تعارف کتاب و انتخاب از: ’’زندہ درخت‘‘

فرخ سلطان محمود

(مطبوعہ انصارالدین مئی جون 2012ء)

’’زندہ درخت‘‘

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہر چیز جو تخلیق کی گئی ہے، اُس کے لئے فنا مقدّر ہے۔ اور وجود میں آنے والی ہر زندگی کے لئے موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے عبادالرحمن جو اپنی زندگیوں کا مقصد حاصل کرنے کی سعی میں اپنی ساری زندگی بسر کردیتے ہیں، وہ نہ صرف اپنے خالق و مالک کے حضور، روحانی طور پر حیات جاودانی پالیتے ہیں بلکہ تاریخ کے اوراق میں بھی اُن کا اسم گرامی ہمیشہ کے لئے سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے۔
آج ہمارے پیش نظر کتاب ’’زندہ درخت‘‘ ایک ایسی ہی تصنیف ہے جو ایسے پاکیزہ وجودوں سے معنون ہے جنہوں نے مسیح الزمانؑ کے دست مبارک کو چھونے کی سعادت حاصل کی اور ایسے روحانی ماحول میں اپنی زندگیاں بسر کرنے کی سعادت پائی جو احمدیت کی برکت سے دنیاداری سے کوسوں دُور تھا اور اس ماحول میں پرورش کے نتیجہ میں انفرادی روحانی ترقیات کی ضمانت دی جاسکتی تھی۔
صد سالہ جشن تشکر کے حوالہ سے طبع کی جانے والی یہ ضخیم کتاب شعبہ اشاعت لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی کی پیشکش ہے جسے مکرمہ امۃالباری ناصر صاحبہ نے مرتب کیا ہے۔ A5 سائز کے 363 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا سرورق بھی ایک انفرادیت کا حامل ہے۔ ’’زندہ درخت‘‘ کی وجہ تسمیہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کا یہ شعر ہے جسے سرورق کی زینت بنایا گیا ہے:

جتنے درخت زندہ تھے وہ سب ہوئے ہرے
پھل اس قدر پڑا کہ وہ میووں سے لد گئے

سرورق پر حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ ہرسیاں والے، محترم میاں عبدالرحیم صاحب درویش قادیان اور حضرت حکیم اللہ بخش صاحبؓ مدرس کی تصاویر شائع کی گئی ہیں جبکہ کتاب کے اندر بھی چند تصاویر شامل اشاعت ہیں۔ تینوں بزرگوں کے حوالہ سے کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تینوں بزرگوں کی سیرۃ پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے علاوہ ان کی نسلوں کا مختصر تعارف اور اُن پر ہونے والے خدائی افضال کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ذیل میں اپنے کالم کے محدود صفحات کے پیش نظر اس کتاب کے صرف منتخب حصے پیش کئے جارہے ہیں تاہم اس امر میں کوئی شک نہیں کہ کتاب میں بیان شدہ سیرۃ کے واقعات اتنے دلچسپ اور ایمان افروز ہیں کہ ان مضامین کا انتخاب خاصا دشوار مرحلہ تھا۔ کیونکہ یہ اصحابِ احمدؑ نہ صرف اپنی ذات میں فرشتوں کی سی خُوبُو کے حامل تھے بلکہ صداقتِ احمدیت کی ایک منہ بولتی تصویر تھے۔ نہ صرف ان کی زندگیاں بلکہ ان کی موت بھی حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت پر گواہ ہے۔

حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ

1895ء میں بذریعہ خط حضرت مسیح موعودؑ کی غلامی میں آنے والے حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ کو 1897ء میں زیارت کا شرف عطا ہوا۔ حضورؑ نے 1898ء میں ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں 316 منتخب اصحاب کے نام درج فرمائے ان میں 299 نمبر پر آپؓ کا نام تحریر ہے۔ آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ جہلم کے سفر میں معیت کی سعادت بھی عطا ہوئی۔
حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ1866ء میں پیدا ہوئے اور 90 سال کی عمر پاکر 7؍ نومبر 1956ء کو وفات پائی۔ 21 مئی 1906ء کو آپؓ نظام وصیت میں شامل ہوئے۔ آپؓ کا وصیت نمبر 102 ہے۔ اسی طرح تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں آپ کا نمبر 526 ہے۔ آپؓ کا جنازہ حضرت مصلح موعودؓ نے پڑھایا اور 9نومبر 1956ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’میاں فضل محمد صاحب …کے ایک لڑکے نے بتایا کہ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ مَیں نے جس وقت بیعت کی اس کے قریب زمانہ میں ہی مَیں نے ایک خواب دیکھا جس میں مجھے اپنی عمر 45 سال بتائی گئی۔ مَیں حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور رو پڑا اور مَیں نے کہا حضور! بیعت کے بعد تو میرا خیال تھا کہ حضور کے الہاموں اور پیشگوئیوں کے مطابق احمدیت کو جو ترقیات نصیب ہونے والی ہیں انہیں دیکھوں گا مگر مجھے تو خواب آئی ہے کہ میری عمر صرف 45 سال ہے۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ کے طریق نرالے ہوتے ہیں شاید وہ 45 کو 90 کردے۔ چنانچہ کل جو وہ فوت ہوئے تو اُن کی عمر پورے 90 سال کی تھی۔ اس طرح احمدیت کی جو ترقیات ملیں وہ بھی انہوں نے دیکھیں اور 61 جلسے بھی دیکھے۔ان کے چار بچے ہیں جو دین کی خدمت کررہے ہیں۔ ایک قادیان میں درویش ہوکر بیٹھا ہے۔ ایک افریقہ میں مبلغ ہے۔ ایک یہاں مبلغ کا کام کرتا ہے اور چوتھا لڑکا مبلغ تو نہیں مگر وہ اب ربوہ آگیا ہے اور یہیں کام کرتا ہے۔ پہلے قادیان میں کام کرتا تھا۔ لیکن اگر کوئی شخص مرکز میں رہے اور اس کی ترقی کا موجب ہو تو وہ بھی ایک رنگ میں خدمتِ دین ہی کرتا ہے۔…‘‘
* حضرت مصلح موعودؓ نے خواب کا ذکرکیا ہے جو حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ نے اپنی عمر کے بارہ میں دیکھی تھی۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے مجھے خواب میں فرمایا تھا کہ آپ کے گھر تین بیٹے ہوں گے۔ پہلے کا نام عبدالغنی دوسری کا نام ملک غنی اور تیسرے کا نام پتال غنی رکھنا اور آپ کی عمر 45 سال کی ہوگی۔ جب مَیں قادیان آیا تو ایک روز حضورؑ مسجد کے اوپر بیٹھے تھے اور چند اور اصحاب بھی وہاں بیٹھے تھے۔ مَیں نے اپنی خواب عرض کی تو مولوی عبدالکریم صاحبؓ ہنس کر بولے کہ پھر بتلاؤ کہ پہلے کا نام کیا ہے اور دوسرے کا نام کیا؟۔ جب مَیں نے دوبارہ بتلایا تو وہ پھر بولے کہ پھر بتلاؤ۔ تو مَیں نے عرض کی کہ حضور! مولوی صاحب تمسخر کرتے ہیں اور مجھے بڑا غم لگا ہوا ہے۔ حضورؑ مسکراکر بولے کہ آپ کو کیا غم ہے؟ تو مَیں نے عرض کی کہ حضور میری عمر اس وقت تقریباً تیس سال کی ہے اور تھوڑی باقی رہ گئی ہے۔ ابھی مَیں نے حضورؑ کا زمانہ دیکھنا ہے۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے وہ دوگنی کردیا کرتا ہے۔
حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ کی بیان فرمودہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی پہلی بیعت اُس وقت اتفاقاً ہوگئی تھی جب آپ کے ایک دوست نے بیعت عام کے وقت آپ کا ہاتھ پکڑ کر آگے کردیا تھا۔ لیکن چند روز بعد اس سوچ کے نتیجہ میں آپ نے ایک جوش کے ساتھ دوبارہ قادیان جاکر بیعت کرلی کہ قادیان میں جو کچھ بھی دیکھا یا سنا وہ سب عین اسلام ہے۔ کچھ عرصہ بعد آپ کی اہلیہ محترمہ نے بھی ایک خواب کے نتیجہ میں قادیان جاکر بیعت کی سعادت پائی۔
* حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ کی اہلیہ حضرت برکت بی بی صاحبہؓ کا تعلق دیالگڑھ کے ایک متعصب گھرانہ سے تھا لیکن اپنے خاوند کی بیعت کے فوراً بعد ہی قادیان آکر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ دراصل آپؓ کی رہنمائی خوابوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی کرچکا تھا۔ چنانچہ پہلی دفعہ جب آپؓ قادیان پہنچیں تو میاں صاحب سے کہا کہ اب آپ مجھے راستہ نہ بتائیں بلکہ میرے ساتھ ساتھ آئیں، مَیں اُس راستے سے جاؤں گی جو خوابوں میں دیکھا کرتی ہوں۔ چنانچہ آپؓ خود چلتی ہوئی دارالمسیح تک پہنچ گئیں۔ اور پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رُخ انور پر نظر پڑی تو پہچان گئیں کہ یہ وہی بزرگ ہیں جن کو خواب میں دیکھا تھا اور فوراً بیعت کرلی۔ پھر اپنے شوہر سے فرمائش کی کہ مَیں آپ سے کچھ نہیں مانگتی، صرف یہ وعدہ کریں کہ مجھے قادیان جانے سے نہیں روکیں گے۔
* حضرت برکت بی بی صاحبہؓ قادیان آتیں تو حضرت اماں جانؓ کے پاس ہی قیام ہوتا۔ آپؓ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتیں۔ کھانے پکانے میں کافی مہارت تھی۔ پہلی بار کھانا پکایا تو حضورؑ نے پسند فرمایا اور پوچھا کہ کس نے کھانا پکایا ہے؟ حضرت امّ المومنینؓ نے ان کے بارہ میں بتایا تو حضورؑ نے ازراہ شفقت ارشاد فرمایا کہ اب یہ جب بھی آئیں کھانا یہی پکایا کریں۔ اس طرح آپؓ کو ایک بابرکت خدمت کی توفیق ملنے لگی۔ آپؓ قادیان آتیں تو کئی کئی دن ٹھہر جاتیں۔
* آپؓ اکثر اپنی بڑی بچی رحیم بی بی کو بھی ہمراہ لے آتیں۔ اس بچی کی ایک بھولپن کی فرمائش کا دلچسپ واقعہ یوں ہے کہ حضورؑ کسی تصنیف میں مصروف تھے۔ بچی حضرت صاحب کو پنکھا کررہی تھی۔ خدا جانے اس بچی کے دل میں کیا آیا کہ وہ ایک کھڑکی پر چڑھ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی: ’حضرت جی! آپ یہاں آجائیں تو مَیں آپ کو پنکھا کروں‘۔ اور حضورؑ بچی کی دلجوئی کی خاطر کام چھوڑ کر کھڑکی کے پاس تشریف لے آئے۔

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں