شیر خدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اپریل و جولائی 1999ء میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی سیرۃ و سوانح پر ایک تفصیلی مضمون مکرم فرید احمد نوید صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت علیؓ بن ابو طالب کی کنیت ابوالحسن اور ابو تراب تھی اور آپؓ آنحضورﷺ کے چچازاد بھائی تھے، بچپن ہی سے حضور اکرمؐ کے ساتھ رہے اور آپؐ ہی کے گھر میں پرورش پائی۔ قریباً دس سال کی عمر میں اسلام قبول کرکے بچوں میں سب سے پہلے مسلمان ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ آپؓ کے والدین نے بھی آپؓ کے قبول اسلام پر کوئی اعتراض نہ کیا بلکہ بعد ازاں آپؓ کی والدہ نے بھی اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کرلی۔
حضرت علیؓ نے مکّی زندگی کے تیرہ سال خادمانہ محبت کے ساتھ آنحضورﷺ کے ساتھ گزارے اور ہر تکلیف برداشت کی۔ نبوت کے چوتھے سال جب آنحضورؐ کو اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہوا تو آپؐ نے اپنے قریبی عزیزوں کی دعوت کی۔ دعوت میں موجود چالیس کے قریب مدعوئین کے سامنے جب آپؐ نے اسلام کی تعلیم بیان کی تو سوائے حضرت علیؓ کے کسی نے بھی تصدیق نہیں کی۔ حضرت علیؓ نے نہ صرف تصدیق کی بلکہ آپؐ کا ساتھ دینے کا عہد بھی کیا جسے زندگی بھر نبھایا۔
جب آنحضورﷺ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمانے لگے تو آپؐ نے حضرت علیؓ کو اپنے گھر کی نگرانی سونپی اور لوگوں کی امانات سپرد کیں تاکہ آپؓ انہیں واپس کردیں اور پھر اپنے بستر پر سونے کا ارشاد فرمایا۔… حضرت علیؓ نے وہ رات آنحضورؐ کے بستر پر بسر کی اور صبح جب دشمن نے بستر کے قریب آکر جائزہ لیا تو وہ اپنا سر پیٹ کر رہ گئے۔ پھر حضرت علیؓ بھی ضروری معاملات سے فارغ ہوکر جب مدینہ پہنچے تو آنحضورﷺ نے بڑی محبت سے آپؓ کا استقبال کیا اور مواخات کے ذریعہ سے جہاں انصار اور مہاجرین کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا وہاں حضرت علیؓ کو اپنا بھائی قرار دیا۔
میدانِ بدر میں جب جنگ سے قبل مبارزت کا آغاز ہوا تو ولید کے مقابلہ کے لئے آنحضورﷺ کے ارشاد پر حضرت علیؓ میدان میں آئے اور نہایت پھرتی سے اُس کا کام تمام کردیا۔ پھر اپنے ساتھی عبیدہؓ کی مدد کے لئے بڑھے جو شیبہ سے برسرپیکار تھے اور شیبہ کو بھی واصل جہنم کیا۔ پھر جب باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا تو بھی آپؓ نے نہایت جرأت سے دشمن پر کاری ضربیں لگائیں۔
سن دو ہجری میں آپؓ کا نکاح آنحضرتﷺ کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ سے ہوگیا۔ اس رشتے کی خواہش خود حضرت علیؓ نے کی تھی جسے آنحضورؐ نے منظور فرمایا اور پوچھاکیا تمہارے پاس مہر ادا کرنے کے لئے کچھ رقم ہے؟۔ آپؓ نے عرض کیا رقم تو نہیں ہے، لیکن ایک گھوڑا اور ایک زرّہ موجود ہے۔ چنانچہ آپ نے گھوڑا تو غزوات میں شرکت کے لئے رہنے دیا لیکن زرّہ فروخت کرنے کا ارادہ کیا۔ حضرت عثمانؓ نے آپؓ کی یہ زرّہ 480؍درہم میں خرید لی اور اس طرح آپؓ کے نکاح کا انتظام ہوگیا۔ رخصتی کے بعد آپؓ ایک علیحدہ مکان میں حضرت فاطمہؓ کو لے آئے اور مزدوری کرکے اپنا پیٹ پالنا شروع کیا۔ لیکن چونکہ کوئی باقاعدہ ذریعہ روزگار نہ تھا اس لئے اکثر فاقے کرنے پڑتے۔ سیدۃ النساء حضرت فاطمہؓ بھی کئی کئی وقت فاقہ سے ہوتیں اور گھر کا سارا کام اپنے ہاتھوں سے کرتیں۔
غزوۂ اُحد میں جب مسلمانوں کے قدم وقتی طور پر اکھڑ گئے تو بھی حضرت علیؓ آنحضورﷺ کے ساتھ موجود رہے۔ غزوہ خندق میں بھی آپؓ نے شرکت کی۔ 7؍ہجری میں خیبر کی مہم کی کمان آپؓ کے سپرد ہوئی اور آپؓ نے یہودیوں کے وہ مضبوط قلعے فتح کرنے کی توفیق پائی جنہیں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا چنانچہ آپؓ فاتح خیبر کہلائے۔
8؍ہجری میں فتح مکہ کے موقع پر آپؓ بھی فوج کا علم سنبھالے بڑی شان کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے۔ 9؍ہجری میں غزوہ تبوک کے موقع پر آنحضورﷺ نے آپؓ کو اہل بیت کی حفاظت کے لئے مدینہ میں ہی ٹھہرنے کا ارشاد فرمایا۔
آنحضورﷺ کی وفات کے بعد آپؓ نے حضر ت ابوبکر صدیقؓ کی بیعت کی اور نظام خلافت سے چمٹے رہے۔ آپؓ کی بیٹی ام کلثوم کی شادی چونکہ حضرت عمرؓ سے ہوئی تھی اسلئے حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں آپؓ کی اُن سے محبت دوچند ہوگئی۔ حضرت عثمانؓ کے دَور میں بھی آپؓ ایک وفادار ساتھی کے طور پر موجود رہے اور جب باغیوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کرلیا تو آپؓ نے ایک طرف اپنی عزت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے باغیوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور دوسری طرف اپنے آقا کی خدمت کے لئے ہر وقت کمربستہ رہے۔ آپؓ نے باغیوں کی اس پیشکش کو بھی نفرت کے ساتھ ٹھکرادیا جس میں حضرت عثمانؓ کو معزول کرنے اور آپؓ کے خلیفہ بننے کی خواہش کی گئی تھی۔ جب معاملہ حد سے بڑھ گیا تو آپؓ نے اپنے بیٹوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو حضرت عثمانؓ کی حفاظت کیلئے اُن کے گھر بھجوادیا۔
جب باغیوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کی پچھلی دیوار پھاند کر اُنہیں شہید کردیا تو وہ حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کے پاس باری باری آئے تاکہ ان میں سے کوئی زمام خلافت سنبھال لے۔ جب تینوں میں سے کوئی بھی قاتلوں کا امام بننے پر راضی نہ ہوا تو انہوں نے اعلان کیا کہ اگر دو روز کے اندر کوئی فیصلہ نہ کیا گیا تو وہ ان تینوں کو قتل کردیں گے۔ چونکہ اُن کا ظلم اہل مدینہ دیکھ چکے تھے لہٰذا وہ اکٹھے ہوکر حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس منصب کو سنبھالنے کی درخواست کی۔ آپؓ نے معذرت کی۔ جب دیگر صحابہؓ نے بھی معذرت کردی تو پھر اصرار کے ساتھ آپؓ سے درخواست کی گئی۔ تب آپؓ نے مسجد نبویؐ میں اس بوجھ کو اٹھانے کی حامی بھری۔
ایسے حالات میں جب بڑے بڑے بہادر دل ہار بیٹھے تھے تو حضرت علیؓ خدا کے شیر کی طرح اٹھے اور دین اسلام کی غیرت پر مسلمانوں کا راہنما بننا قبول کرلیا لیکن افسوس کہ کچھ ہی دن میں حضرت علیؓ پر باغیوں کا ساتھی ہونے کا الزام لگایا جانے لگا اور حضرت عثمانؓ کی شہادت کا بدلہ لینے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ حضرت علیؓ کے احکامات کی باغیوں نے مسلسل نافرمانی کی اور دوسروں سے بھی جبراً کروائی۔ چنانچہ جب بے دین غلاموں پر قابو پانے کے لئے حضرت علیؓ نے حکم دیا کہ ہر غلام اپنے آقا کے پاس چلا جائے تو باغیوں نے منع کردیا۔ پھر آپؓ نے باہر سے آنے والے بدویوں کو جو لوٹ مار کی نیت سے شہر میں آئے تھے، واپس چلے جانے کا ارشاد فرمایا تو انہیں بھی باغیوں نے اس حکم کو ماننے سے منع کردیا۔ ایسے میں حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بھی آپؓ کے پاس آئے اور باغیوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ آپؓ نے پوچھا کہ عملاً اس وقت مدینہ کا حاکم مَیں ہوں یا باغی؟۔ انہوں نے جواب دیا کہ باغی۔ اس پر آپؓ نے فرمایا کہ مَیں کس طرح اُن سے بدلہ لوں جب تک باہر سے مدد نہ آ جائے۔ اس پر دونوں صحابہؓ مطمئن ہوکر مکّہ کی طرف چلے گئے تاکہ حضرت عثمانؓ کے انتقام کے لئے لوگوں کو جوش دلائیں۔ حضرت عائشہؓ نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ چنانچہ سات آٹھ سو افراد اکٹھے ہوگئے۔ لیکن یہ تعداد تھوڑی تھی چنانچہ یہ بصرہ کی طرف روانہ ہوئے جو فوج کی چھاؤنی تھی۔
جب حضرت علیؓ کو اطلاع ہوئی تو آپؓ بھی بصرہ روانہ ہوئے اور حضرت عائشہ ؓ کی طرف ایک صحابی کو بھجوایا کہ دریافت کریں کہ کس غرض سے آئی ہیں۔ جواب ملا ’’اصلاح کے لئے‘‘۔ آپؓ نے فرمایا کہ پھر لڑائی کیوں کریں، خود مل کر فیصلہ کرلیتے ہیں۔ اس پر طرفین راضی ہوگئے اور حضرت علیؓ نے اعلان کردیا کہ جو لوگ حضرت عثمانؓ کے قتل میں شریک تھے وہ میرے لشکر میں نہ رہیں۔ چنانچہ مفسدوں نے اس ڈر سے کہ صلح ہوگئی تو وہ بے نقاب ہو جائیں گے اُسی رات شب خون مارا اور دونوں طرف یہ افواہ پھیلادی کہ گویا مخالف فریق نے حملہ کردیا ہے۔ ایسے میں بھی حضرت علیؓ نے احتیاط کی اور حکم دیا کہ ہمارا کوئی آدمی اُن سے نہ لڑے خواہ وہ لڑتے رہیں۔ لیکن مفسد وں نے نہ مانا چنانچہ فریقین نہ چاہتے ہوئے بھی لڑائی میں کود پڑے۔ حضرت علیؓ نے ایک آدمی کو قرآن دے کر بصرہ والوں کی طرف بھیجا کہ اس پر صلح کرلو لیکن انہوں نے خیال کیا کہ پہلے تو دھوکہ سے حملہ کیا گیا ہے اسلئے اب تو یہ نہیں ہو سکتا اور انہوں نے قرآن لے جانے والے آدمی کو قتل کردیا۔ اس پر حضرت علیؓ نے بھی لڑائی شروع کردی۔
لڑائی زور وشور سے جاری تھی جب ایک صحابی حضرت کعبؓ نے حضرت عائشہؓ سے عرض کی کہ مسلمان ایک دوسرے کو مار رہے ہیں لیکن آپؓ کے ذریعہ اُن کی جان بچ سکتی ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ اونٹ پر سوار ہوکر میدان میں پہنچیں اور کعبؓ کو قرآن دے کر کھڑا کیا کہ اس پر فیصلہ کرلو۔ حضرت علیؓ نے لڑائی بند کرنے کا حکم دیا لیکن مفسدوں نے بے تحاشہ تیر برسانے شروع کردیئے۔ جب کعبؓ شہید ہوگئے اور تیر حضرت عائشہؓ پر پڑنے لگے تو بڑے بڑے مسلمان بہادر حضرت عائشہؓ کے سامنے آتے اور مارے جاتے۔ آخر جب مسلمانوں کا بہت جانی نقصان ہوگیا تو حضرت عائشہ ؓ کے اونٹ کے پاؤں کاٹ دیئے گئے۔ اونٹ گرا تو بصرہ والے بھاگ گئے اور میدان پر حضرت علیؓ کا قبضہ ہوگیا۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد حضرت عائشہؓ مدینہ جانا چاہتی تھیں چنانچہ انہیں مدینہ روانہ کردیا گیا۔ حضرت علیؓ دوسرے صحابہؓ کے ہمراہ انہیں الوداع کرنے آئے۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ ہم میں کوئی عداوت نہیں۔یہی بات حضرت علیؓ نے کہی اور اس طرح بالکل صلح صفائی ہوگئی۔یہ جنگ جنگِ جمل کہلاتی ہے۔
پھر حضرت علیؓ کوفہ تشریف لے گئے اور مدینہ کی بجائے کوفہ کو دارالخلافہ مقرر کردیا۔ جلد ہی مفسدین کی وجہ سے حضرت علیؓ کو حضرت امیر معاویہؓ کے ساتھ بھی جنگ میں الجھنا پڑا۔ جسے جنگ صفین کہا جاتا ہے۔ اسی جنگ کے دوران ’’خوارج‘‘ کا فتنہ بھی کھل کر سامنے آگیا جنہوں نے کھلے عام خلافت کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ چنانچہ 40؍ہجری میں انہوں نے ایک بدقسمت خارجی عبدالرحمٰن بن ملجم کو حضرت علیؓ کے قتل کے لئے تیار کیا۔ وہ کوفہ پہنچا اور رمضان کی ایک صبح جب حضرت علیؓ نماز فجر ادا کرنے کے لئے مسجد تشریف لائے تو اُس بدبخت نے زہر میں بھگویا ہوا خنجر جسم مبارک میں پیوست کردیا۔ جلد ہی جسم میں خنجر کا زہر پھیل گیا اور 20؍ رمضان المبارک کی رات آپؓ کا وصال ہوگیا اور اِس بے نفس اور پاک انسان کو کوفہ کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں