ربوہ کے بازار

ایک بار کسی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ مَیں تجارت کے لئے قادیان آنا چاہتا ہوں۔ آپؑ نے فرمایا:
’’یہ نیت فاسد ہے، اس سے توبہ کرنی چاہئے۔ یہاں تو دین کے واسطے آنا چاہئے اور اصلاح عاقبت کے لحاظ سے رہنا چاہئے۔ نیت تو یہی ہو، اگر پھر اس کے ساتھ ساتھ کوئی تجارت وغیرہ یہاں رہنے کی اغراض کو پورا کرنے کے لئے ہو تو حرج نہیں۔ اصل مقصد دین ہو نہ دنیا۔ کیا تجارتوں کے لئے دوسرے شہر موزوں نہیں؟۔ یہاں آنے کی اصل غرض کبھی دین کے سوا اَور نہ ہو، جو کچھ حاصل ہوجائے وہ خدا تعالیٰ کا فضل سمجھو۔‘‘
ربوہ کا شہر آباد کرنے کے پیچھے بھی حضرت مصلح موعودؓ کی یہی غرض نمایاں تھی۔ چنانچہ فرمایا:
’’ہر شخص کو خواہ اُس کی تجارت کا نقصان ہو یا اُس کے کاروبار پر اس کا اثر پڑے سال میں ایک ماہ خدمت دین کے لئے ضرور وقف کرنا ہوگا۔‘‘
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍دسمبر 1999ء میں مکرم عبدالحلیم سحر صاحب کے مضمون ’’ربوہ کے بازار‘‘ کی آخری قسط میں ربوہ میں مختلف تاجروں کی فہرست مرتب کی گئی ہے۔ اور بیان کیا ہے کہ ربوہ کے دوکاندار حسن اخلاق اور تقویٰ میں دیگر شہروں کے دوکانداروں سے مختلف نظر آتے ہیں۔ مثلاً
مکرم میجر (ر) سعید احمد صاحب کے والد مکرم چودھری محمد بوٹا صاحب کی دوکان ’’سیالکوٹ شاپ‘‘ رحمت بازار میں تھی۔ جب اُن کی وفات ہوئی تو بیس پچیس ایسے افراد آئے جن سے میجر صاحب کی جان پہچان نہیں تھی۔ یہ غیرازجماعت غریب لوگ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ چودھری صاحب اُن کے لئے باپ کی طرح تھے اور بڑے سخی اور رحمدل تھے۔ اگر کبھی اُن سے پانچ کلو آٹا مانگا تو کہتے کہ چھ سات بچوں کے ساتھ پانچ کلو آٹا کتنی دیر چلے گا؟۔ ہم جواب دیتے کہ پیسے ہی اتنے ہیں۔ وہ کہتے کہ بیس کلو لے جاؤ، جب پیسے ہوں دیدینا ورنہ کوئی بات نہیں۔ اور کبھی پیسے لیتے ہی نہیں تھے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ میرے والد مکرم قریشی عبدالغنی صاحب مرحوم اور تایا مکرم قریشی فضل حق صاحب مرحوم دونوں گولبازار میں اکٹھی دوکان کیا کرتے تھے۔ دونوں نمازوں کے اوقات کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ ایک دن مَیں دوکان میں موجود تھا- جب عصر کی نماز میں چار پانچ منٹ باقی تھے تو چند خواتین دوکان پر سودا خریدنے آئیں۔ اباجی نے کہا کہ سودا نماز کے بعد ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ انتظار نہیں کرسکتیں اور یہ کہ انہیں چالیس پچاس روپے کا سامان خریدنا ہے۔ اگر آپ نہیں دے سکتے تو ہمیں کسی اَور سے خریدنا پڑے گا۔ اباجی نے کہا کہ کسی اَور سے خرید لیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی پانچ منٹ ہیں، سودا دیدیں۔ اباجی نے کہا کہ رازق اللہ ہے، اُس کی عبادت پہلے اور کاروبار بعد میں۔ چنانچہ دوکان بند کی اور اطمینان سے مسجد چلے گئے۔ جب نماز کے بعد دوکان کھولی تو ایک گاہک آیا اور 460؍روپے کا سودا خریدا۔ اباجان نے مجھے مخاطب ہوکر کہا کہ بیٹا دیکھا! میرے خدا نے مجھے کئی گنا زیادہ عطا کردیا ہے۔ یہ حیران کن واقعہ تھا کیونکہ اُس زمانہ میں دوکان کی کُل سیل چار پانچ سو روپے یومیہ تھی۔
مضمون نگار مزید لکھتے ہیں کہ میرے تایا جان مسجد مہدی کے امام الصلوٰۃ تھے، نمازوں کو ہمیشہ اوّل نمبر پر رکھا۔ دعوت الی اللہ کا جنون تھا۔ کوئی غیراز جماعت آتا اور یہ دعوت الی اللہ میں مصروف ہوتے تو دسیوں گاہک بھی آتے تو یہ گاہکوں کو کہہ دیتے کہ کسی اَور دوکان سے سودا خرید لیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں