صحابہؓ رسولؐ اور ذکرِ الٰہی

حضرت معاویہؓ نے ایک دفعہ مسجد نبوی میں کچھ لوگوں کو حلقہ بناکر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ آپؓ نے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم ذکر الٰہی کے لئے بیٹھے ہیں۔ آپؓ نے کہا کہ ایک بار آنحضرتﷺ مسجد میں تشریف لائے اور اپنے کچھ صحابہؓ کو حلقہ باندھے بیٹھے ہوئے دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم کس مقصد کےلئے یہاں بیٹھے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم یہاں ذکرِ الٰہی کے لئے بیٹھے ہیں … آپؐ نے فرمایا کیا خدا کی قسم کھا کر کہتے ہو کہ تمہارا مقصد صرف یہی ہے؟ صحابہؓ نے جواب دیا ہاں خدا کی قسم ہمارا مقصد صرف یہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ مَیں نے یہ قسم تمہیں اس لئے نہیں دلوائی کہ مجھے تم پر کوئی شک تھا، صرف بات یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر کرتا ہے۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ صحابہؓ کرام جب نماز سے فارغ ہوتے تو نہایت بلند آہنگی سے ذکر الٰہی کرتے۔ جب مَیں یہ غلغلہ سنتا تو سمجھ جاتا کہ صحابہؓ نماز پڑھ کر واپس آتے ہیں۔
ایک دفعہ غریب مہاجرین آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضورؐ اہل ثروت لوگ بڑے درجات پاگئے ہیں کیونکہ وہ ہماری طرح ہی نمازیں پڑھتے ہیں، ہماری طرح ہی روزے رکھتے ہیں مگر اُن کے پاس زائد مال ہے جس کے ذریعے وہ حج اور عمرہ اور جہاد اور صدقہ میں شریک ہوتے ہیں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ کیا مَیں تمہیں ایک ایسی بات نہ بتاؤں جس کے ذریعہ تم اپنے سے پہلے سے بھی اور بعد میں آنے والوں سے بھی آگے بڑھ جاؤ گے اور کوئی شخص تم سے فضیلت نہ لے جا سکے گا مگر بایں شرط کہ وہ بھی وہی کرنے لگے جو تم کرتے ہو۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ضرور بتائیے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ تم نماز کے بعد 33۔33 دفعہ تسبیح، تحمید اور تکبیر کیا کرو۔ کچھ عرصہ بعد وہ غریب مہاجرین پھر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی یہ بات سن لی ہے اور یہ ذکر الٰہی انہوں نے بھی شروع کردیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ پھر یہ خدا کا فضل ہے جسے چاہتا ہے، دیتا ہے۔
نماز باجماعت ذکر الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اقم الصلوٰۃ لذکری کہ میرے ذکر کیلئے نماز قائم کرو۔ صحابہؓ نماز باجماعت کی سختی سے پابندی کرتے تھے کہ بعض لوگ دو آدمیوں کے سہارے مسجد آکر شریکِ جماعت ہوا کرتے تھے۔۔ ایک صحابیؓ کہتے ہیں کہ نماز باجماعت سے صرف ایسا شخص ہی الگ رہتا تھا جس کا نفاق معروف ہوتا تھا۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ مسجد کی طرف جو قدم اٹھتا ہے اس پر ثواب ملتا ہے اس لئے بعض صحابہؓ نماز کو آتے تو قریب قریب قدم رکھتے تاکہ قدموں کی تعداد بڑھ جائے۔ حضرت ابی بن کعبؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری مسلمان کا گھر مسجد سے بہت دور تھا لیکن جماعت کے ساتھ اس کی ایک نماز بھی نہ چھٹتی تھی۔ کسی نے اس کو کہا کہ تم ایک گدھا خرید لو جس پر دوپہر کی گرمی اور رات کے اندھیرے میں سوار ہوکر مسجد آیا کرو۔ اُس نے جواب دیا کہ مَیں تو یہ بھی پسند نہ کروں گا کہ مجھے مسجد کے پہلو میں مکان مل جائے کیونکہ میرا دل چاہتا ہے کہ میرے مسجد کو چل کر آنے اور گھر واپس جانے کا ثواب میرے نامہ اعمال میں لکھا جائے۔ آنحضرتﷺ نے اس کا جواب سن کر فرمایا قد جمع اللّٰہ لک ذٰلک یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ سب ثواب تمہارے لئے اکٹھا کر رکھا ہے۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ نوافل کے ذریعہ بندہ اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھتا چلا جاتا ہے حتی کہ اللہ تعالیٰ بندہ کے ہاتھ اور پاؤں اور آنکھ اور کان بن جاتا ہے۔
صحابہؓ کو نوافل کا ایسا شوق تھا کہ اگر بیرون سے آیا ہوا کوئی شخص نماز سے پہلے مسجد پہنچتا تو اس کو یہ غلط فہمی ہوتی کہ شاید نماز باجماعت ہوچکی ہے اور نمازی سنتوں کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔
ایک بار آنحضرتﷺ نے بلالؓ سے دریافت فرمایا کہ اسلام لاکر تم نے ثواب کی امید پر جو کام کئے ہیں ان میں سے بہترین کام مجھے بتاؤ کیونکہ مَیں نے جنت میں اپنے آگے آگے تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے۔ حضرت بلالؓ نے عرض کی کہ میرے خیال میں میرا سب سے بہتر عمل یہ ہے کہ مَیں نے رات یا دن کی کسی گھڑی میں کبھی وضو نہیں کیا مگر لازماً اس کے ساتھ جتنے نفل کی توفیق ملی وہ بھی ادا کئے ہیں۔
صحابہؓ کے نوافل کے حُسن اور طُول کا یہ عَالم تھا کہ حضرت انسؓ رکوع کے بعد اور قیام میں اور دونوں سجدوں کے درمیان اس قدر دیر لگاتے کہ لوگ سمجھتے کہ کچھ بھول گئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو معلوم ہوتا کوئی ستون کھڑا ہے۔ ایک روز رکوع میں اس قدر جھکے رہے کہ ایک شخص نے سورۃ البقرہ اور آل عمران جیسی لمبی سورتیں پڑھ لیں لیکن انہوں نے اس دوران سر نہ اٹھایا۔
نوافل میں تہجد کو جو اہمیت حاصل ہے وہ محتاجِ بیان نہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓکے متعلق آنحضورﷺ نے فرمایا کہ عبداللہ کتنا اچھا آدمی ہے اگر وہ رات کو نفل پڑھا کرے۔ حضورؐ کے اس ارشاد کے بعد آپؓ رات کا زیادہ وقت تہجد میں گزارتے اور تھوڑا ہی سوتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ، اُن کی بیوی اور خادم نے رات کے تین حصے کرلئے ہوئے تھے اور تینوں باری باری نماز سے فارغ ہوتے اور دوسرے کو جگا دیتے۔
بعض صحابہؓ کو نماز تہجد میں اتنا غلو ہو جاتا کہ آنحضورﷺ انہیں اعتدال کی تلقین کرتے۔ حضرت زینب بنت جحشؓ نے دو ستونوں کے درمیان ایک رسّی باندھ رکھی تھی تاکہ تھک کر نیند آنے لگے تو اس کا سہارا لے لیں۔ آنحضورﷺ کو علم ہوا تو آپؐ نے وہ رسّی کھلوا کر پھینکوادی اور فرمایا کہ ان کو صرف اسی قدر نماز پڑھنی چاہئے جو ان کی طاقت میں ہو، اگر تھک جائیں تو بیٹھ جانا چاہئے۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ بن عاص کہتے ہیں کہ مَیں نے ایک بار ارادہ کیا کہ تمام زندگی دن کو روزہ رکھوں گا اور تمام رات نفل پڑھوں گا۔ آنحضورﷺ کو علم ہوا تو فرمایا ایسا نہ کرو، روزہ بھی رکھو اور افطار بھی کرو، نماز کے لئے بھی اٹھو اور کچھ وقت رات کو سوکر گزارو اور ہر ماہ تین دن کے روزے رکھ لیا کرو کیونکہ نیکی کا بدلہ دس گنا ہوتا ہے۔ مَیں نے کہا حضورؐ مجھے اس سے زیادہ طاقت ہے۔ فرمایا دو دن روزہ رکھو اور ایک دن چھوڑ دو۔ میں نے کہا مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے۔ فرمایا تو پھر حضرت داؤد علیہ السلام کی سنت کے مطابق ایک دن روزہ رکھو اور ایک چھوڑ دو، اس سے زیادہ روزہ رکھنا فضیلت کی بات نہیں۔
ایک بار آنحضرتﷺ نے عبداللہ بن عمرؓ کی کثرت تلاوتِ قرآن دیکھ کر فرمایا کہ ایک مہینہ میں ایک بار قرآن ختم کیا کرو۔ انہوں نے عرض کی مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔ فرمایا کہ بیس دن میں۔ گزارش کی مَیں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا، دس دن میں۔ عرض کی مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔ آپؐ نے فرمایا اچھا سات دن میں … اور اب اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔
ذکر الٰہی کے ساتھ دل میں نرمی، طبیعت میں خشیت اور آنکھوں میں آنسو لازمی ہیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ابوبکرؓ جب قرآن پڑھتے تو آنسوؤں کو روک نہیں سکتے تھے۔
اگر کوئی قیمتی سے قیمتی چیز بھی صحابہؓ کے ذکرِ الٰہی میں حائل ہوتی تو وہ اُن کی نظر سے گر جاتی۔ حضرت ابو طلحہؓ انصاری اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ ایک چڑیا اڑتی ہوئی آئی اور باغ کی گھنی شاخوںمیں پھنس گئی۔ آپؓ کو باغ کی شادابی اور چڑیا کی اچھل کود کا یہ منظر بہت پسند آیا اور کچھ دیر تک اس کو دیکھتے رہے۔ پھر نماز کی طرف توجہ کی تو یاد نہ رہا کہ کتنی رکعات پڑھی ہیں۔ دل میں کہا کہ اس باغ نے یہ فتنہ پیدا کیا۔ فوراً رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور اس باغ کو صدقہ کردیا۔
ایک اور صحابیؓ اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ پھل سے لدے ہوئے درخت دیکھ کر اس قدر فریفتہ ہوئے کہ نماز کی رکعتیں یاد نہ رہیں۔ آپؓ حضرت عثمانؓ کی خدمت میں آئے اور باغ کو صدقہ کردیا جو پچاس ہزار پر فروخت کیا گیا۔
ایک صحابیؓ ایک پہاڑی درّہ پر مامور تھے اور اُن کے قریب ہی اُن کے ساتھی سو رہے تھے۔ اتفاقاً ایک مشرک آیا اور اُس نے تین تیر اُن کے جسم میں پیوست کردیئے لیکن وہ صحابیؓ برابر نماز پڑھتے رہے۔ جب دوسرے ساتھی اٹھے اور اِن کے زخموں سے خون نکلتے دیکھ کر کہا کہ مجھے پہلے کیوں نہ جگایا تو بولے کہ مَیں نماز میں ایک سورۃ پڑھ رہا تھا جس کو ناتمام چھوڑنا مجھے پسند نہ آیا۔
صحابہؓ کرام اگرچہ ذکر الٰہی کے دلدادہ تھے لیکن خشک صوفیوں کی طرح اُن کی زندہ دلی میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ اُن کی مجلسوں میں دلچسپی کی باتیں ہوتیں، جاہلیت کے واقعات کے تذکرے ہوتے اور اشعار پڑھے جاتے۔ ہاں جب کوئی خدا کا کام آ جاتا تو اُن کی آنکھیں پھر جاتیں اور وہ دیوانہ وار اس کام کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔
یہ مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍اپریل 1999ء میں مکرم سید میر محمود احمد صاحب ناصر کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں