سیدنا حضرت مصلح موعودؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍اپریل 2000ء میں حضرت مصلح موعودؓ کا ذکر خیر مکرم خلیفہ صباح الدین صاحب نے اپنے مشاہدات کے حوالہ سے تحریر کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ ہمارے والد محترم خلیفہ صلاح الدین صاحب مرحوم ذکر کیا کرتے تھے کہ انہوں نے جب ہوش سنبھالا تو دیکھا کہ ان کے والد حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ اپنی بیٹی سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ حرم حضرت مصلح موعودؓ یعنی حضرت امّ ناصر کی بہت قدر کرتے تھے۔ جب وہ آتیں تو کھڑے ہوکر اُن کا استقبال کرتے، قادیان سے باہر جاتے تو مل کر جاتے اور واپس آکر بھی پہلے اپنی بیٹی کے گھر جاتے۔ یہ احترام صرف اس لئے تھا کہ انہیں حضرت مصلح موعودؓ کی حرم اوّل ہونے کا شرف حاصل تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ بھی حضرت ڈاکٹر صاحبؓ سے بہت محبت کا سلوک فرماتے تھے۔ مکرم محمد حسین صاحب درزی کا بیان ہے کہ ایک رات عید کے قریب مَیں رات بھر اپنی دکان پر کام کرتا رہا۔ آدھی رات گزرنے کے بعد مَیں نے دیکھا کہ حضرت مصلح موعودؓ اپنی والدہ حضرت اماں جان ؓ کے ہمراہ ہاتھ میں لالٹین پکڑے کہیں جا رہے ہیں۔ مَیں حفاظت کے نکتہ نظر سے ان کے پیچھے ہولیا۔ دونوں متبرک ہستیاں باغ کی طرف جارہی تھیں جہاں حضرت ڈاکٹر صاحبؓ مقیم تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کی طبیعت کی خرابی کی اطلاع ملتے ہی حضورؓ اتنی رات گئے بغیر کسی خادم کے روانہ ہوگئے۔
حضرت مصلح موعودؓ بہت بہادر اور نڈر تھے۔ مضمون نگار اپنے والد کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک رات قادیان میں رات کے وقت گلی میں غیرمعمولی شور ہوا تو حضورؓ باہر والی سیڑھی سے فوراً نیچے اتر آئے اور بغیر کسی خوف کے شور کی طرف چل پڑے۔ پھر حقیقت حال جاننے کے بعد واپس تشریف لے گئے۔ اسی طرح دہلی کے جلسہ مصلح موعود کے موقع پر جب شریروں نے حملہ کیا تو حضورؓ کسی گھبراہٹ کے بغیر وہیں موجود رہے اور مستورات کی حفاظت کا سامان کرتے رہے۔ حملہ آوروں کے جانے کے بعد مستورات کو بحفاظت واپس پہنچاکر حضورؓ واپس تشریف لے گئے۔
ایک مرتبہ میری بہن کی پیدائش کے موقع پر والدہ محترمہ سخت بیمار پڑگئیں کہ جان کے لالے پڑگئے۔ حضور رتن باغ لاہور میں مقیم تھے اور ہم ماڈل ٹاؤن میں رہائش پذیر تھے۔ ابا فوراً دعا کی درخواست کے ساتھ حاضر ہوئے تو حضورؓ نے کسی اہم کام کے بارہ میں ارشاد فرمایا کہ یہ کام فوری کرو اور حفیظ (والدہ کا نام) کی فکر نہ کرو۔ ابا کہا کرتے تھے کہ مجھے اسی وقت تسلّی ہوگئی اور حضورؓ کا کام سرانجام دے کر جب شام کو مَیں گھر پہنچا تو ہماری والدہ کو صحت عطا ہوچکی تھی۔
مضمون نگار کا بیان ہے کہ حضورؓ نے اس عاجز کی پیدائش سے قبل بتادیا تھا کہ لڑکا ہوگا۔ کُل سات لڑکے ہوں گے۔ پھر حضورؓ نے منجد منگواکر سات نام رکھے۔ ہم سات بھائی ہوئے۔ تین وفات پاگئے۔ حضرت اماں جانؓ نے فرمایا:ہمیں بھائیوں کے ساتھ بہنیں اچھی لگتی ہیں، دعا کریں بچی ہو۔ پھر میری بہن پیدا ہوئیں۔
مَیں ربوہ سے باہر جاتا تو حضورؓ سے اجازت لے کر جاتا، شکار یا پکنک پر جانا ہوتا تو حضورؓ کارتوس وغیرہ عطا فرمادیتے۔ جب کھیل کی غرض سے باہر جانا ہوتا تو مَیں دعا کے لئے عرض کرتا۔ اگر حضورؓ فرماتے کہ اللہ رحم کرے تو میچ میں ہار ہوتی۔ اگر حضورؓ فرماتے اچھا اللہ فضل کرے گا یا دعا کروں گا تو پھر ہم جیت کر آتے۔
میرے ابا کی وفات راولپنڈی میں دوپہر سوابارہ بجے ہوئی۔ عین اُسی وقت حضورؓ نے حضرت چھوٹی آپا سے فرمایا کہ حفیظ (میری والدہ) کو اطلاع دیں خلیفہ صلاح الدین فوت ہوگئے ہیں۔
حضورؓ کے گھر میں ایک ٹیبل ٹینس کی میز ہوتی جس پر ہم کھیلا کرتے۔ حضور کھیلنے سے نہیں روکتے تھے باوجود اس کے کہ شور بھی ہوتا تھا۔ لیکن نماز باجماعت میں شامل ہونے کے لئے فرماتے کہ اب کھیل بند کرو۔
ایک مرتبہ میاں رفیق احمد صاحب اور خاکسار قصر خلافت کی طرف آرہے تھے کہ ہم نے حضورؓ اور حضرت سیدہ مہر آپا کو سرگودھا روڈ کی طرف جاتے دیکھا۔ ہم حیرت سے اور حفاظت کی غرض سے حضورؓ کے پیچھے روانہ ہوگئے۔ حضورؓ سڑک پر جاکر احمدنگر کی طرف مُڑ گئے۔ ٹریفک چل رہی تھی۔ ہم دوڑ کر حضورؓ کے قریب آگئے تو حضورؓ نے مسکراکر فرمایا: ’’ہمارا سیر کو جی چاہ رہا تھا، پہرہ داروں سے آنکھ بچاکر نکل آئے پر تم لوگوں نے پکڑ لیا‘‘۔ وہ شخص کیوں نہ نڈر اور بہادر ہو جس نے خدا کی خاطر تمام دنیا سے ٹکر لے لی۔
حضورؓ کا اعلیٰ درجہ کا لاثانی عالم ہونا، مقرر ہونا اور اردودان ہونا تو مسلّمہ ہی تھا، ایک مرتبہ حضورؓ کو ایک امریکن سے انگریزی میں روانی سے گفتگو کرتے ہوئے بھی دیکھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں