طارق بن زیاد اور فتح ہسپانیہ

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جولائی 2011ء میں مکرم فرہاد احمد ایاز صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جو طارق بن زیاد اور فتح ہسپانیہ کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے۔
ہسپانیہ کا فاتح اور اس کا پہلا والی طارق بن زیادہ بن عبداللہ تھا جس نے مختصر سی فوج کے ساتھ یورپ کی عظیم سلطنت سپین (اندلس) کو فتح کیا اور اس ملک میں اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ وہ ایک متّقی، فرض شناس اور بلند ہمّت انسان تھا۔ حسن اخلاق کی بِنا پر عوام اور سپاہی اُس کا احترام کرتے تھے۔
طارق بن زیادہ کی تعلیم و تربیت مولیٰ بن نُصَیر جیسے ماہر حرب اور عظیم سپہ سالار کی نگرانی میں ہوئی۔ وہ غیرمعمولی ذہین، دُوربین اور مستعد قائد ہونے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اسی وجہ سے اُسے طنجہ کا والی مقرر کیا گیا۔ چونکہ افریقہ کی اسلامی سلطنت کو اندلس کی بحری قوّت سے خطرہ لاحق تھا نیز دوسرے محرکات کی بِنا پر موسیٰ بن نُصَیر نے جولائی 710ء میں وہاں کی معلومات حاصل کرنے کے لیے چار صد مجاہدین کی ایک جنگی مہم بھیجی جن کا قائد طریف بن مالک تھا۔ یہ دستہ جس جگہ اُترا اُس کا نام جزیرۂ طریف (Tarif) پڑگیا۔ طریفؔ نے جزیرہ خضراء پر حملہ کرکے اُسے فتح کرلیا۔ جس کے بعد موسیٰ بن نُصَیر نے طارق بن زیادہ کو سات ہزار سپاہی دے کر ہسپانیہ کی فتح کے لئے روانہ کیا۔ اس فوج میں بربروں کی تعداد زیادہ تھی۔ یہ لشکر 5رجب 92 ہجری کو جس ساحل پر اُترا وہ بعد میں جبل الطارق (Gibralter) کہلایا۔ طارق نے یہیں اپنے تاریخی خطبہ میں جہازوں کو جلانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تمہارے سامنے فتح ہے اور پیچھے موت۔ جلد ہی طارق کے فوجی دستوں نے قرب و جوار کے علاقے فتح کرکے فوج کے لئے سامانِ رسد حاصل کیا۔ ان علاقوں کے گورنر تدمیر (Theodomir) نے بادشاہ راڈرک (Roderic) کو اطلاع دی تو راڈرک ایک لشکر جرار لے کر مقابلے کے لئے آیا اور دریائے رباط کے کنارے خیمہ زن ہوا۔ اسی اثناء میں موسیٰ بن نُصَیر کی بھیجی ہوئی مزید پانچ ہزار سپاہ کی کمک بھی آپہنچی۔ جنگ آٹھ روز شدّت کے ساتھ جاری رہی جس کے بعد راڈرک بھاگ نکلا اور ہسپانوی فوج کو شکست ہوگئی۔ اس کے بعد طارق بن زیاد کو سارے سپین پر قبضہ کرنے میں زیادہ دیر نہ لگی۔
موسیٰ اور طارق کی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے حکم دیا کہ دونوں دارالخلافہ (دمشق) پہنچ جائیں۔ چنانچہ موسیٰ نے اپنے بہادر اور قابل بیٹے کو ہسپانیہ کا والی بنایا اور خود طارق کے ہمراہ 95 ہجری (بمطابق 714ء )میں کثیر مال غنیمت لے کرہسپانیہ سے دمشق پہنچا جہاں دونوں عظیم فاتحین کی عسکری زندگی کا خاتمہ ہوگیا اور وہ گمنامی کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اگریہ فاتحین دمشق کے دربار کی غیردانشمندانہ مداخلت سے آزاد ہوتے تو آج شاید یورپ میں اسلامی تاریخ مختلف ہوتی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں