سلطنتِ برطانیہ سے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کی ایک الہامی پیشگوئی کے ظہور پر مشہوربرطانوی مؤرخ کی شہادت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21مارچ 2011ء میں مکرم مسعود احمد صاحب دہلوی کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جو ایک پرانی اشاعت (مطبوعہ 1960ء) سے منقول ہے۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک الہامی پیشگوئی کے بروقت ظہور پر مشہور برطانوی مؤرخ مسٹر ٹوائن بی کی شہادت کا ذکر کیا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے 1891ء میں قیام لدھیانہ کے دوران اپنے بعض صحابہ کو اپنا حسب ذیل الہام سنایا:

سلطنت برطانیہ تا ہشت سال
بعد ازاں ایّام ضُعف و اختلال

یعنی سلطنت برطانیہ کاموجودہ عروج آٹھ سال تک اسی طرح برقرار رہے گا۔ اس کے بعد کمزوری اور اضمحلال کے آثار شروع ہو جانے کے باعث اس کے زوال کی بنیاد پڑے گی۔
حضرت مولوی عبداللہ صاحبؓ سنوری کی بیان کردہ روایت کے مطابق یہ الہام 1891ء سے بھی قبل کا ہے۔ گو اسے حضور نے بیان اپنے قیام لدھیانہ کے دوران بھی کیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ الہام 1888ئ، 1889ء یا اس سے بھی کچھ قبل کے زمانہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر الہام کے الفاظ کے مطابق اس میں آٹھ سال جمع کئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سلطنت برطانیہ کے زوال کی بنیاد 1896-97ء یا اس کے قرب و جوار کے زمانہ میں پڑنی مقدّر تھی۔ ہر چند کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اس الہام کو اس زمانہ میں شائع نہیں فرمایا لیکن چونکہ حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ نے یہ الہام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو سنا دیا تھا اس لئے انہوں نے انہی دنوں اسے اپنے رسالہ ’’اشاعۃ السنہ‘‘ میں چھاپ دیا۔ اس کے بعد وہ ’’پیشگوئی ہشت سالہ‘‘ کے نام سے اس کا بار بار ذکر کرتے رہے تاکہ انگریز حکومت کو حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف بھڑکایا جاسکے۔ (مثلاً ملاحظہ ہو ’’اشاعۃالسنہ‘‘، جلد13 نمبر3-1 صفحہ 3)
جس زمانے میں حضورؑ کو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی اس زمانے میں کوئی ایک شخص بھی یہ باور کرنے کے لئے تیار نہ تھا کہ آٹھ سال کی قلیل مدت کے اندر برطانیہ عظمیٰ کی وسیع و عریض سلطنت زوال پذیر ہونی شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ اس وقت برطانیہ کی قسمت کا سورج نصف النہار پر چمک رہا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت مسیح موعودؑ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امر کا تفصیلی علم نہیں دیا گیا تھا کہ اس زوال کی نوعیت کیا ہوگی اور یہ کہ اس سے مراد کیا ہے؟ یا پھر آپ اسے ظاہر کرنا مناسب خیال نہیں فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت پیرسراج الحق صاحب نعمانیؓ نے اس الہام کے بارہ میں آپؑ سے عرض کیا کہ اس میں روحانی اور مذہبی طاقت کا ذکر معلوم ہوتا ہے۔ تو آپؑ نے فرمایا جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا ہم پیش ازوقت کچھ نہیں کہہ سکتے۔
وقت گزرتا گیا اور دنیا والوں کی نگاہ میں بظاہر برطانیہ کی طاقت میں زوال و اضمحلال کے آثار رونما نہیں ہوئے اور برطانوی قوم یہی سمجھتی رہی کہ اس کا غلبہ ہمیشہ ہمیش قائم رہے گا۔ قریباً پچیس سال گزرگئے تو یکایک پہلی جنگ عظیم شروع ہوگئی جو چار سال تک جاری رہی۔ جب اس پر بھی قریباً 25 سال گزر گئے تو دوسری جنگ عظیم چھڑگئی اور اس نے بھی پانچ چھ سال دنیا کو خوب تہ و بالا کیا۔ ان دونوں جنگوں کے نتیجہ میں برطانیہ کی قوت زائل ہو کر رہ گئی، ہر چند کہنے کو اسے شکست کا منہ دیکھنا نہیں پڑا۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کی وہ پہلی سی قوت باقی نہیں رہی اور اسی لئے چند سال کے اندر ہی برطانوی سلطنت سمٹنی شروع ہوئی اور وہ وسیع و عریض علاقے جو اس کے زیرنگین تھے ایک ایک کرکے آزاد ہونے لگے ۔
بعد ازاں یورپ اور خود برطانیہ کے اپنے مؤرخ اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے کہ برطانیہ جس زمانے کو اپنے انتہائی عروج کا زمانہ سمجھتا تھا اس کے زوال کی اصل بنیاد عین اس زمانے میں ہی پڑ چکی تھی۔ چنانچہ برطانیہ کے نامور فلسفی اور مؤرخ مسٹر آرنلڈ جے ٹوائن بی نے جنہیں ساری دنیا میں ان کے علم و فضل کی وجہ سے بہت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، 1947ء میں ایک مضمون “The Present Point in History” کے زیرعنوان لکھا تھا۔ اس میں انہوں نے برطانوی قوم کے زوال کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے اسباب و عوامل پر بھی روشنی ڈالی ہے اور بالآخر وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ وہ باطنی تحریکات جو بالآخر پچاس سال کے بعد ایک ہولناک طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں اور جس کے نتیجہ میں برطانیہ کی طاقت منتشر ہوکر رہ گئی، دراصل 1897ء میں ہی شروع ہوچکی تھیں۔
مسٹر ٹوائن بی کا یہ مضمون ان کے اس مجموعہ مضامین میں شامل ہے جو “Civilization on Trial” کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ اس میں انہوں نے 1897ء کے زمانہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس وقت برطانوی قوم قوّت و اقتدار کے نشہ میں پوری طرح مدہوش تھی، وہ سمجھتی تھی کہ اب دنیا کی تاریخ اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے۔ اہل برطانیہ اس خیال میں مگن تھے کہ 1815ء میں واٹرلُو کی لڑائی جیتنے کے بعد امورخارجہ کی سب الجھنیں ہمیشہ کے لئے طے ہوچکی ہیں۔ اسی طرح ان کا خیال تھا کہ 1832ء میں مشہور ریفارم بل پاس ہو جانے کے بعد داخلی امور کو وہ استحکام نصیب ہوا ہے کہ ان میں تزلزل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ نیز 1857ء کا معاملہ ہونے اور ہندوستان کے پوری طرح زیرنگیں آجانے کے بعد وہ مطمئن تھے کہ اب سلطنت برطانیہ پر کبھی سورج غروب نہ ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں کہ برطانوی قوم کے وہ لوگ جو 1897ء میں ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی کے موقعہ پر لندن میں برطانوی نو آبادیات کی فوجوں کا مارچ پاسٹ دیکھ رہے تھے ان میں سے بہت ہی کم تھے جو یہ سوچنے کی زحمت اٹھانے کے لئے تیار تھے کہ ہر کمال بالآخر زوال پر منتج ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ انہیں اپنی قسمت کا سورج نصف النہار پر چمکتا ہوا دکھائی دے رہا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ اب نصف النہار پر ہی ٹھہرا رہے گا اور لطف یہ ہے کہ انہوں نے اس بات کی ضرورت بھی نہیں سمجھی کہ یشوع کی طرح سورج کو نصف النہار پر ٹھہرے رہنے کا سحر آمیز حکم ہی دے دیتے۔ (یہاں مسٹر ٹوائن بی نے بائبل میں مندرج صحیفۂ یشوع کے باب 10 کی آیات 13,12 کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں مذکور ہے کہ یشوع کے حکم سے سورج ٹھہرا رہا اور اس وقت تک غروب نہ ہوا جب تک کہ بنی اسرائیل نے دشمنوں سے انتقام نہ لے لیا۔)
مسٹر ٹوائن بی لکھتے ہیں کہ 1897ء میں برطانوی قوم اپنے حق میں اس خیالی معجزے کو ایک طے شدہ حقیقت تصور کر بیٹھی۔ بادی النظر میں انہیں جو کچھ دکھائی دے رہا تھا اس کی رُو سے ان کے نزدیک تاریخ اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی۔
وہ مزید لکھتے ہیں: ’’1947ء کے تاریخی حالات کی روشنی میں جب ہم (پچاس سال) پیچھے کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں برطانوی قوم کے متوسط طبقے کی یہ خام خیالیاں سراسر جنون اور دیوانگی کے مترادف نظر آتی ہیں۔‘‘
اس کے بعد مسٹرٹوائن بی نے مغربی اقوام کے مزاج اور ان کی تہذیب کا تجزیہ کرکے اُس عام ذہنی کشمکش اور بے اطمینانی پر روشنی ڈالی ہے جو اس تہذیب کی وجہ سے یورپ کی اکثر اقوام کے متوسط طبقوں میں پیدا ہوئی اور جو بالآخر سلطنت برطانیہ کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہو کر رہی۔ اسی ضمن میں انہوں نے مزید لکھا ہے کہ یہ ذہنی کشمکش اور بے اطمینانی در پردہ 1897ء میں شروع ہو کر زمانے کے حالات پر اثر انداز ہونی شروع ہوگئی تھی۔
وہ لکھتے ہیں: ’’بادی النظر میں دکھائی نہ دینے والی وہ زیر زمین تحریکات جنہیں باطنی کشمکش کو بھانپنے والا ایک سماجی ماہر 1897ء میں زمین سے کان لگا کر محسوس کرسکتا تھا اصل باعث ہیں ان زلزلوں اور طوفانوں اور آتش فشاں دھماکوں کا جنہوں نے گزشتہ پچاس سال کے عرصہ میں تاریخ کی بے رحم چکّی یا جگن ناتھ کی اندھی رَتھ کو حرکت میں آنے کا اشارہ کیا ہے‘‘۔ (مراد ہندوؤں کے جگن ناتھ نامی اس اوتار کی رتھ سے ہے جس کے آگے لوگ اندھا دھند اپنے آپ کو پھینک کر ہلاک کرلیتے تھے۔)
مسٹر ٹوائن بی جیسے عظیم مؤرخ اور فلسفی کا یہ اعتراف کہ وہ عوامل جو بالآخر 50 سال کے طویل عرصہ میں برطانوی اور دیگر یورپی اقوام کے زوال کا باعث بنے دراصل 1897ء میں ہی جنم لے چکے تھے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا الہام کی صداقت کو نہایت شان کے ساتھ آشکار کررہا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں