سیرت سیدنا حضرت مسیح موعودؑ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍اپریل 2007ء میں حضرت مرزا نذیر حسین صاحبؓ کی روایات کے حوالہ سے سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کے بعض درخشندہ پہلو شامل اشاعت ہیں۔
نماز تہجد کا معمول
حضرت مسیح موعودؑ کا معمول تھا کہ رات تقریباً بارہ بجے تک تصنیف کا کام کرتے رہتے پھر سو جاتے اور رات دو بجے پھر اُٹھ بیٹھتے اور وضو کرکے نماز تہجد میں مصروف ہوجاتے اور صبح کی اذان سے تقریباً 15 منٹ پہلے نماز سے فارغ ہوتے۔ آپ کی تہجد میں رکعات زیادہ نہیں ہوتی تھیں، نماز لمبی ہوتی تھی۔ زیادہ وقت سجدوں میں لگاتے۔ جب بھی مجھے حضورؑ کے نماز والے کمرہ میں سونے کا اتفاق ہوا حضورؑ کو میں نے تہجد میں نماز کے دوران سجدہ میں بہت گریہ وزاری کرتے دیکھا جیسے ہنڈیا چولہے پر پک رہی ہو۔ قیام میں سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ کے وقت بھی دعا فرمالیا کرتے تھے۔
موسمِ سرما میں نماز عشاء کے بعد تانبے کی گاگر میں گرم پانی ڈلواکر اوپر تین لوئیاں ڈال لیتے تھے اور چاروں طرف سے ڈھک دیتے تھے۔ اس طرح وہ پانی تہجد کے وقت تک گرم ہی رہتا۔
دو زرد چادریں یعنی دو بیماریاں حضورؑ کو تھیں۔ ایک دوران سر کی اور دوسری کثرت پیشاب کی۔ حضورؑ تصنیف کرتے وقت یا پڑھتے وقت عمداًٹہلتے تاکہ دوران سر کے چکروں کا اثر کم ہو۔ پیشاب کے دورے کے اوقات میں حضورؑ تہجد کی دو رکعت پڑھ کر پیشاب کے لئے جاتے اور آکر پھر وضو فرماتے۔ ایک دفعہ میں نے بھی کوشش کی اور حضورؑ سے ذرا فاصلہ پر نماز شروع کی۔ حضورؑ کی نماز اتنی لمبی تھی کہ خاکسار جو کہ تندرست اور مضبوط تھا وہ بھی پون گھنٹے کے بعد تھک گیا اور دو رکعت ختم کر لیں۔ حضورؑ کا دستور نماز تہجد کے بعد عموماً استغفار، تسبیح و تحمید اور درود بکثرت پڑھنے کا تھا۔ تہجد میں جب حضور دو رکعت ختم کرتے تب بھی تسبیح و تحمید کے بعد استغفار پڑھتے پھر نماز شروع کرتے۔ حضورؑ کا معمول تھا کہ اذان صبح کے بعد تھوڑی دیر تک استغفار ہی پڑھتے اور پھر مسجد تشریف لے جاتے۔ مسجد جاتے ہوئے تیز چلتے اور ساتھ ہی کچھ پڑھتے جاتے تھے۔ میں نے کئی بار کوشش کی کہ حضورؑجو پڑھتے ہیں، میں بھی سن کر پڑھا کروں۔ مگر حضورؑ کی رفتار اتنی تیز ہوتی کہ خاکسار ساتھ مل کر نہ سن سکتا۔ مسجد میں فرض پڑھنے کے بعد اگر کوئی ملنے والے ہوتے تو مسجد میں ٹھہر جاتے۔ ان سے فارغ ہوکر پھر جلد گھر آکر قرآن کی تلاوت فرماتے اور تلاوت کے بعد سیر کے لئے جاتے۔
کھانے کا دستور
جب تک حضورؑ کا لنگرخانہ حضور کے گھر میں تھا تو حضورؑ مہمانوں کے ساتھ گول کمرہ میں کھانا کھایا کرتے تھے۔ حضورؑ کا دستور بھی بہت کم کھانے کا تھا۔ حضور احباب کے ساتھ ہی کھانے پر بیٹھتے اور احباب کے ساتھ ہی کھانے سے اٹھتے۔ اس دوران احباب کے سوالات کا تسلی بخش جواب بھی دیتے۔ حضورؑ روٹی کا چھوٹا سا ٹکڑا توڑ کر ہاتھ میں لے کر اس کو انگلیوں میں ملتے تھے، پھر اس کو نظر کے سامنے لاکر دیکھتے۔ کبھی اس کو سالن سے لگا کر کھا لیتے اور کبھی چھوڑ دیتے۔ مشکل سے نصف روٹی کھائی ہوتی۔ میرا دستور تھا کہ وہ ٹکڑے جو حضور نے چھوڑ دیئے ہوتے تھے ان کو اکٹھا کر کے خود کھا لیتا۔ اور بچی ہوئی روٹی میں سے بھی کچھ کھا لیتا۔ یہ بات میری سمجھ میں ایک عرصہ تک نہ آئی کہ حضور بعض ٹکڑے کھانے سے کیوں چھوڑ دیتے ہیں۔ آخر ایک دن حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سے یہ سوال پوچھا تو آپؓ نے فرمایا کہ اہل اللہ جب کھانے بیٹھتے ہیں تو وہی کھاتے ہیں جس کو خدا کھانے کے لئے کہتا ہے، باقی نہیں کھاتے۔
نماز باجماعت
جب کبھی حضورؑ ناسازیٔ طبع کے باعث مسجد نہ آسکتے تو اپنے گھر والوں کو اکٹھا کر کے خود نماز پڑھا دیتے۔ یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ کوئی نماز باجماعت سے ادھر اُدھر ہوجائے۔ اگر کوئی جماعت کے وقت موجود نہ ہوتا تو اس سے باز پرس فرماتے۔
قرآن سنتے
جب حضورؑ کو دوران سر کی شدید تکلیف ہوتی اور کسی طرح چین نہ آتا تو فرماتے کہ قرآن سنایا جائے۔ حضورؑ قرآن سنتے جاتے اور حضورؑ کی تکلیف کم ہوتی جاتی۔ موجود احباب میں سے کوئی بھی قرآن پڑھتا۔ اندرون خانہ میں نے حضرت اماں جانؓ یا حضرت مصلح موعودؓ کو ایسی حالت میں قرآن سناتے سنا ہے۔
ایک دفعہ خاکسار نے عرض کیا کہ حضور کی دعا سے تو لاعلاج مریض صحت پاتے ہیں۔ اپنے دوران سر کے لئے حضور صحت کی دعا فرماویں۔ تو حضورؑ نے فرمایا کہ مجھے اپنے دوران سر اور ذیابیطس کے متعلق دعا سے منع کیا گیا ہے۔ یہ دونوں امراض بطور نشان کے ہیں۔ جب سے ماموریت کا دعویٰ کیا ہے۔ تب سے میرے ساتھ یہ امراض ہیں۔
عہد دوستی
میری والدہ محترمہ حیات بیگم صاحبہؓ نے 1892ء میں اُس وقت بیعت کی تھی جب حضورؑ میرے دادا حضرت میاں چراغ الدین صاحبؓ رئیس اعظم لاہور کے ہاں لنگے منڈی میں آئے ہوئے تھے۔ حضورؑ یہاں دعوے سے بھی بہت پہلے آیا کرتے تھے۔ میرے نانا حضرت میاں فیروز الدین صاحبؓ رئیس اعظم لاہور بھی حضورؑ کے بچپن سے واقف تھے۔ والدہ محترمہ گو والدین کی اکلوتی لڑکی اور نواب میاں محمد سلطان صاحب مالک سلطان سرائے لنڈا بازار لاہور کی اکلوتی پوتی اور نواب کریم بخش صاحب وزیراعظم ریاست بہالپور کی اکلوتی نواسی تھیں۔ مگر ان کو والدین نے خانہ داری کے سارے شعبوں میں اعلیٰ صلاحیت پیدا کرائی ہوئی تھی۔ آپؓ نے بیعت کے بعد حضورؑ سے عرض کیا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ حضور جب بھی لاہور تشریف لایا کریں تو حضور کی ذاتی روٹی میں اپنے ہاتھ سے پکا کر پیش کیا کروں۔ حضورؑ نے فرمایا کہ آپ کے والد سے بھی ہماری دوستی ہے، آپ کے خسر تو میرے پیارے دوست ہیں اس لئے میں آپ کی خواہش کو منظور کرتا ہوں۔ چنانچہ اسی دن سے ہی جب کبھی حضور لاہور تشریف لاتے خواہ کہیں ٹھہرتے تو میری والدہ موصوفہ حضورؑ کے لئے دونوں وقت کا کھانا اپنے ہاتھ سے تیار کر کے پیش خدمت کرتی تھیں۔ آخری دفعہ جب حضور تشریف لائے اور احمدیہ بلڈنگ میں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان پر تھے۔ ساتھ کا جو مکان خواجہ کمال الدین صاحب کا تھا، اُس میں ملاقات فرمایا کرتے تھے۔ تب بھی حضور کے لئے دونوں وقت حضور کا خاص کھانا میری والدہ اپنے ہاتھ سے پکا کر میرے ہاتھ بھیجا کرتی تھیں۔ دستور یہ تھا کہ ایک وقت کا کھانا کھلا کر اگلے کھانے کے لئے حضور سے دریافت کر لیا جاتا کہ کیا لے کر آیا جائے۔ جو حضور فرماتے وہی کھانا حضور کے لئے پکایا جاتا۔ ایک دفعہ شام کے کھانے کے بعد حضور نے فرمایا کہ کل مونگ کی خشک دال کا سالن بنایا جائے۔ چنانچہ والدہ محترمہ نے وہ تیار کیا۔ اُس دن گھر میں بکرے کے گردے کپورے بھی پکوائے گئے تھے۔ جب میں حضور کا کھانا لانے لگا تو والد صاحب نے ایک پلیٹ میں پکے ہوئے گردے کپورے ڈال کر ساتھ رکھ دیئے اور کہہ دیا کہ حضور سے عرض کر دیں کہ گھر میں یہ پکا ہوا تھا حضور اس میں سے تبرک کر دیں۔ چنانچہ خاکسار وہ لے گیا۔ لیکن حضورؑ نے صرف خشک دال کا سالن کھایا مگر گردے کپورے والا سالن چھوا بھی نہ تھا۔ اس پر حضورؑ سے عرض کیا گیا کہ والد صاحب نے عرض کی تھی کہ حضور اس کو بھی متبرک کر دیں تو حضورؑ مسکرائے اور فرمایا کہ ہم یہ نہیں کھاتے۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ کیا ان کا کھانا جائز نہیں۔ فرمایا نہیں کھانا جائز ہے۔ پھر عرض کیا کہ حضور کو پسند نہیں تو پھر حضور نے یہی فرمایا کہ ہم یہ نہیں کھاتے۔ الغرض میں وہ بقیہ کھانا واپس گھر اپنے لے آیا۔ بعد میں مَیں نے حضرت خلیفہ اولؓ سے یہ واقعہ عرض کرکے دریافت کیا کہ حضور نے اس سالن کو چھوا تک نہیں۔ تو آپؓ نے فرمایا کہ یہ دونوں وہ چیزیں ہیں جن میں پیشاب صاف ہوتا اور ان سے جسم کی غلاظتیں صاف ہوتی ہیں۔ اہل اللہ لوگ ان کو کھانا پسند نہیں کرتے۔ میں بھی اسے استعمال نہیں کرتا۔
حضور کے کپڑے
والدہ محترمہ حضور کے لئے دیسی کرتہ بھی اپنے ہاتھ سے سی کر حضور کو بھجوایا کرتی تھیں۔ جب بھی خاکسار کرتہ لے کر جاتا تو حضور فرماتے: مجھے یہ بہت پسند ہے۔ اسی وقت حضورکمرہ میں جاکر پہلا کرتہ اتار کر اس کو پہن کر باہر آجاتے اور پہنا ہوا کرتہ مجھے دے دیتے جس کو والد صاحب دادا صاحب نانا صاحب باری باری پہنتے اور آخر میں اس کو دھو کر محفوظ کر لیتے۔ حضرت مسیح موعود کے کئی کرتے ہمارے پاس تھے جو 1947ء میں قادیان والی حویلی میں رہ گئے اور ہم دوبارہ اپنے گھر جاسکے نہ وہاں سے کچھ اٹھاسکے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں