شہد کے چھتہ کی ملکہ مکھی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍جون 2007ء میں مکرم خالد سیف اللہ خانصاحب کے قلم سے شہد کی ملکہ مکھی کے بارہ میں ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
سڈنی یونیورسٹی کے شعبہ بیالوجی نے شہدکی مکھیوں کے چھتے پر تحقیق کرتے ہوئے معلوم کیا ہے کہ مکھیاں اپنی ملکہ کی سختی سے اطاعت کرتی ہیں اور ہمیشہ ان کی خدمت پر مستعد رہتی ہیں۔ کچھ مکھیاں نظم ونسق قائم رکھنے کے لئے پولیس کا کردارادا کرتی ہیں اور کچھ بیرونی حملہ کے خلاف بارڈرسیکیورٹی کا کام سرانجام دیتی ہیں۔ شہد کی عام کالونی میں انڈے دینے کاحق صرف ملکہ کو ہوتاہے۔ اگر کوئی اور مکھی انڈا دینے کی جسارت کرے توپولیس کی مکھیاں وہ انڈا فوراً ہڑپ کرجاتی ہیں۔ لیکن جونہی کوئی ملکہ وفات پاجاتی ہے توساری کالونی ایک طوائف الملوکی کا شکار ہوجاتی ہے۔ نظم ونسق قائم رکھنے والی پولیس مکھیاں بھی اپنا کام چھوڑ کربیٹھ جاتی ہیں اور بارڈرکی حفاظت کرنے والی بھی اپنے کام سے غافل ہوجاتی ہیں۔ تجربات میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ جونہی ملکہ کو پکڑ کر باہر نکال لیا گیا تومکھیوں نے سمجھا کہ ان کی ملکہ فوت ہوگئی ہے۔ اور اس کے بعد ایسی افراتفری اور بدنظمی دیکھنے میں آئی جس نے ماہرین کو حیران کردیا۔ اور جونہی اس کا علم دوسری مکھیوں کی کالونیوں کو ہوا توانہوں نے بے ملکہ کی کالونی پر دھاوا بول دیا۔دوسرے چھتوں کی مکھیاں جو اپنی اپنی ملکہ کی موجودگی کی وجہ سے وہاں انڈے نہیں دے سکتی تھیں وہ ایسے موقع کی تلاش میں رہتی ہیں اور ایسے چھتہ میں آ کر انڈے دے دیتی ہیں کیونکہ وہاں انہیں کوئی روکنے والانہیں ہوتا۔
مکھیوں کے جینز کے تجزیہ سے پتہ چلاہے کہ ملکہ کے چھتہ میں تیسرا حصہ ایسی مکھیوں کا تھا جن کا تعلق دوسرے چھتوں سے تھا۔ لیکن دوسری کالونیوں سے آئی ہوئی مکھیوں کے نَر بچے جب جوان ہوتے ہیں تو پتہ نہیں کیسے ان کو یہ احساس ہوتاہے کہ ہم دراصل دوسری کالونیوں سے تعلق رکھنے والے ہیں اس لئے وہ یہ چھتّہ چھوڑ کر اپنے اصلی چھتوں میں چلے جاتے ہیں یا پھرکوئی اور ملکہ تلاش کر کے اپنے لئے نئی کالونی بسا لیتے ہیں۔
چھتے کا ہر خانہ چھ پہلوؤں پرمشتمل ہوتا ہے۔ اگر خانہ کی اطراف چھ سے کم یا زیادہ ہوتے تو وہ ایک دوسرے کے ساتھ برابر صحیح نہ بیٹھتے اور شہد ٹکپتا رہتا۔ چھتے کا ڈیزائن بالکل ویسا ہی ہے جیسا شہد کو بحفاظت جمع کرنے کے لئے ہونا چاہئے تھا۔ ایک مکھی کوشہد کی تلاش کے دوران اگر کہیں مناسب پودے اور پھول وغیرہ ملتے ہیں یا کسی دشمن کا پتہ چلتا ہے تو وہ واپس آکر اپنی ساتھیوں کو اشاروں کی زبان میں اس کی اطلاع دیتی ہے۔ ایک چمچہ شہد کے لئے ایک مکھی کو اندازاً دو ہزارمیل کا سفر جنگل میں کرنا پڑتا ہے۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے ایک بار حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا تھا کہ حق تو یہ ہے کہ شہد کے ہرچمچہ کوکھاتے ہوئے خدا تعالیٰ کا دوہزاربار شکر ادا کرنا چاہئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں