شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ اگست 2011ء میں مغل بادشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے بارے میں عزیزہ س۔نصیر کا ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
شہنشاہ اکبر کے ہاں بڑی دعاؤں اور منّتوں کے بعد 30؍اگست 1569ء کو فتح پور سیکری کے مقام پر شیخ سلیم چشتی کے تکیہ میں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام شیخ سلیم چشتی کے نام پر محمد سلیم رکھا گیا۔ اس بچے کی ماں جے پور کی رانی جودھا بائی عرف مریم زمانی تھی۔ اکبر کو بیٹے کی پیدائش کی اتنی خوشی ہوئی کہ وہ اپنی منّت کے مطابق حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے مزار پر پیدل چل کر حاضر ہوا۔
شہنشاہ اکبر خود تو اَن پڑھ تھا مگر اس نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دی اور عبدالرحیم کو استاد مقرر کیا۔ شہزادہ سلیم قدرتی طور پر بہت ذہین تھا اس لیے بہت جلد عربی، فارسی، سنسکرت اور ترکی زبانوں پر عبور حاصل کرنے کے بعد جغرافیہ، علم نباتات، موسیقی اور فن مصوّری میں بھی کمال حاصل کیا۔ صرف بارہ سال کی عمر میں کابل کی مُہم کے دوران اُس نے فوج کی کمان بھی سنبھالی۔
شہزادہ سلیم کی پہلی شادی پندرہ سال کی عمر میں ریاست کے والی راجہ بھگوان داس جواہر کی بیٹی مان بائی عرف شاہ بیگم سے ہندوانہ اور اسلامی طریقوں پر ہوئی۔ بعدازاں مان بائی شاہ بیگم افیون کی بھاری مقدار کھاکر مرگئی جس کا سلیم کو بہت دکھ ہوا۔
شہزادہ سلیم اوائل عمر میں عیش و عشرت کا دلدادہ تھا۔ اکبر کا سمجھانا بھی کسی کام نہ آیا۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ باپ بیٹے میں ناراضگی کی وجہ اکبر کی اسلام کش پالیسی تھی۔
36 سال کی عمر میں شہزادہ سلیم تخت نشین ہوا اور اس نے نورالدین محمد جہانگیر کا لقب اختیار کیا۔ تاجپوشی کی تقریب آگرہ کے قلعہ میں منعقد ہوئی۔ جہانگیر نے اپنی سرگزشت بھی لکھی جو ’’تزک جہانگیری‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
جہانگیر نے 22سال ہندوستان پر حکومت کی۔ اُس کی اصلاحات میں کئی قسم کے ٹیکسوں کی منسوخی کا اعلان نیز شاہراہوں کے تحفظ کے لیے شاہراہوں سے متصل مساجد اور کنوؤں کی تعمیر، بستیوں کا قیام شامل ہے۔ اُس نے شراب اور دیگر تمام منشّیات کی تیاری اور فروخت پر پابندی لگادی۔ مجرموں کے ناک، کان کاٹنے کی بہیمانہ سزاؤں کو موقوف کردیا۔ سرکاری حکّام کو عوام کے گھروں میں ٹھہرنے کی ممانعت کردی۔ کاشت کاروں کو جبراً اُن کی اراضی سے بے دخل کرنے سے روک دیاگیا۔ بڑے شہروں میں ہسپتال قائم کرکے مفت علاج کی سہولیات فراہم کیں۔ ہفتہ میں تین دن جانوروں کے ذبیحہ کی ممانعت کردی۔ اکبر کے زمانے کے جو لوگ قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے تھے ان سب کو معاف کردیا۔ وہ عدل و انصاف کا دلدادہ تھا۔ اپنے محل کے دروازے پر ایک زنجیرِ عدل لٹکارکھی تھی جس کو فریادی کھینچتا تو بادشاہ خود اُس کی فریاد سنتا۔ سونے کی یہ زنجیر تیس گز لمبی اور ساٹھ سونے کی گھنٹیوں سے مزیّن تھی اور اس کا وزن چار من تھا۔
کشمیر سے لاہور واپس آتے ہوئے بھمبر کے مقام پر دمہ کے شدید حملے کے نتیجے میں 28؍اکتوبر 1627ء کو 58 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوگیا۔ اُس کی وصیت کے مطابق نعش کو لاہور لاکر شاہدرہ کے قریب دلکشا باغ میں دفن کیا گیا۔ پہلے یہ باغ مہدی قاسم خان کا باغ کہلاتا تھا جو اکبر کا منصب دار تھا۔ بعد میں نورجہاں نے اس باغ کا نام دلکشا باغ رکھا۔
جہانگیر نے اپنے دَور کے علماء کے اُکسانے پر مجدّد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی کے ساتھ ناروا سلوک کرتے ہوئے اُنہیں گوالیار کے قلعے میں قید کردیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں