَیں خوش ہوگئی۔
غزوہ تبوک میں شامل نہ ہونے پر تین اصحاب حضرت کعبؓ بن مالک، حضرت مرارہؓ بن ربیع اور حضرت ہلالؓ بن امیہ کو مقاطعہ کی سزا دی گئی۔ حضرت کعبؓ کا بیان ہے کہ چالیس دن گزر گئے تو بیویوں سے بھی علیحدگی کا حکم ملا۔ ایسے میں ایک شامی شخص مجھے بازار میں ملا اور میرے سامنے غسان کے بادشاہ کا خط رکھا جس میں لکھا تھا کہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ کے آقا نے آپ پر یہ بڑا ظلم کیا ہے جب کہ آپ ایسے وجود نہیں ہیں جن کی ناقدری کرکے انہیں بے وقعت اور بے حیثیت بنادیا جائے۔ پس آپ ہمارے پاس آجائیے۔ ہم آپ کی ہر طرح غمگساری کریں گے۔ … آپؓ فرماتے ہیں کہ مَیں اس خط کو لے کر سیدھا تنور کی طرف گیا اور اُس میں پھینک دیا۔
غزوہ تبوک سے واپسی پر عبداللہ بن ابی بن سلول نے کہا کہ جب ہم مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو مدینہ کا معزز شخص (یعنی وہ خود) مدینہ کے ذلیل شخص (نعوذ باللہ آنحضرتﷺ) کو مدینہ سے نکال دے گا۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ مَیں اس منافق کی گردن اڑادوں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا چھوڑو اسے، لوگ باتیں کریں گے کہ خود اپنے صحابہ کو مرواتا ہے۔ تب اُس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ نے اعلان کیا کہ میرا باپ مدینہ نہیں لوٹے گا جب تک کہ وہ اس بات کا اقرار نہ کرے کہ وہ خود ذلیل ہے اور رسول اللہﷺ معزز ہیں۔
فتح مکہ سے قبل جب ابوسفیان مدینہ آئے اور اپنی بیٹی امّ حبیبہؓ کے گھر گئے۔ جب وہ بستر پر بیٹھنے لگے تو حضرت امّ حبیبہؓ نے بستر اٹھالیا اور فرمایا کہ یہ رسول اللہﷺ کا بستر ہے اور آپ مشرک ہیں۔ میں کیسے گوارا کر سکتی ہوں کہ ایک مشرک بسترِ رسول پر بیٹھے۔
حضرت عبداللہؓ نے غزوۂ احد پر روانہ ہوتے وقت اپنے بیٹے حضرت جابرؓ سے کہا کہ ممکن ہے مَیں شہید ہو جاؤں۔ رسول اللہﷺ کے سوا مجھے کوئی تم سے زیادہ عزیز نہیں، تم میرا قرض ادا کر دینا۔
وفد عبدالقیس جب آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ لوگ سواریوں سے اترتے ہی آپؐ کی طرف ایسے وفور محبت سے دوڑے کہ آپؐ کے ہاتھوں اور پاؤں کو چومنے لگے۔
آنحضورﷺ کے وصال کے بعد صحابہؓ آپؐ کی رفاقت کو یاد کرکے بہت رویا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت ابوہریرہؓ سے کہا کہ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے براہ راست آنحضورﷺ سے سنی ہو۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب اس کمرہ میں صرف مَیں تھا اور میرا آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ۔ یہ کہہ کر اُن پر ایسی کیفیت طاری ہوگئی کہ شدت جذبات سے کپکپی طاری ہوگئی اور آواز بھرا گئی اور نیم بیہوشی میں چلے گئے۔ افاقہ ہوا تو دوبارہ حدیث بیان کرنی شروع کی اور پھر وہی غشی طاری ہوگئی۔ تیسری دفعہ بھی ایسا ہی ہوا اور بمشکل آپؓ حدیث مکمل کرسکے۔
غزوہ تبوک سخت گرمی کے ایام میں ہوا۔ آنحضورﷺ کا قافلہ روانہ ہونے کے بعد حضرت ابو خیثمہ مالکؓ بن قیس ایک روز اپنے گھر پہنچے تو دیکھا کہ اُن کی بیویوں نے اُن کی آسائش کے لئے خوب انتظام کیا ہوا ہے۔ بالاخانے پر چھڑکاؤ کیا ہے اور ٹھنڈا پانی اور عمدہ کھانا مہیا کیا ہے۔ یہ سب دیکھ کر وہ کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہﷺ اس گرمی میں کھلے میدان میں ہوں اور ابو خیثمہ سایہ، ٹھنڈے پانی، عمدہ کھانے اور عورتوں کے ساتھ لطف اندوز ہو رہا ہو۔ آپؓ نے بالاخانے پر جانے کے بجائے زاد راہ لیا اور تبوک کی طرف روانہ ہوگئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں